تاریخ اور پاک بھارت تعلقات کے بارے میں ایسے خیالات کا اظہار کرتے ہیں کہ رونگٹے کھڑے ہوجاتے ہیں اور خیال آتا ہے کہ اسلامی جمہوریہ پاکستان کی تقدیر ایسے ٹٹ پونجیوں کے ہاتھ میں رہی ہے یا ہے؟ اس کی تازہ ترین مثال جیو کے پروگرام جرگہ میں ہونے والی سابق سیکرٹری خارجہ ریاض محمد خان کی گفتگو ہے۔ یہ پروگرام 8 اپریل 2018ء کو نشر ہوا۔ اس پروگرام میں ریاض محمد خان نے فرمایا۔
’’پاکستان کی اسلام سے پہلے کی بھی اپنی ایک تاریخ، ثقافت، شخصیت اور تشخص ہے اور اسی پر ہمیں اپنی توجہ مرکوز رکھنی چاہیے‘‘۔ (روزنامہ جنگ کراچی۔ 9 اپریل 2018)
جیسا کہ ظاہر ہے یہ چند سطریں، اسلام ، اسلامی جمہوریہ پاکستان اور پاکستانی قوم کی کھلی توہین ہیں اور ان پر جیو کی انتظامیہ اور جرگہ کے میزبان سلیم صافی کو اعتراض کرنا چاہیے تھا مگر شاید جیو اور سلیم صافی کا مسئلہ اسلام اور اسلامی جمہوریہ پاکستان کی حقیقی تاریخ نہ ہو اور ممکن ہے کہ جیو اور سلیم صافی کو ریاض محمد خان کے مذکورہ بالا خیالات سے اتفاق ہو۔ سلیم صافی کی ’’رگ صحافت‘‘ کو اکثر پھڑکتے دیکھا گیا ہے مگر اسلام، اسلامی جمہوریہ پاکستان اور اس کی حقیقی تاریخ پر کھلے حملے نے بھی صافی صاحب کی رگ مذہب، رگ تاریخ اور رگ تہذیب کو نہ پھڑکایا۔ اس سے اندازہ کیا جاسکتا ہے کہ اسلامی جمہوریہ پاکستان میں اسلام، اسلامی جمہوریہ پاکستان اور اس کی حقیقی تاریخ و تہذیب کے سلسلے میں لوگوں کی ’’حساسیت‘‘ اور ان کے ’’بے یارومددگار‘‘ ہونے کا کیا عالم ہے؟
بدقسمتی سے ریاض محمد خان نے جو کچھ کہا ہے وہ ان کی شخصی رائے نہیں ہے۔ بلاول زرداری کئی بار اس بات پر فخر کا اظہار کرچکے ہیں کہ ہم موئن جودڑو کی تہذیب کے امین ہیں۔ کچھ لوگ راجا داہر پر فخر کرتے ہیں۔ بعض لوگ گندھارا کی تہذیب پر رال ٹپکاتے ہیں۔ میاں نواز شریف کو اس بات پر کوئی اعتراض نہیں کہ انہیں عہد حاضر کا دارا شکوہ قرار دے کر ایک سطح پر ہندوازم کی تاریخ سے منسلک کیا جارہا ہے اور دوسری سطح پر انہیں اس دور کا استعارہ باور کرایا جارہا ہے جب داراشکوہ اسلام اور ہندو ازم کا منصوبہ تیار کرنے کے لیے کوشاں تھا۔ پیپلز پارٹی کے رہنما اعتزاز احسن اپنی تصنیف ’’سندھ ساگا‘‘ میں موجودہ پاکستان کو دریائے سندھ کی تہذیب سے منسلک کرکے اس پر دھمال ڈال چکے ہیں۔ اس اعتبار سے دیکھا جائے تو ریاض محمد خان نے جو کچھ کہا ہے اس کی نوعیت ’’انفرادی بک بک‘‘ کی نہیں ہے۔ بلکہ یہ ایک ’’اجتماعی بک بک‘‘ ہے اور اس کا علمی جواب ضروری ہے۔
