ہیمو فیلیا…… ایک موروثی بیماری

651

پاکستان میں تقریباً 20ہزار بچے مرض کا شکار ہیں، درست تعداد کا اندازہ لگانے کے لیے باقاعدہ کوئی نظام موجود نہیں

ڈاکٹر ثاقب حسین انصاری
ہرسال 17اپریل کو دنیا بھر میں ہیمو فیلیا کا دن منایا جاتا ہے۔ اس دن کے منانے کا مقصد مرض سے بچائو اور آگاہی فراہم کرنا ہے۔ بنیادی طور پر اس بیماری میں مبتلا افراد میں خون رُکنے و جمانے کی صلاحیت نہیں ہوتی اور کسی بھی زخم کی صورت خون بہنا شروع ہوجاتا ہے۔یہ ایک موروثی بیماری ہے۔عام طور پر جب کسی کو چوٹ لگ جائے اور اس کے نتیجے میں خون بہنے لگے تو کچھ دیر بعد یہ خون رک جاتا ہے لیکن اگر خون بہنے کا عمل نہ رکے تو ایسی صورت میں یہ ہیموفیلیا کی علامت کو ظاہر کرتا ہے۔
ایک محتاط اندازے کے مطابق پاکستان میں بیس ہزار بچے ہیموفیلیاکے مرض کا شکار ہیں، صرف کراچی میں تین ہزار بچے اس مرض سے متاثر ہیں۔ مگرالمناک صورت حال یہ ہے کہ اس حوالے سے ملک میں سرکاری رجسٹریشن ہی موجود نہیں جس سے اس مرض میں مبتلا بچوں کی درست تعداد کا اندازہ لگایا جا سکے۔
اس مرض کی ابتدائی تشخیص اسی وقت ہو جاتی ہے جب کوئی نوزائیدہ بچہ دنیا میں آتا ہے، جب اس کی نال کاٹی جاتی ہے یا جب بچہ ختنے کے مرحلے سے گزرتا ہے۔علاوہ ازیں ،مسوڑھوں سے خون رسنااور جوڑوں اور پٹھوں میں سوجن ہونا اس مرض کی ممکنہ علامات ہو سکتی ہیں۔
ہیمو فیلیا کے علاج کے لیے عموماً انجکشن لگایا جاتا ہے جو خون جمانے والے اْن فیکٹرز پر مشتمل ہوتا ہے جو مریض بچے کے خون میں قدرتی طور پر نہیں پایا جاتا۔ مگر چونکہ پاکستان میں یہ فیکٹر انجکشنز مہنگے ہیں چنانچہ ہمارے یہاں مریضوں کو ایف ایف پی یعنی تازہ منجمد پلازما لگایا جاتا ہے۔ صحت مند خون میں سے لال خون کے خلیے اور پلیٹی لیٹس نکالنے کے بعد جو کچھ باقی بچتا ہے وہی دراصل ایف ایف پی ہے۔
بہترین صورت تو یہ ہے کہ ہیمو فیلیا کے مریضوں کے جسم میں صرف خون جمانے والے وہ فیکٹر داخل کیے جائیں جسم میں جن کی کمی ہے، مگر پاکستان میں ایسا نہیں کیا جاتا کیونکہ مذکورہ فیکٹر بہت مہنگا ہے۔ اس فیکٹر کے صرف ایک وائل کی قیمت نو ہزار روپے ہے اور مریض کو ہفتے میں متعدد بار ٹرانسفیوژن کی ضرورت پڑتی ہے،یہی وجہ ہے کہ ہمارے یہاں مریض کو مطلوبہ فیکٹر کی جگہ ایف ایف پی لگایا جاتا ہے ،مگر مسئلہ یہ ہے کہ اکثر خون اور پلازما اسکرین شدہ یعنی محفوظ نہیں ہوتا۔ چنانچہ ہیمو فیلیا کے مریض بچے ہیپاٹائٹس بی ،سی اور ایچ آئی وی وائرس سے متاثر ہو نے کے خطرات سے دوچار رہتے ہیں۔
واضح رہے کہ ہیمو فیلیا کا کوئی مستقل علاج نہیں جس میں اس بیماری کو ختم مکمل طور پر ختم کیا جا سکے ،ایسا نہیں ہے کہ والدین کا علاج کر دیا جائے تو بچے کو کوئی بیماری نہیں ہوگی اور ایک بار بچے کو بیماری ہو جائے تو ایسا ممکن نہیں ہے کہ اس بیماری کو جڑ سے ختم کر سکیں بلکہ دنیا بھر میں ہیمو فیلیا کے مریضوں کو اڑتالیس گھنٹے کے فرق سے تین بار فیکٹرviii یا ix لگایا جاتا ہے۔
ہیمو فیلیا کی تین مختلف قسمیں ہیں:
ہیمو فیلیاA ہیمو فیلیاB
Real Factor Deficiency
سب سے زیادہ پائی جانے والی بیماری ہیمو فیلیا Aہے،جس میں فیکٹر viiiکی کمی ہوتی ہے۔
ہیمو فیلیاBمیں فیکٹرixکی کمی ہوتی ہے۔
Real Factor Disorderمیں فیکٹر1سے لے کر فیکٹر13تک مختلف فیکٹرزکی کمی ہوتی ہے۔
شدت کے اعتبار سے ہیمو فیلیا کی تین قسمیں ہیں
1ahemophilia mildپانچ فیصد سے زیادہ
hemophilia severeایک فیصد سے کم
hemophilia moderateایک سے پانچ فیصدڈاکٹر کے پاس علاج کے لیے hemophilia severeوالے مریض ہی آتے ہیں۔موڈریٹ اور مائلڈ ہیمو فیلیا والوں کو علاج کی ضرورت اس وقت پڑتی ہے جب ان کا کسی قسم کا آپریشن ہونا ہو یا خدا نخواستہ ان کا ایکسیڈنٹ ہو جائے یا چوٹ لگ جائے،اس صورت میں ان کو علاج کے لیے فکیٹر لگانے کی ضرورت پیش آتی ہے۔مائلڈ اور موڈریٹ ہیمو فیلیا والوں کی زندگی قدرے بہتر ہوتی ہے۔
پاکستان میں ہیمو فیلیا ہی کی طرح ایک اور بیماری ہے جس میں خون جمنے کا عمل متاثر ہوتا ہے اسے Von Willebrand Disease کہتے ہیں۔یہ بھی موروثی طور پر منتقل ہو تی ہے مگر چونکہ اس ٹیسٹ کی سہولیات میسر نہیں ہیں اس لیے اسے بھی ہیموفیلیا کہہ کرعلاج کر دیا جاتا ہے،اس بیماری کے اپنے فیکٹرز ہیں جو اس بیماری میں لگائے جاتے ہیں۔
ہیمو فیلیا کا مرض بچوں کی نفسیات پر بھی اثرات ڈالتا ہے،جس کے نتیجے میں بچوں میں بے چینی، پژمردگی (ڈپریشن)،کسی کام کو بار بار دہرانے کی نفسیاتی بیماری (او سی ٹی)، احساس کمتری اور دوائوں پر انحصار بڑھ جاتا ہے۔
ضرورت اس امر کی ہے کہ اس مرض کے حوالے سے زیادہ سے زیادہ آگاہی فراہم کی جائے تاکہ اس مرض کے بارے میں لوگوں کو معلومات ہوں اوروہ اچھے طریقے سے علاج کرا سکیں۔ nn