بے ایمانی،کم ہمتی، نقب زنی اور گیدڑ کی زندگی، یہ چار عناصر یکجا ہوتے ہیں تو نقل جنم لیتی ہے۔ نقل کرکے کامیاب ہونے والے طلبہ میں علم کا نور اور تربیت کا فیض آنا اتنا ہی مشکل ہے جتنا مولانا طاہر اشرفی کا دوڑ میں اول آنا۔ عملی زندگی میں آکر نقل کرنے والے کوئی قیامت برپا کرنا چاہتے ہیں لیکن پھر ڈاکٹر شاہد مسعود بن جاتے ہیں۔ الہ دین کے چراغ اور میک اپ شدہ عورت دونوں کو رگڑو تو اندر سے جن ہی نکلتا ہے۔ امریکا میں کامیاب طلبہ کو رگڑا گیا تو اندر سے نقل ہی نکلی۔ امریکا میں ایک سروے کے دوران اپنی جماعت میں بہترین طالب علموں کی شہرت رکھنے والے طالب علموں کی 80فی صد نے نقل کرنے کو تسلیم کیا ہے اور ان کا 95فی صد کبھی گرفت میں نہ آنے کی وجہ سے اسے بڑی کامیابی تسلیم کرتا ہے۔ ہمارے یہاں بھی ایسا ہی سمجھا جاتا ہے۔ کہا جاتا ہے ’’نقل کے لیے بھی عقل کی ضرورت ہوتی ہے۔‘‘ لیکن پہلے اس عقل کا استعمال بڑے ڈر اور خوف کے ساتھ کیا جاتا تھا۔ اِدھر اُدھر دیکھتے ہوئے جھجکتے ہوئے۔
بے نگاہ آنکھوں سے دیکھتے ہیں پرچے کو
بے خیال ہاتھوں سے
ان بنے سے لفظوں پر انگلیاں گھماتے ہیں
یا سوال نامے کو دیکھتے ہی جاتے ہیں
سوچتے نہیں اتنا جتنا سر کھجاتے ہیں
ہر طرف کنکھیوں سے بچ بچاکے تکتے ہیں
دوسروں کے پرچوں کو رہنما سمجھتے ہیں
شاید اس طرح کوئی راستہ ہی مل جائے
بے نشاں جوابوں کاکچھ پتا ہی مل جائے
اب نقل دولت، طاقت، بڑے دھونس اور دھڑلے سے کی جاتی ہے۔ نظام میں کوئی ایسی خرابی ہے کہ اب علم حاصل کرنے سے تسکین نہیں ہوتی بلکہ تعلیم کا مقصد زیادہ سے زیادہ نمبروں کا حصول ہوکر رہ گیا ہے۔ اس میں والدین کا بھی بڑا دوش ہے جو اپنے بچے کی علمی قابلیت جانچنے کے بجائے مارکس شیٹ پر زیادہ سے زیادہ نمبر دیکھنا چاہتے ہیں۔ یہ پورا سسٹم نمبروں کی اس حد سے بڑھتی ہوئی خواہش کی تکمیل میں بذریعہ نقل معاون کا کردار ادا کررہا ہے۔ ایک ایک امتحانی سینٹر میں نقل کی صورت میں لاکھوں روپے کا لین دین ہوتا ہے جس کے عوض طلبہ کو خصوصی کمرے میں بٹھا دیا جاتا ہے۔ نقل کے لیے پرچے، نوٹس اور کتابیں مہیا کی جاتی ہیں۔ ترقی یافتہ ممالک میں یہ طریقے متروک ہوچکے ہیں۔ چین کے ایک امتحانی سینٹر کا منظر ہم نے دیکھا ہے۔ پرچہ امتحان ملتے ہی ایک طالب علم کی شرٹ میں بٹن کی جگہ لگے کیمرے نے پرچے کو فوکس کیا۔ کیمرے کے دوسری طرف موجود شخص نے سوالنامہ دیکھ کر طلبہ کو جواب ڈکٹیٹ کرانا شروع کردیا۔ طلبہ نے ایک منا سا اسپیکر کان میں لگایا اور آرام سے پرچہ حل کرنا شروع کردیا۔ ممتحن مطمئن کہ سب طالب علم بائیں کان پر ہاتھ رکھے کہنی ڈیسک پر ٹیکے بڑے استغراق سے پرچہ حل کررہے ہیں۔ ہمیں تب پتا چلا کہ چائنا کی بنی ہوئی اشیا اتنی غیر معیاری کیوں ہوتی ہیں کہ محاورہ بن گئی ہیں۔ ایک طالب علم نے دوسرے سے کہا ’’ پچھلے ہفتے میرے والد انتقال کرگئے‘‘۔ ساتھی طالب علم نے پوچھا ’’کیسے‘‘ جواب ملا ’’اسٹول پر چڑھ کر بلب لگا رہے تھے کہ گرے اور مرگئے‘‘۔ ساتھی طالب علم نے کہا ’’تمہارے ابا چائنا کے بنے ہوئے تھے کیا۔‘‘
