ہاں تلخی ایام ابھی اور بڑھے گی!

286

برصغیر پاک و ہند میں موسم کی یہ روایت برسوں سے چلی آرہی تھی کہ سردی کے آغاز 15 اکتوبر سے ہوتا تھا۔ جو وسط اپریل تک چلتی تھی اور 15 اپریل سے موسم گرمی کا چولا پہن لیتا تھا، سورج آگ برسانے لگتا تھا اور مئی کے آغاز تک گرمی پورے جاہ و جلال کے ساتھ آجاتی تھی۔ لیکن اب تو مدت ہوئی یہ روایت ہی بدل گئی ہے اب کوئی موسم بھی اپنے وقت پر نہیں آتا۔ سردی وسط اکتوبر کے بجائے نومبر بلکہ دسمبر میں آتی ہے۔ بمشکل تین مہینے اپنی چھب دکھاتی ہے اور مارچ میں موسم کا رنگ بدلنا شروع ہوجاتا ہے، مارچ کا مہینہ یوں بھی بہار کا مہینہ کہلاتا ہے اس مہینے میں نہ زیادہ سردی ہوتی ہے نہ زیادہ گرمی، نہایت معتدل اور خوشگوار موسم ہوتا ہے، اس مہینے میں پھول کھلتے ہیں، سبزے پر نکھار آتا ہے، خزاں رسیدہ درختوں پر کونپلیں پھوٹتی ہیں اور دیکھتے ہی دیکھتے ان کی برہنہ شاخیں نرم و ملائم پتوں سے لد جاتی ہیں۔ غرض یہ وارفتگی اور سرشاری کا مہینہ آدمی کے دل کو خوشیوں سے بھر دیتا ہے۔ شہروں میں پھولوں کی نمائش لگتی ہے، بہاریہ میلوں کا انعقاد ہوتا ہے۔ ہاں مشاعروں کا سیزن بھی یہی ہے جس میں شعرا حضرات دل کے پھپھولے پھوڑتے اور سامعین سے داد و تحسین وصول کرتے ہیں۔ لیکن اب کی دفعہ کیا ہوا کہ موسم بہار بن کھلے مرجھا گیا، گرمی نے وسط مارچ ہی دھاوا بول دیا، بہار کی رُت تتر بتر ہوگئی، سورج آگ برسانے لگا، گرمی بھی ایسی کہ الامان والحفیظ، کراچی والوں نے خبر دی کہ پارا چالیس درجے سینٹی گریڈ تک جا پہنچا ہے، لُو کے جھکڑ چل رہے ہیں اس پر ستم یہ کہ لوڈشیڈنگ الگ قیامت ڈھا رہی ہے حالاں کہ ہمارے قابل اعتبار وزیرداخلہ پروفیسر احسن اقبال ڈنکے کی چوٹ پر اعلان کرچکے ہیں کہ ملک سے بجلی کی لوڈشیڈنگ کا خاتمہ کردیا گیا ہے۔ شاید یہ لوڈشیڈنگ ہمارے ازلی دشمن نے ہماری طرف بھیجی ہے جس پر حکومت ابھی تک قابو نہیں پاسکی جب کہ وہ اپنی لوڈشیڈنگ پر تو کب کا قابو پاچکی ہے۔ کہتے ہیں کہ مصیبت اکیلے نہیں آتی، اپنے بال بچے بھی ساتھ لاتی ہے، گرمی آئی ہے تو اس کے بال بچوں میں لوڈشیڈنگ بھی ہے اور پانی کی قلت بھی، اس کے ساتھ مچھروں کی یلغار بھی، یہ معاملہ صرف کراچی کے ساتھ ہی نہیں پورے ملک کا یہی حال ہے۔ پنجاب میں بھی لوگ پانی کو ترس رہے ہیں۔ پنجاب کے خادم اعلیٰ نے 260 ارب روپے کی لاگت سے لاہور کے لیے اورنج ٹرین تو بنادی ہے لیکن پنجاب کے لوگوں کو پینے کا صاف پانی بھی میسر نہیں ہے۔ ہم پنجاب کے جس نیم پہاڑی علاقے کہوٹا میں رہتے ہیں وہاں بارشیں نہ ہونے کے سبب زیر زمین پانی کیس سطح تین سو فٹ سے بھی زیادہ نیچے چلی گئی ہے اور لوگ پینے کے پانی کو ترس رہے ہیں۔ یہی حال پنجاب کے دوسرے شہروں کا ہے، وفاقی دارالحکومت اسلام آباد بھی پانی کی شدید قلت کا شکار ہے جب کہ بھارت پاکستان کے حصے میں آنے والے دریاؤں کا پانی روک کر ان پر دھڑا دھڑ ڈیمز بنانے میں مصروف ہے۔ دریائے راوی، ستلج اور بیاس تو پہلے ہی خشک ہوچکے ہیں اب دریائے جہلم کا پانی بھی اس نے روک لیا ہے اور دریائے سندھ کا رخ موڑنے کے ایک بڑے منصوبے پر کام کررہا ہے۔ ماہرین کے مطابق اس وقت بھی دریائے سندھ کا چالیس فی صد پانی بھارت کے کنٹرول میں ہے جو پانی پاکستان کو مل رہا ہے، کالا باغ ڈیم نہ بننے سے وہ اس پانی کا صحیح استعمال نہیں کر پارہا اور یہ پانی زمینوں کو سیراب کیے بغیر سمندر میں گر جاتا ہے۔ چلیے کالا باغ ڈیم تو متنازع ہوگیا تھا لیکن اس کے بعد شمالی علاقوں میں جو دو بڑے ڈیم بنانے کا اعلان ہوا تھا اس پر بھی عمل نہیں ہوسکا۔ تازہ ترین رپورٹ میں بتایا گیا ہے کہ دیامر اور بھاشا ڈیم پر کوئی پیش رفت نہیں ہوسکی لیکن اس کے باوجود واپڈا ان دونوں ڈیمز کی پلاننگ پر اب تک 75 ارب روپے خرچ کرچکا ہے۔ یہ وہ رقم ہے جو بین الاقوامی مالیاتی اداروں سے بطور قرض لی گئی ہے یعنی ڈیم کوئی بنا نہیں قرض پہلے ہی چڑھ گیا ہے۔ قرض لینے میں ہم اتنے طاق ہیں کہ ’’جہاں دیکھی توا پرات، وہاں گزاری ساری رات‘‘ یعنی جہاں سے بھی قرض ملنے کی امید ہو وہاں سے ہم کچھ لیے بغیر نہیں ٹلتے۔ اس ہنر کو ہمارے سابق وزیرخزانہ نے نقطہ کمال تک پہنچادیا تھا۔ ایک اقتصادی تجزیہ کار نے ان کی اس ہنر مندی پر تبصرہ کرتے ہوئے ایک ٹی وی پروگرام میں طنزاً کہا تھا کہ ڈار صاحب کو کسی سرکاری عمارت میں واش روم بنانا مقصود ہو تو وہ اس کے لیے بھی عالمی بینک کو قرضے کی درخواست دے دیتے ہیں۔
خیر چھوڑیے اس قصے کو ہم فی الحال گرمی اور اس کے طفیل بجلی کی لوڈشیڈنگ کے عذاب میں آئے ہوئے ہیں، محکمہ موسمیات نے شاعر کی زبانی ہمیں یہ سناؤنی دی ہے کہ
ہاں تلخی ایام ابھی اور بڑھے گی
یعنی اس سال معمول سے زیادہ گرمی پڑنے کا امکان ہے۔ اندازہ کیجیے کہ گرمی نے ابھی اسٹارٹ ہی لیا ہے کہ پارا چالیس درجے سینٹی گریڈ تک جا پہنچا ہے جب گرمی کا عنفوان شباب ہوگا تو ہماری کیا حالت ہوگی۔ ادھر اگلے مہینے رمضان المبارک کی آمد آمد ہے، اس مہینے کو صبر اور برداشت کا مہینہ قرار دیا جاتا ہے، اب کی دفعہ روزہ کم و بیش پندرہ گھنٹے کا ہوگا، گزشتہ سال بھی روزے کا یہی دورانیہ تھا، آدمی روزہ رکھ کر پندرہ سولہ گھنٹے بھوک پیاس تو برداشت کرلیتا ہے اور اسے صبر آجاتا ہے لیکن گرمی اس سے برداشت نہیں ہوتی۔ وہ گرمی سے نمٹنے کے لیے بجلی اور پانی کی مدد حاصل کرتا ہے اب کی دفعہ یہ دونوں چیزیں ہی نایاب نظر آرہی ہیں۔ سرکار کے کھاتے میں بجلی کی لوڈشیڈنگ کب کی ختم ہوچکی ہے، عوام بلاوجہ واویلا کررہے ہیں جب کہ عوام کو پانی کی فراہمی حکومتوں کی ترجیحات ہی میں شامل نہیں ہے۔ لوگ اپنے وسائل سے پانی کا بندوبست کرتے ہیں اور جتنا میسر آتا ہے اس پر گزارا کرلیتے ہیں۔ رمضان میں بھی انہیں اسی صورت حال کا سامنا ہوگا، البتہ وزیراعظم شاہد خاقان عباسی نے احترام رمضان کا مظاہرہ کرتے ہوئے واپڈا حکام کو ہدایت کی ہے کہ سحر و افطار کے دوران لوڈشیڈنگ نہ کی جائے یہ گویا روزہ داروں کے لیے خصوصی رعایت ہوگی ورنہ سارا دن تو وہ لوڈشیڈنگ کی آگ میں جھلستے رہیں گے۔ کہا جارہا ہے کہ رمضان المبارک کے دوران موجودہ وفاقی اور صوبائی حکومتیں اپنی آئینی مدت پوری کرکے سبکدوش ہوجائیں گی اور عام انتخابات کے انعقاد کے لیے غیر جانبدار نگران حکومتیں قائم کی جائیں گی۔ نگراں حکومتوں کے قیام میں اب دن ہی کتنے رہ گئے ہیں لیکن ابھی تک حکومت اور اپوزیشن میں کوئی مشاورت نہیں ہوئی اور نہ ہی اپوزیشن نے نگران وزیراعظم کے لیے کسی نام پر اتفاق کیا ہے، البتہ سیاسی درجہ حرارت بھی گرمی کے ساتھ بڑھتا جارہا ہے اور یہ کہنے میں کوئی مضائقہ نہیں کہ
ہاں تلخی ایام ابھی اور بڑھے گی