فائرنگ کے و واقعات متضاد رویے

273

افغانستان سے پاکستانی علاقے پر حملہ کر کے ایف سی کے دو جوانوں کو شہید اور 5 کو زخمی کر دیا گیا ۔ پاکستان کی جانب سے اس صورتحال پر احتجاج کیا گیا ۔ پاکستان کے سرحدی محافظوں پر بھارت کی جانب سے بھی سرحدی خلاف ورزیاں کرتے ہوئے حملے ہوتے رہتے ہیں اور افغانستان کی جانب سے بھی کبھی کبھار جوابی کارروائی کی اطلاع ملتی ہے ورنہ عام طور پر مذمتی بیان اور احتجاج ہوتا ہے ۔ ایک مرتبہ پھر افغان سرحد کی دوسری جانب سے پاکستانی حدود میں کارروائی کی گئی ۔ ایف سی کے اہلکار دہشت گردوں کے پاکستان میں داخلے کو روکنے کے لیے باڑھ لگانے کے انتظامات کا جائزہ لے رہے تھے کہ انہیں نشانہ بنایا گیا ۔ جواباً آئی ایس پی آر نے بیان دیا کہ سرحد پار انسانی آبادی کی جانیں بچانے کے لیے حد درجہ تحمل سے کام لیا گیا ۔ ایک جگہ کہا گیا ہے کہ احتیاط سے کام لیاجا رہا ہے ۔ ہاں ایسا ہی ہے لیکن ایک متضاد رویہ دیکھنے میں آیا ۔ عدالت عظمیٰ کے سینئر جج جسٹس اعجاز الاحسن کے گھر فائرنگ کی تاخیر سے ملنے والی اطلاع پر صدر مملکت سے لے کر پریس ریلیز والی سیاسی جماعتوں تک سب نے فوری سنجیدہ نوٹس لے لیا۔۔۔ یہاں تک کہ آئی ایس پی آر نے بھی اس مبینہ حملے کے بارے میں فوری رد عمل دینا بہت ضروری سمجھا ۔ اب اس فائرنگ کی کہانی بھی عجیب ہے ۔موقر اخبار جنگ کے مطابق رات گئے تک یہ تعین نہ ہو سکا کہ فائرنگ کس نے کی اور اس کی سمت کیا تھی ۔ اس فائرنگ سے گھر یا کسی چیز کو نقصان نہیں پہنچا۔۔۔اخبار کے مطابق پہلی بار رات دس بجکر45 منٹ پر گولی کا ایک سکہ رہائش گاہ پر تعینات رینجرز اہلکار کو ملا ۔ جس نے متعلقہ ذمہ داروں کو آگاہ کر دیا ۔ دوسری بار ایک سکہ جسٹس کے اسٹاف آفیسر کو صبح دس بجکر 45 منٹ پر نظر آیا جس کی اطلاع جسٹس اعجاز الحسن کو کر دی گئی ۔انہوں نے چیف جسٹس کو اطلاع کر دی ۔ وہ فوری طور پر ان کی رہائش گاہ پہنچے تمام ذمے داران سیکورٹی ادارے سب ہی پہنچ گئے ۔ لیکن 24 گھنٹے گزرنے کے باوجود یہ پتا نہیں چل سکا کہ فائرنگ کب اور کس نے کی ۔۔۔ یہ خیال ظاہر کیا جارہا ہے کہ کسی نے سائلنسر والے 9 ایم ایم پستول سے فائرنگ کی ہے ۔ معزز جج کے گھر کے قریب یہ سکے پہنچنا بہر حال خطرے کی بات ہے ۔ یہ بھی ہو سکتا ہے کہ کسی من چلے نے شادی وغیرہ کی تقریب میں ہوائی فائرنگ کی ہو اور سکے وہاں آ کر گرے ہوں ۔ یہ کوئی نہیں کہہ سکتا کہ یہ فائرنگ تھی یا آوارہ گولیاں لیکن آئی ایس پی آر نے حیرت انگیز چابکدستی کا مظاہرہ کرتے ہوئے نہ صرف بیان داغ دیا بلکہ سارے واقعے کا رُخ سیاسی کشیدگی کی طرف موڑنے کی کوشش کی ۔ بیان میں کہا گیا ہے کہ ریاستی ادارے محفوظ فضا یقینی بنائیں۔ اس بیان کی روشنی میں آئی ایس پی آر نے یہ طے کر لیا کہ یہ فائرنگ جسٹس اعجاز الاحسن کے گھر پر با قاعدہ حملہ تھا ۔ اسی لیے یہ بھی کہا گیا کہ ریاستی اداروں کے موثر کردار کے لیے فریقین محفوظ فضایقینی بنائیں ۔ اس بیان کو پڑھتے ہی یہ تاثر ملتا ہے کہ ایک ریاستی ادارے نے دوسرے ریاستی ادارے پر حملہ کر دیا ہے ۔ امید ہے جے آئی ٹی کے افسران اس بیان کے اجراء کا مطلب بھی پوچھنا پسندکریں گے ۔ سماجی رابطوں پر تو طوفان بد تمیزی مچا ہوا ہے لیکن یہ نہایت سنجیدہ معاملہ ہے ۔ ایک جانب دشمن کھلا ہوا سب کے سامنے ہے۔ پاکستانی دفاع کے ذمے داروں پر فائرنگ کی گئی دو افراد کی شہادت ہو گئی اور5زخمی ہو گئے یہاں پر آئی ایس پی آر نے حد درجے احتیاط اور سرحد پار انسانی جانوں کو بچانے والا بیان دیا۔۔۔ لیکن اپنے ملک میں ایک واقعے کی رپورٹ سامنے آتے ہی اپنے ہی ملک کے اداروں پر حملہ کر دیا۔۔۔ اس واقعے پر یوں تو فطری طورپر رد عمل یہی ہونا تھا کہ اسے خطرناک کہا جاتا ، تشویش کا اظہار کیا جاتا اور تحقیقات کا مطالہ کیا جاتااس کا ملبہ فوج پر بھی گرے گا۔۔۔ لیکن آئی ایس پی آر کے بیان نے جو کام کیا اس کے نتیجے میں بیشتر سیاسی بیانات کا رُخ نواز شریف خاندان کی طرف ہو گیا ۔ ممکن ہے آئی ایس پی آر نے بھی اس کے ان نتائج پر غور نہ کیا ہو۔۔۔ لیکن بیان کی ساخت اور تحریر اس طرح تھی جس سے یہی نتیجہ نکلنا تھا ۔ چنانچہ شیخ رشید نے براہ راست الزام لگایا کہ ’’نواز شریف اور ان کے خاندان نے انصاف کا مقابلہ گولیوں سے کرنا شروع کر دیا ‘‘ اس سے قبل بھی آئی ایس پی آر کی جانب سے سیاسی معاملات میں بیان بازی سے صورتحال بگڑ گئی تھی۔۔۔ اس رویے کی اصلاح ضروری ہے ۔ اس بیان کے نتیجے میں بار کونسلز نے ہڑتال کا اعلان کر دیا۔ تاہم چیف جسٹس کے کہنے پر یہ ہڑتال واپس لے لی گئی۔۔۔ گویا اگر چیف جسٹس مداخلت نہ کرتے تو اداروں کے درمیان ہم آہنگی متاثر ہونے والے کام شروع ہوجاتے۔ ساتھ ہی ساتھقابل توجہ امر یہ ہے کہ افغانستان کی سرحد پار سے جس وقت فائرنگ کی گئی اس وقت ایف سی اہلکار باڑھ لگانے کے انتظامات کا جائزہ لے رہے تھے۔ وہ صرف سات تو نہیں ہوں گے یقیناًبہت سارے ہوں گے تو پھر جہاں سے فائر آیا تھا وہاں فوری جواب دینے سے صرف سویلین ہی نشانہ نہیں بنتے یقیناًہمارے فوجی کچے نشانے باز نہیں۔ ان کا جواب ٹھیک نشانے پر ہی لگتا۔ خدانخواستہ کوئی شہری لپیٹ میں آتا تو اس کی ذمے دار افغان حکومت ہوتی، لیکن پاکستانی ایف سی اہلکاروں کی قیمت پر یہ رواداری سمجھ سے بالاتر ہے۔ ہمارے ایف سی اہلکار بہت قیمتی ہیں یہ بھی ایک ریاست کی علامت ہیں، ریاست کے نمائندے ہیں ان پر حملہ ریاست پر حملہ ہے۔ ایسے کھلے حملوں کا فوری جواب سیاسی امور میں بیان بازی سے زیادہ ضروری تھا۔