تاجروں نے دہشت گردی کے باوجود ملکی معیشت کو بچایا‘ مشتاق خان

131

پشاور (وقائع نگار خصوصی) امیر جماعت اسلامی و صدر ملی یکجہتی کونسل خیبر پختونخوا سینیٹر مشتاق احمد خان نے کہا ہے کہ پشاور کے تاجروں نے دہشت گردی کے باوجود کاروباری سرگرمیاں جاری رکھ کر جہاد کیا ہے۔ حکومت نے تاجروں کو امن اور سہولیات دیں اور انرجی بحران کو حل کیا تو ہمیں آئی ایم ایف اور ورلڈبینک سے مدد نہیں لینی پڑے گی۔ تاجروں کے مسائل ترجیحی بنیادوں پر حل کریں گے اور ہر فورم پر ان کے حقوق کے لیے آواز اٹھائیں گے۔ عدلیہ نے سیاست کے گند کو صاف کرنے میں تاریخی کردار ادا کیا ہے۔ کرپٹ ٹولے اور مافیا کیخلاف فیصلے عوام کے دلوں کی آواز ہیں۔ ہم عدلیہ کے ساتھ کھڑے ہیں اور مافیا کیخلاف عدلیہ کے دفاع میں آخری حد تک جائیں گے۔ جسٹس اعجاز الحسن کے گھر پر حملے کی مذمت کرتے ہیں، جسٹس اعجاز الحسن کے گھر پر چند گھنٹوں کے وقفے سے دو بار حملہ پنجاب حکومت کی ناکامی ہے۔ ان خیالات کا اظہار انہوں نے المرکز الاسلامی میں مختلف وفود سے ملاقات اور بعد ازاں نیو رامپورہ بازار کی نومنتخب کابینہ کی تقریب حلف برداری سے خطاب کرتے ہوئے کیا۔ تقریب حلف برداری سے نومنتخب صدر محمد عرفان پراچہ، افضل خان، حاجی رمبیل خان و دیگر نے بھی خطاب کیا۔ اس موقع پر جے آئی یوتھ پشاور کے صدر صدیق الرحمن پراچہ بھی موجود تھے۔ سینیٹر مشتاق احمد خان نے نیو رامپورہ بازار کی نومنتخب کابینہ سے حلف لیا۔ تقریب سے خطاب میں سینیٹر مشتاق احمد خان نے کہا کہ پشاور کے تاجروں نے دہشت گردی اور ٹارگٹ کلنگ کے باوجود اپنی تجارتی سرگرمیاں جاری رکھ کر پاکستان اور معیشت کو بچایا ہے۔ پشاور کے تاجروں کو وی وی آئی پی اسٹیٹس دینا چاہیے۔ حکومت نے تاجروں کو نظر انداز کیا ہے، انہیں کسی قسم کی سہولیات نہیں دی جارہیں، ٹیکسوں کی بھرمار ہے، جس سے براہ راست تاجر برادری متاثر ہورہی ہے۔ حکومت تاجروں کے ساتھ ہونے والی زیادتیاں بند کرے اور انہیں ٹیکس میں چھوٹ سمیت دیگر سہولیات دے۔ انہوں نے کہا کہ حکومت پیٹرولیم مصنوعات میں فی لیٹر 45 روپے کما رہی ہے۔ پیٹرولیم مصنوعات کی قیمتیں بڑھتی ہیں تو اس سے عوام براہ راست متاثر ہوتے ہیں۔ پیٹرول سستا ہوتا ہے تو اشرافیہ کو فائدہ ہوتا ہے، مہنگا ہوتا ہے تو غریب کا نقصان ہوتا ہے۔ پاکستان کو اصل خطرہ کرپٹ سیاستدانوں سے ہے، کرپٹ سیاستدان امریکا اور بھارت سے بڑا خطرہ ہیں، جو ڈیموکریسی کو ڈاکو کریسی اور جمہوریت کو عبادت سمجھنے کے بجائے تجارت سمجھتے ہیں۔