ہمارے ایک دوست ہیں۔ ان کی کتابوں کی دکان ہے۔ سارا سال جب ساتھی دکاندار دس بیس فی صد پر کتابیں کاپیاں بیچ رہے ہوتے ہیں یہ ان کی طرف دیکھ کر اس طرح مسکراتے ہیں جیسے گالیاں کھانے پر کے الیکٹرک۔ تاہم جیسے ہی امتحانات کا سیزن شروع ہوتا یہ اپنی دکان کو شارٹ نوٹس، مائیکرو نوٹس، گیس پیپرز، حل شدہ پرچہ جات اور نہ جانے نقل میں معاونت کرنے والے کس کس طرح کے مواد سے بھر دیتے ہیں۔ ہم نے اس دکانداری پر اعتراض کیا تو بولے پاکستان میں ہر کاروبار چل جاتا ہے یہاں اگر چوہوں کی دکان بھی کھولو تو لوگ یہ سوچ کر خریدلیں گے کہ چلو لے لیتے ہیں رشتے داروں کے گھر چھوڑیں گے۔ میں تو پھر بھی ڈیمانڈ کا آئٹم بیچ رہا ہوں۔ اور یہ تم کیا نقل کرنے والے طلبہ کو برا بھلا کہتے رہتے ہو۔ جس طرح جمہوریت خود کرپشن کو فروغ دیتی ہے اسی طرح یہ سسٹم بھی نقل کو بڑھاوا دیتا ہے۔ جہاں پورا سسٹم ہی کرپشن پر استوار ہے اچھا ہے بچے طالب علمی کے زمانے ہی سے کرپشن میں طاق ہوجائیں۔ نقل کرنا ایک تخلیقی کام ہے۔ یہ نقل ہی ہے جو تمہیں ٹی وی ٹاک شوز میں بات کرنے والے فلاسفر مہیا کررہی ہے ڈھیروں ڈھیر۔
ہم نے کہا ’’لیکن نقلی فلاسفر‘‘ یہ نقل ہی ہے جو تمہیں اساتذہ کرام مہیا کررہی ہے ڈھیروں ڈھیر۔ ہم نے کہا ’’لیکن شاہین وعقابوں کو خاکباز بنانے والے‘‘۔ یہ نقل ہی ہے جو تمہیں سائنس دانوں کی کھیپ مہیا کررہی ہے۔ ہم نے کہا ’’لیکن نقلی سائنس دانوں کی‘‘۔ زچ ہوکر بولے تم بڑے جمہوری بنے پھرتے ہو، تمہیں نقل کرنے والے طلبہ پرا عتراض کیا ہے۔ جمہوریت اکثر یت کی حکمرانی کا نام ہے۔ اس ملک میں نقل کرنے والے طلبہ اکثریت میں ہیں۔ نقل نہ کرنے والے آٹے میں نمک کے برابر ہیں۔ جمہوریت کی رو سے کس کی بات مانی جائے گی؟ کس کا حق فائق ہوگا؟ بولو، جواب دو، تمہیں چپ کیوں لگ گئی؟
ماہرین تعلیم اس بات پر حیران ہیں کہ نقل کرنا کس قدر عام ہوگیا ہے۔ لیکن یہ دینی مدارس کا مسئلہ نہیں ہے۔ حضرت مولانا شاہ ابرار الحق فرمایا کرتے تھے کہ ہمارے مدرسے میں سالانہ امتحانات ہوتے تو کتابیں اور شروحات سب ایک کمرے میں رکھ دی جاتیں۔ طلبہ کو ایک ہال میں بٹھا کر ممتحن کمرہ بند کرکے باہر نکل جاتے۔ لیکن اس سے پہلے صرف یہ اعلان کردیتے کہ دیکھو نقل کرکے پاس ہوئے تو جہنم میں جاؤ گے اور اگر بغیر نقل کیے فیل ہوئے تو جنت میں جاؤ گے۔ اس اعلان سے ایسی ایمانی کیفیت پیدا ہوجاتی کہ طلبہ فیل ہونا پسند کرتے لیکن نقل نہ کرتے۔ کئی سال پہلے کی بات ہے ہمارے ادارے جامعۃ السعیدکے میٹرک کے طالب علموں کا اورنگی ٹاؤن میں سینٹر پڑا۔ ممتحن حضرات نے طلبہ سے دو دوسو روپے طلب کیے جس کے عوض انہیں نقل کرنے کی پوری آزادی تھی۔ طلبہ کو شاید پہلے سے خبر تھی سب نے دے دیے۔ ممتحن ہمارے طلبہ کے پاس آئے تو انہوں نے صاف انکار کردیا اور کہا کہ وہ نہ دوسو روپے دیں گے اور نہ ہی نقل کریں گے کیوں کہ وہ نقل کرنے کو حرام سمجھتے ہیں۔ ممتحن نے بہت دھمکیاں دیں لیکن وہ اپنی بات سے نہ پھرے۔ معاشرے کی نگاہوں سے اوجھل کھلنے والے ان گلابوں پر یہ اللہ اور اللہ کے آخری رسول میرے آقا محمد مصطفی ؐ کی تعلیمات سے تعلق کا فیض ہے۔ ہمارے ایک شاگرد وقار سحر کی نعت سے چند اشعار:
آپ کے دھیان میں ہر آن رہوں نعت کہوں
ہے یہی میری خرد میرا جنوں نعت کہوں
باریابی کی اجازت مجھے مل جائے اگر
اپنا سر آپ کی چوکھٹ پہ رکھوں نعت کہوں
آرزو ہے کہ بٹھائیں وہ مجھے اپنے قریب
اور میں نعت کہوں، نعت کہوں، نعت کہوں