ہر انسان کی ایک انفرادی تاریخ ہوتی ہے۔ اس تاریخ کے کسی مرحلے پر انسان کو سرطان ہوجاتا ہے، مگر پھر سرطان کا کامیابی کے ساتھ علاج ہوجاتا ہے اور انسان کو سرطان سے نجات مل جاتی ہے۔ ظاہر ہے کہ سرطان انسان کی انفرادی تاریخ کا حصہ تو ہوتا ہے مگر کوئی شخص کبھی سرطان پر ’’فخر‘‘ نہیں کرتا۔ اس کو اپنی ’’زندہ تاریخ‘‘ نہیں کہتا۔ وہ اس کا ذکر کرتا ہے تو ایک گزرے ہوئے لمحے کی حیثیت سے۔ ایک ’’ڈراؤنے خواب‘‘ کی طرح۔ اس مثال کو بہ الفاظ دیگر بیان کرنا ہو تو کہا جائے گا کہ ایک خطہ اپنی تاریخ کے ایک حصے میں کفر اور شرک میں مبتلا تھا۔ مگر پھر اللہ تعالیٰ نے اس خطے کے لوگوں پر کرم کیا، مہربانی فرمائی اور اسے ’’ایمان‘‘ کی دولت سے نواز دیا۔ اب صورت یہ ہوگی کہ کفر اور شرک اس خطے کے لوگوں کی ’’مردہ تاریخ‘‘ کہلائیں گی اور ایمان اس خطے کے لوگوں کی زندہ تاریخ اور زندہ تہذیب کا مرکز ہوگا۔ اسلام سے پہلے کا پاکستان ’’ہندو پاکستان‘‘ تھا۔ کچھ علاقوں میں یہ ’’بدھسٹ پاکستان‘‘ تھا۔ اس سے بھی قبل یہ موئن جو دڑو کی اس تہذیب کا مرکز تھا جو ہزاروں سال پہلے اس طرح فنا ہوچکی کہ اب اس کی ’’یاد‘‘ تک کہیں موجود نہیں۔ موئن جو دڑو کی زبان یا تو ابھی تک پڑھی اور سمجھی نہیں جاسکی ہے یا پھر اگر کسی نے اُسے پڑھ لیا ہے تو اس نے اپنے پڑھے ہوئے میں کسی کو شریک نہیں کیا ہے۔ اس تناظر میں دیکھا جائے تو ریاض محمد خان اور ان جیسے لوگ اہل پاکستان سے کہہ رہے ہیں کہ اسلام کی زندہ تہذیب اور تاریخ کو پھلانگ جاؤ اور گزرے زمانے کی ’’مردہ تاریخ‘‘ اور ’’مردہ تہذیب‘‘ پر اپنی توجہ مرکوز کردو۔ بندروں کے بارے میں ایک بنیادی بات یہ ہے کہ جب کسی بندریا کا بچہ مر جاتا ہے تو بندریا کئی روز تک مردہ بچے کو سینے سے لگائے پھرتی رہتی ہے لیکن چند دن بعد اسے ’’معلوم‘‘ ہوجاتا ہے کہ اس کا بچہ مرگیا ہے۔ چناں چہ وہ مردہ بچے کو کہیں چھوڑ کر آگے بڑھ جاتی ہے۔ مگر پاکستان کے سیکولر اور لبرل بندر پانچ ہزار سال پہلے مرجانے والی موئن جو دڑو کی تہذیب کو سینے سے لگائے پھر رہے ہیں۔ ڈھائی ہزار سال پہلے کی گندھارا تہذیب کو ’’اپنا‘‘ کہتے ہیں۔ 712 میں مرجانے والے راجا داہر کے ’’مردے کے تخیل‘‘ کو پوج رہے ہیں۔ اس کے برعکس اسلام کے عقاید زندہ ہیں، عبادات زندہ ہیں، تہذیبی اور ثقافتی مظاہر زندہ ہیں۔ مگر بلاول ہوں یا ریاض محمد خان، چودھری اعتزاز احسن ہوں یا راجا داہر کے پرستار سندھی نیشنلسٹ کوئی بھی اسلام کے زندہ تہذیبی اور تاریخی تجربے کو سینے سے لگانے کی بات نہیں کرتا۔ اس سے معلوم ہوتا ہے کہ تہذیبی اور تاریخی تجربے کے حوالے سے بندریاؤں کا ’’علم اور فہم‘‘ پاکستان کے سیکولر اور لبرل عناصر اور قوم پرستوں سے کئی ہزار گنا زیادہ ہوتا ہے۔ اس حوالے سے جیو اور سلیم صافی کے علم اور فہم کو بھی ہمارے انفرادی اور اجتماعی شعور کا حصہ ہونا چاہیے۔ لیکن ریاض محمد خان صرف ایک فقرہ بول کر نہیں رہ گئے۔
انہوں نے یہ کہنا بھی ’’ضروری‘‘ سمجھا کہ پاکستان اور بھارت کے تعلقات ’’نظریاتی‘‘ نہیں سیاسی ہیں۔ اس کی ’’دلیل‘‘ انہوں نے یہ دی کہ اگر دونوں ملکوں کے تعلقات ’’نظریاتی‘‘ ہوتے تو ہم مسئلہ کشمیر کو اقوام متحدہ میں کیوں لے جاتے؟۔ تجزیہ کیا جائے تو یہ بھی پاکستان کے ’’مذہبی تشخص‘‘ پر ایک رکیک حملہ ہے۔ دنیا کی کوئی بھی ریاست کسی بھی وقت کچھ بھی بن سکتی ہے۔ امریکا اور بھارت آج سیکولر ہیں کل سوشلسٹ بن سکتے ہیں۔ پچاس سال بعد وہ آمریت کو اختیار کرسکتے ہیں۔ سو سال بعد وہ عیسائی اور ہندو ریاست قرار پاسکتے ہیں اور ڈیڑھ سو سال بعد وہ ایک بار پھر سیکولر ریاستیں بن کر سامنے آسکتے ہیں۔ مگر پاکستان کا مسئلہ یہ ہے کہ وہ اصولی اعتبار سے اسلامی ریاست کے سوا کچھ بھی نہیں ہوسکتا۔ اس لیے کہ اسلام نہ ہوتا تو پاکستان کا وجود ہی نہ ہوتا۔ اگر کوئی شخص، کوئی گروہ، کوئی طبقہ پاکستان کو غیر نظریاتی بنانا چاہتا ہے تو اسے موجودہ پاکستان کو ختم کرنا ہوگا۔ پاکستان، پاکستان نہیں رہے گا تو کوئی اپنے پنجاب، اپنے سندھ، اپنے بلوچستان اور اپنے کے پی کے کو جو چاہے بنالے۔ اس اعتبار سے دیکھا جائے تو پاکستان کی نظریاتی ساکھ اور پاکستان کی بقا ہم معنی تصورات ہیں۔ اس تناظر میں دیکھا جائے تو بھارت کے ساتھ پاکستان کے تعلقات کل بھی نظریاتی تھے۔ آج بھی نظریاتی ہیں اور اگر کوئی اسلام اور پاکستان کے نظریے، اس کی تاریخ اور اس کی حقیقی تہذیب سے غداری نہیں کرے گا تو بھارت کے ساتھ پاکستان کے تعلقات کل بھی نظریاتی ہوں گے۔
(جاری ہے)
شاہنواز فاروقی
