کیا اب بھی جج محفوظ نہیں ہیں؟

313

سپریم کورٹ آف پاکستان کے جسٹس اعجاز الاحسن کے گھر پر اتوار کی صبح اور ہفتے و اتوار کی درمیانی شب فائرنگ کے واقعات پیش آئے۔ خوش قسمتی سے کوئی جانی نقصان نہیں ہوا۔ چند گھنٹوں کے دوران دو بار جسٹس اعجاز کے گھر فائرنگ تشویش کی بات ہے۔ ان کے گھر پر گولیاں چلنے کی اطلاع کے بعد سیکورٹی انتہائی سخت کردی گئی۔ کاش پہلے واقعے کے بعد ہی سیکورٹی سخت کردی جاتی تو شاید دوسرا واقعہ پیش نہ آتا۔ واقعے کی تحقیقات کرنے ولی ٹیم کے مطابق جسٹس اعجاز الاحسن کے گھر سے پستول کی 2 گولیاں ملی ہیں، جن کے بارے میں اہل کاروں کا کہنا تھا کہ ایک گولی رہائش گاہ کے مرکزی دروازے جب کہ دوسری گولی باورچی خانے کی کھڑکی میں لگی تھی۔ اس واقعے سے ثابت ہوگیا کہ اب بھی جج صاحبان محفوظ نہیں ہیں۔ حالاں کہ ان کا اور ان کے گھروں کا تحفظ لازمی ہونا چاہیے۔ جج کے گھر پر فائرنگ کا واقعہ حکمرانوں کی ناکامی کا ثبوت ہے۔ ایسے حکمرانوں کو ’’چلو بھر پانی میں ڈوب مرنا چاہیے‘‘۔
جسٹس اعجاز کے گھر فائرنگ کے بعد یقیناًپولیس نے اس طرح کے ہر واقعے کی طرح یہاں بھی اہل خانہ اور جج صاحب سے یہ سوال کیا ہوگا کہ ’’آپ کو کس پر شک ہے؟‘‘۔ جسٹس صاحب نے اس سوال کا جواب دیا ہوگا یا نہیں فی الحال یہ ابھی نہیں کہا جاسکتا۔ لیکن یقین ہے کہ پولیس خود حالات اور واقعات کا ہر پہلو سے جائزہ لے رہی ہوگی۔ جسٹس اعجازالاحسن کی رہائش وزیراعلیٰ پنجاب شہباز شریف کی رہائش کے قریب ہی بتائی جاتی ہے۔ ایسے میں سیکورٹی کے غیر موثر انتظامات کا ثبوت تو مل ہی گیا۔ اطلاعات ہیں کہ وزیراعلیٰ پنجاب کے سیکرٹری لاہور کے علاقے ماڈل ٹاؤن میں جسٹس اعجاز الاحسن کی رہائش گاہ پر ان سے ملنے کے لیے پہنچے لیکن عدالت عظمیٰ کی انتظامیہ نے انہیں ملنے کی اجازت نہیں دی۔
جسٹس اعجازالاحسن کا شمار نیک شہرت کی حامل شخصیات میں ہوتا ہے۔ اس لیے کسی سے ان کی دشمنی وغیرہ کا کوئی شبہ تک نہیں کرسکتا۔ تاہم یہ بات حتمی طور پر نہیں کہی جاسکتی کہ کوئی ان کی جان کا دشمن بنا ہوا ہے؟ فائرنگ کے واقعے کے بعد یہ تو کہا جاسکتا ہے کہ کسی نے انہیں بندوق کی زبانی دھمکی دینے کی کوشش کی ہو۔ یہ بات تو تحقیقات کے نتیجے میں واضح ہوجائے گی اور یقین ہے کہ لاہور کی فعال پولیس اور دیگر تحقیقاتی ادارے ملزمان کوگرفتار کرنے میں کامیاب ہوجائیں گے۔ یاد رہے کہ جسٹس اعجاز الاحسن سابق وزیراعظم نواز شریف اور ان کے اہلِ خانہ کے خلاف پاناما پیپرز کیس کی سماعت کرنے والی عدالت عظمیٰ کی پانچ رکنی بینچ کا حصہ تھے۔ جسٹس اعجازالاحسن عدالت عظمیٰ کی جانب سے پاناما کیس کے حتمی فیصلے کی روشنی میں قومی احتساب بیورو (نیب) کی جانب سے احتساب عدالت میں دائر ریفرنسوں کی کارروائی کے نگراں جج بھی ہیں۔ جب کہ مسلم لیگ (ن) کے رہنما دانیال عزیز کو توہینِ عدالت کے جس کیس کا سامنا ہے وہ جسٹس اعجاز الاحسن کے حوالے ہی سے ہے۔
