!اچھے دنوں کی شروعات

354

عدالت عظمیٰ نے آرٹیکل 62 (1) (ایف) کے تحت نااہلی کی مدت کی تشریح کیس کا فیصلہ سنا دیا، جس کے تحت آئین کی اس شق کے ذریعے نااہل قرار دیے گئے ارکان پارلیمان تاحیات نااہل ہوں گے۔ اس فیصلے کے تحت سابق وزیر اعظم اور پاکستان مسلم لیگ (ن) کے قائد نواز شریف اور پاکستان تحریک انصاف کے سابق سیکرٹری جنرل جہانگیر ترین کی نااہلی کی مدت کو تاحیات قرار دیا گیا۔ اس فیصلے میں وضاحت کی گئی ہے کہ آرٹیکل کے تحت اراکین کا صادق اور امین ہونا ضروری ہے، آرٹیکل 62 ون ایف کے تحت نااہلی تاحیات ہوگی اور جب تک عدالت عظمیٰ کا فیصلہ رہے گا نااہلیت بھی رہے گی۔ عدالت عظمیٰ کے اس فیصلے کے بعد اب یہ کہا جاسکتا ہے کہ ملک کی تاریخ میں پہلی بار بڑوں کو بھی ’’قانون کا مزا چکھانے‘‘ اور قانون کیا ہوتا ہے دکھانے کا عمل شروع ہوچکا ہے۔ یہ بھی یقین ہونے لگا ہے کہ ملک میں اصل حکمرانی قانون کی ہے اگرچہ ایک عرصے تک اس کی واضح مثالیں مفقود ہوچکی تھیں۔ عدالت عظمیٰ کا فیصلہ آنے کے بعد نوازشریف کو یہ ’’اعزاز‘‘ مل گیا ہے کہ ان کی وجہ سے ملک ایک نئے باب کی طرف بڑھ چکا ہے جو ان کی اپنی جماعت کے لیے بھی اعزاز سے کم نہیں ہے کیوں کہ ان کی اپنی پارٹی کی حکومت کے دور میں یہ ثابت ہورہا ہے کہ عدالتیں فیصلے کرنے میں آزاد ہیں۔ جس ملک میں قانون کی حکمرانی ہو، قانون کی گرفت کا خوف ہو وہاں بتدریج لاقانونیت ختم ہونے لگتی ہے اور اگر قانون کی پکڑ کا ڈر حکمرانوں کو ہوجائے تو وہاں کرپشن کا سلسلہ ہمیشہ کے لیے بند ہوجاتا ہے۔ یہ بھی اچھا ہوا کہ صرف مسلم لیگ کے نواز شریف ہی زندگی بھر کے لیے نااہل قرار نہیں پائے بلکہ نمبر ون بننے کے لیے کوشاں پاکستان تحریک انصاف کے سابق سیکرٹری جنرل جہانگیر ترین بھی تاحیات نااہل ہوگئے۔ اب یہ دونوں شخصیات کوئی بھی عوامی عہدہ اپنے پاس نہیں رکھ سکتے۔
نواز شریف کے زندگی بھر کے لیے سیاسی طور پر نااہل ہونے کے بعد ان کو سیاسی جماعت کا قائد ماننے پر بھی سوال اٹھے گا۔ لوگ یہ کہہ سکتے ہیں کہ مسلم لیگ ن سے مراد نااہل رہنما کی پارٹی ہے۔ اب دیکھنا یہ ہے کہ مسلم لیگی کس طرح ’’جھوٹا اور خائن‘‘ قرار دیے گئے لیڈر کو اپنا قائد تسلیم کرے گی؟۔ کیوں کہ ایسی صورت میں پوری مسلم لیگ پر بھی انگلیاں اٹھ سکتیں ہیں۔ شاید اسی خدشے کے باعث پرانے مسلم لیگی اب ن لیگ سے کنارہ کشی اختیار کرنے لگے ہیں۔ جمہوری پارٹیوں کا تقاضا ہے کہ اس کے کارکن بھی نہ صرف جمہوری عمل پسند کریں بلکہ ملک کی سب سے بڑی عدالت کے فیصلے کو تسلیم کرکے نااہل قرار پانے والی شخصیات کو اپنی صفوں سے دور کردیں اور یہ ثابت کردیں کہ ان کے پلیٹ فارم پر کسی نااہل کی کوئی گنجائش نہیں ہے۔ یہ اتفاق ہے کہ جمعہ کو آنے والے عدالت عظمیٰ کے اس فیصلے سے صرف چند گھنٹے قبل آرمی چیف جنرل قمر جاوید باجوہ نے راولپنڈی میں ایک تقریب سے خطاب کرتے ہوئے یہ نوید سنائی تھی کہ: ’’ملک میں اچھے دن آنے والے ہیں، کچھ لوگ باہر اور اندر سے ملکی سالمیت کے درپے ہیں مگر جب تک پاک فوج کی پشت پر قوم کھڑی ہے پاکستان کو کچھ بھی نہیں ہوسکتا‘‘۔
قوم تو محسوس کررہی ہے کہ ملک کے اچھے دن آنے والے نہیں بلکہ آچکے ہیں۔ یہ اچھے ایام ہی تو ہیں اب یہاں اگر حاکم، جھوٹا اور خائن ہو تو اسے ملکی سیاست سے دور کردیا جاتا ہے۔ دنیا میں یقیناًایسے بہت سے ممالک ہیں جہاں کرپشن اور جرائم پر سخت سزا دی جاتی ہے مگر الحمدللہ پاکستان وہ ملک بن چکا ہے جہاں جھوٹ بولنے اور امانت میں خیانت کرنے پر بھی سزا دی جاتی ہے۔ سیاست دانوں کے لیے کسی بھی عوامی عہدے کے لیے نااہل قرار دیا جانا بہت بڑی سزا ہے کیوں کہ نااہل ہونے کے بعد وہ صرف اپنی ذات تک محدود ہوجائے گا۔ ایسے جھوٹے اور خائن افراد کو کوئی بڑا ادارہ نوکری تک نہیں فراہم کرے گا کیوں کہ اس کے پاس عدالت عظمیٰ کی طرف سے جاری کردہ نااہلی کی’’ڈگری‘‘ ہوگی۔
باقی صفحہ9نمبر1
محمد انور
میرے خیال میں جھوٹ بولنا اور امانت میں خیانت بہت بڑے گناہ کے ساتھ کسی بدعنوانی اور دیگر جرم سے بڑھ کر ہے بلکہ اس کی ابتداء بھی ہے اگر کسی کے پاس جھوٹ یا غلط بیانی کرنے کا اختیار نہ ہو تو وہ کسی بھی جرم کی طرف نہیں جائے گا۔ تو یہ بھی ہوجائے گا کہ اگر عدالت عظمیٰ کو بھی اپنے اس طرح کے فیصلوں پر نظرثانی کرنے کا اختیار نہیں ہو۔ امید ہے کہ اس نکتے کو بھی عدالت آئندہ ایسے فیصلے کرتے ہوئے سامنے رکھے گی۔ جب کہ قانون ساز ادارہ قانون سازی کرے گا۔ مجھے یقین ہے کہ اس طرح ہمارے ملک کے اچھے دنوں کا آغاز ہوچکا ہے مگر ڈر ہے کہ مفاد پرست سیاست دان کہیں یہ قانون ہی نہ بدل ڈالیں۔ کیوں کہ کم ازکم میاں محمد نواز شریف کو آئین کی شق 62 (1) (ایف) میں ترمیم نہ کیے جانے کا دکھ تو ہوگا۔ بہرحال ملک کے استحکام اور ترقی کے لیے کسی بھی حکومت کو اس قانون میں ترمیم اور ختم کرنے کا حق بھی نہیں ہونا چاہیے۔ اس طرح موجودہ عدلیہ کا ہر رکن خصوصاً چیف جسٹس میاں ثاقب نثار اس بات پر مبارکباد کے قابل ہیں کہ انہوں نے نہ صرف اس قانون کو استعمال کیا بلکہ ہر ملک کے ہر ادارے کے معاملات درست کرنے کے لیے بھی غیر معمولی کارروائیاں کررہے ہیں۔