کہوں کس سے قصہ برق وآب

309

کیا کیا لطیفے گردش میں رہتے تھے جو بھلا دیے گئے۔ جنرل پرویز مشرف کے دور میں ایک وقت تھا جب ان سے وردی اتارنے کا مطالبہ بڑی شدومد سے کیا جاتا تھا لیکن وہ کسی صورت اتارنے پر تیار نہیں تھے۔ ان دنوں ایک محترم نے واقعہ سنایا تھا جو ان کے بھانجے میجر (ر) جاوید پیرزادہ سے متعلق تھا۔ فرمایا: ’’جاوید کو دوران ملازمت اپنی وردی سے عشق کی حدتک لگاؤ تھا چناں چہ یہ دفتر سے واپسی کے بعد بھی بہت دیر تک وردی میں رہتا۔ ایک دن شدید گرمیوں کے موسم میں یہ گھر آیا۔ اس نے کھانا بھی وردی ہی میں کھایا۔ کھانے کے بعد سستانے کے لیے وردی سمیت ریلکسنگ چیئر میں نیم دراز ہوگیا۔ کمرے میں صرف ایک پنکھا تھا جو پگھلا دینے والی گرمی میں ہوا بھی گرم دے رہا تھا۔ میں نے جاوید کو پسینہ میں نہاتے ہوئے دیکھا تو کہا: ’’یار خدا کا خوف کرو یہ وردی تو اتاردو‘‘ اس پر جاوید کی رگ ظرافت پھڑکی، اس نے کہا: ’’آپ اِدھر اُدھر ہوں تو وردی اتاروں کیوں کہ وردی صرف قمیص اور بنیان پر تو مشتمل نہیں ہوتی‘‘۔ پرویز مشرف کی وردی اتر گئی۔ وہ بصد سامان رسوائی حکومت سے الگ بھی ہوگئے۔ محترمہ بے نظیر ملک عدم کی ہوگئیں۔ زرداری صاحب پاکستان کھپے، پاکستان کھپے کرتے کرتے پاکستان کے صدر بنے اور پھر رخصت ہوگئے۔ نواز شریف آئے اور تا زندگی سیاست سے ریٹائرڈ کر دیے گئے۔ ہر چیز ساتھ چھوڑے دے رہی ہے سوائے لوڈ شیڈنگ کے۔ سب کی نظریں ایک بار پھر کے الیکٹرک کی طرف مرکوز ہیں۔ ایسے میں شعیب بن عزیز یاد آرہے ہیں۔ کون شعیب بن عزیز۔ وہی شعیب بن عزیز جنہوں نے کہا تھا۔
اب اداس پھرتے ہو سردیوں کی شاموں میں
اس طرح تو ہوتا ہے اس طرح کے کاموں میں
ان کے دو شعر اور ملاحظہ فرمائیے:
اس کے بندے ہیں سو ہم دیکھتے ہیں اس کی طرف
وہ شۂ چارہ گراں کس کی طرف دیکھتا ہے
یہ جہاں آئینہ در آئینہ در آئینہ
کیا خبر کون کہاں کس کی طرف دیکھتا ہے
گرمی آغاز ہوتے ہی حسب روایت کراچی میں لوڈ شیڈنگ شروع ہوئی تو سب کے الیکٹرک کی طرف دیکھنے اور گالیاں دینے لگے۔ کے الیکٹرک کا دم غنیمت ہے ورنہ اہل کراچی گالیاں دینا بھول جائیں‘۔ کے الیکٹرک کا معاملہ عجب ہے اسے کیسی ہی گالی دی جائے اور کتنی ہی بار دی جائے وہ بد مزہ نہیں ہوتی۔ اس میں کوئی شک نہیں کی نواز شریف حکومت میں لوڈ شیڈنگ کی صورت حال گزشتہ ادوار کے مقابلے میں بہت بہتر ہوئی ہے۔ انہوں نے بجلی کے شعبے میں قابل قدر کام کیا ہے لیکن شاید جن قوتوں نے نواز شریف کو تاحیات نااہل کیا ہے انہوں نے نواز شریف کے شروع کیے ہوئے بجلی کے منصوبوں کو بھی نااہل کردیا ہے تاکہ نواز حکومت کی کارکردگی پر حرف زنی کی جاسکے۔
یہ کالم ہم اندھیرے میں پسینے میں تر ایک کابک میں (جسے عرف عام میں فلیٹ کہتے ہیں) بیٹھے لکھ رہے ہیں۔ روئے سخن کہاں سے کہاں جارہا ہے نہ ہوش ہے نہ فکر۔ بات شعیب بن عزیز کی ہورہی تھی۔ جنہوں نے پوچھا تھا: ’’وہ ش�ۂ چارہ گراں کس کی طرف دیکھتا ہے‘‘ پتا چلا کہ وہ شۂ چارہ گراں جس کا نام کے الیکٹرک ہے سوئی سدرن گیس کمپنی کی طرف دیکھ رہا ہے۔ مارچ کے آخر میں جیسے ہی موسم کی صورت حال تبدیل ہوئی کے الیکٹرک اور گیس کمپنی میں تنازع ہوگیا۔ وجہ تنازع وہ درخواست تھی جس میں کے الیکٹرک نے ایس ایس جی سی سے کہا تھا کہ کچھ دنوں کے لیے گیس کی فراہمی mmfcd120 کردی جائے اور گرمیوں میں اوسط mmfcd190 گیس فراہم کی جائے۔ ایس ایس جی سی نے کہا جناب درخواست منظور کی جاتی ہے لیکن اس سے پہلے ذرایہ پچھلے بل چکتا کردیجیے۔ دونوں نے بل ادا کرنے اور ایک دوسرے کو گالیاں دینے کے بجائے اہل کراچی سے گالیاں کھانے کا فیصلہ کیا۔ کہ اہل کراچی نہ انگریزی میں گالیاں دیتے ہیں جس کے متعلق کہا جاتا ہے کہ بنی ہی گالیاں دینے کے لیے ہے اور نہ پنجابی میں جس کے متعلق سابق امیر جماعت اسلامی میاں طفیل محمد کہا کرتے تھے کہ پنجابی فقط گالیوں کی زبان ہے۔
یہ صورت حال نج کاری کا شاخسانہ ہے۔ شہریوں کو بجلی فراہم کرنا اب نہ وفاقی حکومت کی ذمے داری ہے اور نہ صوبائی حکومت کی۔ معاملہ شہریوں کی ہنگامہ آرائی اور شور وغوغا تک پہنچتا ہے تو حکومت کے الیکٹرک کو طلب کرکے پوچھ لیتی ہے ’’ہاں بھئی سب خیریت ہے نا، سب کچھ ٹھیک ٹھاک چل رہا ہے، ہے نا، یہ کراچی میں آج کل کیا رولا پیا ہوا ہے۔‘‘ کے الیکٹرک نے رولے کی وجہ بیان کردی معاملہ ختم۔ جب تک شہری مزید گالیوں کا سوچیں گے قدرت کو خیال آ جائے گا۔ موسم کچھ ٹھنڈ ا ہوہی جائے گا۔ نج کاری کے اس معاملے میں کے الیکٹرک ہو یا آئی پی پیز سب کا بنیادی مقصد زیادہ سے زیادہ منافع کا حصول ہے۔ ان توانائی کے وسائل سے زیادہ سے زیادہ منافع کشید کرکے مالکان کی تجوریوں کو بھرنا ہی مقصد اولیٰ ہے۔ جہاں ذرا منافع کی صورت حال میں کمی کا خطرہ سامنے آیا یہ کمپنیاں پیداوار کم کردیتی ہیں۔ نہ پیداور ہوگی نہ خسارہ ہوگا۔ شہری جائیں بھاڑ میں۔
توانائی کے بحران کا حل موجودہ سرمایہ دارانہ نظام میں ہے اور نہ کمیونزم کے پاس ہے۔ تمام مسائل کی طرح اس مسئلہ کا حل بھی اسلام کی آفاقی تعلیمات میں ہیں۔ اسلام نے توانائی کے وسائل کو نہ تو سرکاری ملکیت میں دیا ہے اور نہ اس کی نج کاری کو جائز ٹھیرایا ہے بلکہ انہیں عوامی ملکیت قرار دیا ہے۔ عالی مرتبت میرے آقا محمد ؐ کا فرمان ہے: ’’مسلمان تین چیزوں میں برابر کے شریک ہیں: پانی، چراگاہیں اور آگ۔ (ابو داؤد)‘‘ پانی، چراگاہیں اور آگ (توانائی) اسلام ان تین چیزوں کو عوامی ملکیت قرار دیتا ہے یعنی ان میں تمام مسلمان برابر شریک ہیں۔ توانائی میں پٹرولیم، گیس، بجلی، معدنی ذخائر تانبہ، لوہایا پانی جیسا کہ سمندر، دریا ڈیم، چراگاہیں اور جنگلات سب شامل ہیں۔ اسلام ریاست کو اس بات کا حق نہیں دیتا کہ وہ عوامی ملکیت کی چیز کو نجی ملکیت میں دے دے۔ ریاست اس بات کی پابند ہے کہ عوامی اثاثوں سے حاصل ہونے والی دولت کو ریاست کے امور پر خرچ نہیں کرسکتی بلکہ اس منافع کو صرف عوام کی دیکھ بھال پر خرچ کرے گی۔ یوں یہ کثیر منافع نجی کمپنیوں کے مالکان کی جیبوں میں جانے کے بجائے عوامی وسائل میں اضافے پر خرچ کیا جاتا ہے۔ یوں معیشت کا پہیہ رکتا ہے اور نہ عوام کو تکلیف اور مشکلات کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔ پاکستان کے پاس توانائی اور معدنی وسائل کا بہت بڑا ذخیرہ ہے اگر کچھ نہیں ہے تو اسلام کا معاشی نظام نہیں ہے جس کی وجہ سے عوام مسائل کا شکار ہیں اور غربت کی دلدل میں دھنستے جارہے ہیں۔