اچھاقدم، غلط طریقہ

379

پاکستان تحریک انصاف کے صدر نشین عمران خان نے بظاہر بڑی جرأت کا مظاہرہ کیا ہے اور اپنی پارٹی کے 20ارکان صوبائی اسمبلی کے بارے میں ایک پریس کانفرنس میں اعلان کردیا کہ یہ سب بکاؤ نکلے اور سینیٹ کے انتخابات میں چار چار کروڑر وپے لے کر بک گئے۔ یقیناًکسی اور سیاسی جماعت نے ایسا نہیں کیا کہ اپنی پارٹی کے بکاؤ مال کو اس طرح افشا کیا ہو۔ میاں نوازشریف نے بھی 9افرادکے بارے میں شبہ ظاہر کیا تھا کہ وہ پیسے لے کر بک گئے لیکن ان کے بارے میں کوئی کارروائی نہیں کی گئی۔ عمران خان نے خیبر پختونخوامیں اپنی پارٹی کی حکومت کو بھی خطرے میں ڈال دیا ہے اور حزب اختلاف نے دعویٰ کیا ہے کہ صوبائی اسمبلی میں تحریک انصاف کی اکثریت ختم ہوگئی چنانچہ اعتماد کا ووٹ لینا ضروری ہوگیا ہے ۔لیکن عمران خان نے اتنا بڑا قدم اٹھانے کے لیے جو طریقہ اختیار کیا وہ نہایت نامناسب ہے۔ پہلے تو ان 20افراد کے نام جاری کردیے اور دعویٰ کیا کہ پوری تحقیق کے بعد ان افراد کی شناخت کی گئی ہے اور پھر کہتے ہیں کہ شوکاز نوٹس ( وجہ بتاؤ) جاری کردیا ہے، اپنے آپ کو بے گناہ ثابت کریں ورنہ پارٹی سے نکالنے کے ساتھ ان کے نام نیب کوبھیج دیں گے۔ عمران خان نے گاڑی کے پیچھے گھوڑا باندھنے کا کام کیا ہے۔ 20افراد کو بکاؤ قرار دے کر اب کس بات کا شوکاز نوٹس؟ یہ دعویٰ بھی ہے کہ پوری تحقیق کر کے یہ نام جاری کیے ہیں اور ان افراد کو پارٹی سے نکالنے کی دھمکی بھی دے دی ہے۔ عمران خان نے جن ارکان اسمبلی کولوٹے اور بکاؤ قرار دیا ہے ان کے حلقوں میں ان کی کیا عزت رہ گئی ہوگی اور وہ جہاں جائیں گے تحریک انصاف کے کھلاڑی انہیں گالیاں ہی دیں گے۔ فوری ردعمل ظاہر کرنے میں ویسے بھی یہ کھلاڑی بہت جلد باز ہیں۔درست طریقہ تو یہ تھا کہ سب کے سامنے ان افراد کو بکاؤ مال قرار دینے سے پہلے اپنی تحقیقات کی روشنی میں انہیں شوکاز نوٹس دیا جاتا اور جواب تسلی بخش نہ ہوتا تو ان کے نام سامنے لائے جاتے اور پارٹی سے نکالا جاتا۔ عمران خان نے جن افراد کا نام لیا ان میں سے کئی قرآن کریم پر حلف اٹھا کر الزامات کی تردید کررہے ہیں۔ ایک رکن اسمبلی تو اتنے جذباتی ہوئے کہ پارٹی کے لوگوں کو ساتھ لے کر خانہ کعبہ جانے اور اپنی برأت ثابت کرنے کے لیے تیار ہیں ۔ ایک عام مسلمان بھی قرآن کریم پر حلف کا اعتبار کرتا ہے اور یہ شوکاز نوٹس کا شافی جواب ہے۔ اکثر ارکان نے الزامات کو بے بنیاد قرار دیا ہے اور کہا ہے کہ ہمیں قربانی کا بکرا بنایا گیا، ہمارے خلاف سازش ہوئی ہے اور جو الزامات لگائے گئے ہیں ان کے ثبوت پیش کیے جائیں۔ کچھ ارکان کا کہنا تھا کہ کسی تحقیقاتی کمیٹی نے ان سے رابطہ ہی نہیں کیا اور نہ کسی نے ان کا موقف لیا، رسوا کر کے کہہ رہے ہیں کہ خود کو صاف کرو۔ ان ارکان اسمبلی کا کہنا ہے کہ کپتان نے سستی شہرت کے لیے ڈراما رچایا۔ انہوں نے یہ سوال بھی اٹھایا کہ عمران خان بتائیں انہوں نے سینیٹ کے چیئرمین اور ڈپٹی چیئرمین کے لیے اپنا ووٹ زرداری کو کتنے میں بیچا۔ عمران خان نے رکن قومی اسمبلی ہوتے ہوئے سینیٹ کے انتخابات میں حصہ ہی نہیں لیا تھا۔ کیا یہ بھی کسی سمجھوتے کا نتیجہ تھا؟ عمران خان کو یاد ہوگا کہ انہوں نے اپنے ارکان کے ووٹ بلوچستان کے حوالے کردیے تھے جو بالواسطہ طور پر پیپلز پارٹی کو ملے۔ خیبر پختونخوا اسمبلی میں پیپلز پارٹی کی 7نشستیں ہیں لیکن ان کے بل پر پیپلز پارٹی نے سینیٹ کی دو نشستیں حاصل کرلیں جب کہ اس سے زیادہ نشستیں رکھنے والی پارٹیوں کو ایک نشست بھی نہیں ملی۔ اس میں کوئی شبہ نہیں کہ سینیٹ کے انتخابات میں گھپلے ہوئے ہیں۔ گھوڑوں، گدھوں کی تجارت بھی ہوئی ہے چنانچہ بکنے والوں کے نام ضرور سامنے آنے چاہییں مگر پورے ثبوت کے ساتھ۔ یہ نہ ہو کہ پہلے الزامات لگادیے جائیں بعد میں صفائی طلب کی جائے۔ ان ارکان اسمبلی کا کہنا ہے کہ ’’ پی ٹی آئی بے وقوفوں کا ٹولہ ہے‘‘۔ لیکن کل تک تو یہ سب اسی ٹولے میں تھے۔ یہ ایسے ہی ہے جیسے رکن قومی اسمبلی عمران خان قومی اسمبلی کو برا بھلا کہتے رہتے ہیں۔ نشانہ بننے والے ارکان اسمبلی نے کہا کہ ہم بھی جوابی الزام لگاتے ہیں کہ عمران خان نے اپنا ووٹ 8کروڑ روپے میں بیچا۔ بہرحال اب یہ ارکان اسمبلی ہتک عزت کا دعویٰ لے کر عدالت میں جانے کی تیاری کررہے ہیں ۔ ان میں سے ایک جاوید نسیم کا کہنا ہے کہ 3سال قبل تحریک انصاف چھوڑ چکا ہوں، میں عمران خان کو جواب دہ نہیں ۔ عمران خان کا یہ جرأت مندانہ اقدام کہیں ان کے خلاف ہی نہ جائے کیوں کہ مخالفین انہیں پورس کا ہاتھی قرار دے رہے ہیں جس نے اپنی ہی فوج کو کچل دیا تھا۔ اہم سوال یہ ہے کہ جو افراد ووٹ خرید کر سینیٹر بنے ان کا مستقبل کیا ہے۔ ووٹ بیچے گئے تو خریدے بھی گئے ہوں گے۔ عمران خان نے دوسری جماعتوں کو بھی للکارا ہے کہ وہ بھی اپنی پارٹی کے ضمیر فروشوں کو نکال دیں۔ عمران نے جن 20افراد پر الزام لگایا ہے ان کا پارٹی میں رہنا مشکل ہے اور ممکن ہے کہ وہ بھی اپنا الگ گروپ بنا لیں۔ انتخابات بہت قریب ہیں ایسے میں عمران خان نے بہت بڑا قدم اٹھایا ہے۔ جس سے صوبے کی حکومت ہاتھ سے نکل سکتی ہے۔