جہاں تک مسئلہ کشمیر کا تعلق ہے تو اسے پاکستان اقوام متحدہ میں نہیں لے گیا تھا بلکہ یہ کام بھارت کے پہلے وزیراعظم پنڈت نہرو نے کیا تھا۔ پنڈت نہرو کے اس اقدام کے نتیجے میں اقوام متحدہ نے جو قرار دادیں منظور کیں ان میں کشمیریوں کے حق خود ارادی کو تسلیم کیا گیا ہے اور کشمیری جب بھی حق خود ارادی بروئے کار لائیں گے تو ان کے سامنے ہندو بھارت اور اسلامی پاکستان میں سے کسی ایک کے انتخاب کی آزادی ہوگی۔ اس اعتبار سے کشمیریوں کی سیاسی پسند یا Political Choice اپنی اصل میں نظریاتی پسند یا Ideological choice ہوگی۔ ریاض محمد خان کیا اب تو میاں نواز شریف جیسے لوگ بھی ’’نظریات‘‘ پر بات کرنے لگے ہیں مگر نظریات کا مفہوم نہ ریاض محمد خان کو معلوم ہے نہ میاں نواز شریف کو۔ انسان کے ذہن اور جذبے کی ساخت ایسی ہے کہ اگر انسان کامل سچائی کے ساتھ پتھر کے بت کو پوجنے لگے تو وہ بے جان بت کے لیے ’’جان دے سکتا ہے‘‘۔ لیکن اگر انسان سچا نہ ہو تو انسان کائنات کی واحد حقیقت خدا کے لیے بھی جان دینے پر آمادہ نہیں ہوتا۔
ریاض محمد خان نے جرگہ میں یہ بھی فرمایا کہ مسئلہ کشمیر جہاد یا جنگ سے حل نہیں ہوگا بلکہ اس مسئلے کے حل کے لیے مذاکرات ہی پر انحصار کرنا ہوگا۔ مسئلہ کشمیر جہاد اور جنگ دونوں سے حل ہوسکتا تھا مگر اس کے لیے ایسی قیادت درکار تھی اور ہے جو خدا کی مطیع و فرنبردار اور صرف خدا پر بھروسا کرنے والی ہو اور امریکا کے جوتے چاٹنے کو ’’اعزاز‘‘ نہ سمجھتی ہو۔ 1962ء کی چین بھارت جنگ کے دوران بھارت اپنی ساری عسکری طاقت کو چین کی سرحد پر لے گیا تھا۔ چین نے جنرل ایوب سے کہا کہ آگے بڑھو اور اپنے زور بازو سے اپنا کشمیر بھارت سے چھین لو۔ جنرل ایوب چین کے مشورے پر عمل کرتے تو کشمیر صرف ایک ہفتے میں پاکستان کا حصہ ہوتا۔ مگر امریکا نے جنرل ایوب سے کہا خبردار ایسا مت کرنا۔ تم چین بھارت کی جنگ کو ختم ہونے دو امریکا مسئلہ کشمیر حل کرائے گا۔ لیکن چین بھارت کی جنگ کے خاتمے کے بعد امریکا نے مسئلہ کشمیر کے حل کے لیے کچھ بھی نہ کیا۔ اس سے قبل 1948ء میں کشمیر میں جہاد کی کارروائی کے لیے بنایا گیا منصوبہ ناقص تھا اور اس میں جلد بازی کا عنصر شامل تھا۔ ایسا نہ ہوتا تو کشمیر 1948ء میں جہاد سے حاصل ہوجاتا۔ کارگل کا تجربہ یہ ہے کہ اسے کوئی جہاد کہے یا جنگ مگر اس تجربے میں بھارت کی دو ڈویژن فوج کو گھیر لیا گیا تھا۔ اس فوج کے سامنے دو ہی امکانات تھے۔ ایک یہ کہ پاکستان کے سامنے ہتھیار ڈالے یا بھوک اور سردی کی شدت سے ازخود ہلاک ہوجائے مگر میدان جنگ کی فتح واشنگٹن میں ’’پسپائی‘‘ بن گئی اور یہ ’’تحفہ‘‘ میاں نواز شریف کا ’’تخلیق‘‘ تھا۔ کہنے والے کہتے ہیں کہ مسئلہ صرف میاں نواز شریف کا نہیں تھا۔ عسکری قیادت اور سیاسی قیادت میں مفاہمت ہوتی تو مسئلہ کشمیر کا اصولی حل ممکن تھا۔ کارگل کی ایک اور توجیہہ بھی ہے اور وہ یہ کہ کارگل اپنی اصل میں ایک امریکی منصوبہ تھا یا اس منصوبے کو امریکا نے اپنے مفادات کے لیے استعمال کرلیا۔ اس دعوے کی دلیل یہ ہے کہ کارگل کی کارروائی کے لیے دو ہزار سے زیادہ جو خصوصی لباس خریدے گئے وہ دنیا میں صرف برطانیہ کی ایک کمپنی بناتی ہے۔ پاکستان نے اتنے بڑے پیمانے پر خصوصی سوٹ خریدے تو اس کی اطلاع یقیناًبرٹش انٹیلی جنس کو ہوگئی ہوگی اور امریکی سی آئی اے بھی اس صورت حال سے باخبر ہوگی۔ مگر برطانیہ اور امریکا نے بھارت کو اس کی اطلاع نہ کی۔ انہوں نے بھارت کی دو ڈویژن فوج کو مجاہدین یا پاکستانی فوجیوں کے نرغے میں آنے دیا۔ اس کے نتیجے میں بھارتی وزیر اعظم امریکا کے صدر بل کلنٹن سے مداخلت کی ’’بھیک‘‘ مانگنے پر مجبور ہوئے۔ امریکا یہی چاہتا تھا کہ بھارت اس کے آگے ناک رگڑے تا کہ اس کے بعد بھارت کی منڈی مغربی سرمایے کے لیے کھل جائے۔ کارگل کے مسئلے کے حل کے بعد عملاً یہی ہوا۔ وہ بھارت جو پچاس سال سے اپنی منڈی پر تالا لگائے بیٹھا تھا اس نے تالا توڑ دیا اور مغرب کی کثیر القومی کمپنیاں یا ملٹی نیشنلز بھارت میں گھس گئیں۔ آج بھارت امریکا کا ’’اتحادی‘‘ یا چین کے مقابلے پر مغرب کا ’’آلہ کار‘‘ بنا ہوا ہے۔ لیکن یہاں کہنے کی اہم بات یہ ہے کہ ہماری قیادت نے واقعتاً سب سے پہلے پاکستان کے نعرے پر عمل کیا ہوتا تو جہاد یا جنگ سے کشمیر ہمارا بن چکا ہوتا۔ پاکستان میں ایک معقول شخص بھی ایسا نہیں جو بھارت سے مذاکرات کے خلاف ہو مگر ہم 60 سال سے کشمیر پر مذاکرات کیے جارہے ہیں اور بے معنی مذاکرات کا ایک ہمالہ تخلیق ہوچکا ہے۔ مسئلہ کشمیر مذاکرات سے حل ہونا ہوتا تو مذاکرات کا ہمالہ اس مسئلے کو حل کراچکا ہوتا۔ مذاکرات کی ناکامی کی وجہ طاقت کا عدم توازن ہے۔ بھارت خود کو بڑا بھی سمجھتا ہے اور اس کے حجم نے اسے تکبر کے ساتویں آسمان پر بٹھایا ہوا ہے۔ بدقسمتی سے پاکستان اور بھارت کے درمیان طاقت کا توازن مزید بگڑ تو سکتا ہے بہتر نہیں ہوسکتا۔ ہمارا تجزیہ یہ ہے کہ تقریباً ’’سازش‘‘ کے انداز میں پاک بھارت مذاکرات کی راہ ہموار کرنے کی کوششیں ہورہی ہیں لیکن جن کوششوں پر سازش کا گمان ہورہا ہو ان کے نتیجے کا اندازہ کیا جاسکتا ہے۔