جسٹس اعجازالاحسن کے گھر فائرنگ کا واقعے سابق وزیراعظم نواز شریف اور تحریک انصاف کے رہنما جہانگیر ترین کو عدالت عظمیٰ کی جانب سے زندگی بھر کیے لیے نااہل قراردیے جانے تیسرے دن پیش آیا۔ لیکن یہ کہنا اتنا آسان نہیں ہے کہ اس واقعے کا تعلق عدالت عظمیٰ کے مذکورہ فیصلے کا باعث ہے۔ البتہ ماہرین جرمیات ہر پہلو کی طرح اس نکتے پر بھی غور کرسکتے ہیں۔ ملک کی تاریخ میں ججوں کو دھمکیاں بلکہ فائرنگ کرکے قتل کردینے کے واقعات بھی موجود ہیں۔ خلاف فیصلوں سے متاثرہ منفی ذہن کے افراد کچھ بھی کرسکتے ہیں۔ لیکن جسٹس اعجازالاحسن کے گھر فائرنگ کے واقعات سے ایسا نہیں لگتا کہ حملہ آورکسی کو جانی نقصان پہنچانا چاہتے ہوں۔ خیال یہی ہے کہ فائرنگ کرنے والوں کا مقصد صرف ڈرانا تھا۔ یہ کہا جاسکتا ہے کہ یہ بزدلانہ کارروائی ’’موجودہ فعال عدلیہ‘‘ کو ڈرانے کی ناکام کوشش تھی۔
مجرم اذہان کے افراد کسی بھی وقت کسی کو بھی نشانہ بناسکتے ہیں۔ گزشتہ سال 15فروری کو پشاور میں ملک و قانون کے دشمنوں نے پشاور میں کورٹ وین پر موٹر بائیک ٹکراکر دھماکا کردیا تھا جس کے نتیجے میں چار سول جج اور ایک شخص جاں بحق ہوگیا تھا۔ 3 مارچ 2014 کو اسلام آباد میں عدالت بم اور فائرنگ کے حملے کے نتیجے میں سیشن جج رفاقت حسین جاں بحق اور 29افراد زخمی ہوگئے تھے۔ ان واقعات کے بعد ججوں اور عدالتوں کی حفاظت کے لیے ہمیشہ غیر معمولی انتظامات یقینی ہونے چاہیے۔ لیکن افسوس کہ وطن عزیز میں کرپشن میں ملوث سیاست دانوں کے تحفظ کے انتظامات تو کیے جاتے ہیں لیکن ججوں اور دیگر اہم ترین شخصیات کے تحفظ کے لیے کوئی نظام وضع نہیں ہے۔ اصولی طور پر عوامی نمائندوں کے لیے پروٹو کول کے نام پر درجنوں گاڑیوں کا قافلہ ہونا چاہیے نہ ہی انہیں خود ایسا سیکورٹی کا انتظام اپنے لیے کرنا چاہیے۔ دنیا کے بیش تر ممالک میں حکمران عام لوگوں کے درمیان ہی رہتے اور اٹھتے بیٹھے ہیں۔ اگر کوئی عوام نمائندہ عوام کے درمیان جانے کے لیے غیر معمولی حفاظتی انتظام کرتا ہے یا کرانا ہے تو وہ کسی طور پر بھی عوامی لیڈر کہلانے کا حق دار نہیں ہے۔ آئندہ آنے والے انتخابات میں ہمیں ایسے نمائندوں کا انتخاب کرنا چاہیے جو حقیقی عوامی نمائندے ہوں۔ پھوں پھاں اور ہٹو بچو کی آوازوں کے بیچ چلنے والے عام افراد کے لیڈر نہیں ہوسکتے۔ انہیں رہنما بنانا بھی نہیں چاہیے۔