سب سے بڑا منصف

261

سابق وزیراعظم میاں نواز شریف اور تحریک انصاف کے معروف رہنما جہانگیر ترین کو عدالت عظمیٰ نے تاحیات نااہل قرار دے دیا ہے۔ فیصلہ متوقع ہے مگر اس کا ردعمل غیر متوقع ہے۔ اس کی بنیادی اور اہم وجہ مسٹر جسٹس عظمت سعید کا اضافی نوٹ ہے۔ موصوف نے بین السطور جو کچھ کہا ہے اس نے فیصلے کو متنازع بنادیا ہے۔ موصوف کا فرمان ہے کہ وہ فیصلے سے متفق ہیں مگر اس کی وجوہات سے نہیں۔ سوچنے کی بات یہ ہے کہ پھر فیصلے کی بنیاد کیا ہے؟ ان کا یہ فرمان بھی توجہ طلب ہے کہ نااہلی کا فیصلہ پارلیمنٹ میں ہونی چاہیے تھا۔ عدلیہ کو یہ مشورہ بھی دیا کہ آئین کی شقوں کی تشریح بہت احتیاط سے ہونا چاہیے۔ گویا مسٹر جسٹس عظمت سعید 62 ون ایف کی تشریح سے مطمئن نہیں۔
فیصلہ سنانے والے پانچ رکنی بنچ کا فرمان ہے کہ ہم آئین سازی نہیں کرسکتے، تشریح کرسکتے ہیں۔ یعنی آئین بھی دیوان غالب ہے کہ ناقدین اپنی پسند اور مرضی کے مطابق تشریح کرسکتے ہیں۔ یادش بخیر! مسلم لیگ (ن) کے رکن اسمبلی سابق جسٹس افتخار چیمہ کو اثاثوں کے بارے میں غلط بیانی پر رکنیت سے محروم کیا گیا تھا مگر ان کے چہرے پر نااہلیت کا بورڈ آویزاں کرنے سے عدلیہ نے گریز کیا تھا۔ حالاں کہ انہوں نے غلط بیانی کا اعتراف بھی کیا تھا۔ نشست سے محروم کرنے کے بعد انہیں اپنی نشست پر ضمنی الیکشن لڑنے کی اجازت سے نوازا گیا تھا، شاید اس کی وجہ یہ ہو کہ وہ جسٹس کے عہدے پر فائز رہ چکے تھے۔ گویا وہ اپنے آدمی تھے۔ جہانگیر ترین کے ساتھ ہونے والے سلوک کو بدترین کہا جاسکتا ہے کیوں کہ انہیں غلط بیانی پر تاحیات نااہل قرار دیا گیا ہے۔ گندم کے ساتھ گھن کا پسنا ایک یقینی امر ہے اور جہاں تک میاں نواز شریف کا تعلق ہے تو انہیں ہٹائے بغیر لاڈلوں کی راہ سیاسی راہ ہموار نہیں ہوسکتی تھی۔ سوال یہ ہے کہ لاڈلے کون ہیں؟ اور ان کے لیے سیاسی میدان کون ہموار کررہا ہے؟ اس کا جواب تو آنے والا وقت ہی دے گا کہ وقت سے بڑا منصف کوئی نہیں۔ اگر دیانت داری سے اس فیصلے پر غور کیا جائے تو اس کی ذمے داری میاں نواز شریف پر عاید ہوتی ہے۔ انہوں نے خود کو روایتی بادشاہ سمجھ لیا تھا، وہ تاحیات تخت نشیں رہنا چاہتے تھے، میاں نواز شریف کو تاریخ سے دل چسپی ہوتی تو اس حقیقت کا ادراک ہوجاتا کہ تاحیات تخت نشینی کا خبط بھائیوں اور بیٹوں کو بھی بدظن کردیتا ہے۔
میاں نواز شریف کا سب سے بڑا مقصد یہ ہے کہ اپنے سوا کسی کو بھی وزارت اعظمیٰ کا اہل نہیں سمجھتے تھے۔ ہمیشہ سب نااہل ہیں کا ورد کرتے رہتے تھے شاید ان کے مرشد نے انہیں یہ بتانا ضروری نہیں سمجھا تھا کہ وظائف الٹے بھی پڑجاتے ہیں سو، دوسروں کو نااہل قرار دینا والا خود نااہل ہوگیا۔ میاں نواز شریف کی جمہوریت آمریت کی بدترین مثال بنتی جارہی تھی اقربا پروری اور دوست نوازی وبا کی طرح پھیلتی جارہی تھی۔ وبا کوئی بھی ہو اس کا سدباب ناگزیر ہوتا ہے سو، میاں نواز شریف کی آمریت کو ختم کرنے کے لیے ضروری تھا کہ انہیں سیاست سے بے دخل کردیا جائے، سیاسی میدان سے آؤٹ کردیا جائے، اس لیے مقتدر قوتوں نے ایسے حالات پیدا کیے جو میاں نواز شریف کو تاحیات نااہل قرار دینے کا جواز بن سکیں، کیوں کہ جمہوریت میں تاحیات حکمرانی کا کوئی تصور نہیں۔ میاں نواز شریف کی نااہلی کا فیصلہ ہمیں اس سپاہی کی یاد دلارہا ہے جو 65ء کی جنگ میں نیپام بم کے حملے میں زخمی ہوا تھا۔ 70ء کے بعد نیپام بم کی تباہ کاری ظاہر ہونے لگی تو ڈاکٹروں نے رائے دی کہ پاؤں کے انگوٹھے کاٹ دیے جائیں مگر سپاہی راضی نہ ہوا۔ زخم بڑھا تو دونوں پنڈلیاں کاٹنے کی تجویز دی گئی مگر وہ راضی نہ ہوا۔ بالآخر زخم رانوں تک پھیل گیا، ڈاکٹروں نے واضح طور پر کہہ دیا کہ اگر ٹانگیں نہ کاٹی گئیں تو ایک کرب ناک موت اس کا مقسوم ٹھیرے گی۔ مجبوراً اسے ٹانگیں کٹوانا پڑیں۔ ہم یہ سوچ سوچ کر پریشان ہو رہے ہیں کہ نااہلی۔۔۔ تاحیات ناہلی کے آفٹر شاکس کہیں مذکورہ سپاہی کے انجام جیسے نہ ہوں۔ انسان حیوان ناطق ہے، نطق سے محروم کردیا جائے تو انسان اور حیوان کا فرق مٹ جاتا ہے اور بغاوت کے جذبات حاوی ہوجاتے ہیں۔