خیبرپختونخوا حکومت، دعوے اور حقائق

239

چیف جسٹس پاکستان کا رخ اب صوبہ خیبر پختونخوا کی طرف ہے۔ گزشتہ جمعرات کو جسٹس میاں ثاقب نثار کی صدارت میں عدالت عظمیٰ کی بینچ نے صوبے کے وزیر اعلیٰ پرویز خٹک کو طلب کیا اور اس تبدیلی کے بارے میں سوالات اٹھائے جن کا چرچا گزشتہ 5 سال سے کیا جارہا ہے۔ حکمران جماعت تحریک انصاف کے سربراہ عمران خان یہ کہتے نہیں تھکتے کہ وہ صوبے میں تبدیلی لے آئے ہیں اور اب یہ تبدیلی پورے پاکستان میں آئے گی۔ انہوں نے جمعہ کو بھی اپنے خطاب میں نئے پاکستان کی بات کی، وہ پاکستان جس میں غریب اور امیر میں کوئی فرق نہیں ہوگا اور صحت و تعلیم کی سہولتیں سب کے لیے ہوں گی۔ لیکن چیف جسٹس نے خیبر پختونخوا حکومت کارکردگی کو مایوس کن قرار دیا اور صحت ، تعلیم اور پینے کے صاف پانی کی فراہمی سمیت سماجی شعبے میں حکومت کی کارکردگی کے بارے میں سوالات اٹھا دیے۔ چیف جسٹس کا کہنا تھا کہ گزشتہ 5 سال میں صوبے کے دارالحکومت پشاور میں بھی کوئی ایک معیاری اسپتال اور اسکول قائم نہیں ہوا۔ چیف جسٹس پاکستان پہلے دروزہ سرکاری دورے پر پشاور میں تھے۔خیبر پختونخوا کی حکومت 20ارکان اسمبلی پر ووٹ بیچنے کے الزامات عاید کرنے کے بعد پہلے ہی مشکل میں ہے اور بعض ارکان خود وزیر اعلیٰ پرویز خٹک پر بدعنوانی کے الزامات لگا رہے ہیں ۔ ایسے میں چیف جسٹس پاکستان کے تبصروں سے حکومت کی مشکلات میں مزید اضافہ ہوگا جب کہ عمران خان کی نظریں وزارت عظمیٰ پر ہیں اور وہ پورے پاکستان میں ایسی ہی تبدیلیاں لانا چاہتے ہیں جیسی صوبہ خیبر پختونخوا میں لاچکے ہیں ۔ چیف جسٹس نے وزیر اعلیٰ پرویز خٹک سے کہا کہ ہم نے تو گڈ گورننس ( بہترین انتظام) کی بڑی تعریفیں سنی تھیں لیکن زمینی حقائق تو بالکل مختلف ہیں ۔ عدالت عظمیٰ کے تین رکنی بینچ کے سامنے تقریباً تمام ہی انتظامی سربراہ حاضر تھے جن میں چیف سیکرٹری اعظم خان بھی شامل تھے۔ وزیر اعلیٰ پرویز خٹک نے دعویٰ کیا کہ ان کی حکومت ہر شعبے میں بہتری لائی ہے اور صحت و تعلیم سمیت سوشل سیکٹر کے بجٹ میں اضافہ کیا ہے۔ لیکن چیف جسٹس نے پوچھا کہ بتائیں، پشاور میں کون سا نیا اسپتال قائم ہوا؟ اس کا کوئی جواب نہیں تھا۔ عدالت عظمیٰ نے خیبر پختونخوا میں فراہم کردہ پینے کا پانی ٹیسٹ کروانے کی ہدایت بھی کی ہے۔ ممکن ہے کچھ لوگ اسے بھی جوڈیشل ایکٹو ازم قرار دیں لیکن اس اعتراض کا جواب تو دیا جا چکا ہے کہ جب حکومتیں کچھ نہیں کریں گی تو کوئی تو یہ کام کرے گا۔ اگر خیبرپختونخوا میں دعووں کے مطابق کام ہوا ہوتا تو عدالت عظمیٰ کو کچھ کہنے کی ضرورت ہی نہیں پڑتی۔ جب کچھ بہتری آئی ہی نہیں تو دعوے بھی نہیں کرنے چاہییں تھے۔ یہ مسئلہ صرف خیبر پختونخوا کا نہیں ، ہر صوبے کا ہے۔ نا اہل وزیر اعظم میاں نواز شریف نے ایک بار کہا تھا کہ جس اینٹ کو اٹھاؤ اس کے نیچے سے گند نکلتا ہے۔ میاں صاحب نے گند صاف کرنے کے بجائے اٹھائی گئی اینٹ کو واپس اپنی جگہ مضبوط سے جما دیا۔ صوبہ سندھ کا حال تو خیبرپختونخوا سے بھی زیادہ برا ہے اور یہاں دعوے اس سے بڑھ چڑھ کر ہیں۔ پنجاب میں بھی کارکردگی کا پول کھل رہا ہے اور کہا جارہا ہے کہ صوبے کے بجٹ کا بیشتر حصہ لاہور پر خرچ ہوگیا ہے۔ تاہم وہاں ٹرانسپورٹ کی سہولت تو نظر آرہی ہے۔ پیپلز پارٹی کو اطمینان ہے کہ صوبہ سندھ کے لیے کچھ نہ بھی کیا جائے تو بھی پیپلز پارٹی کو ووٹ مل جائیں گے۔ چیف جسٹس میاں ثاقب نثار نے جوڈیشل اکیڈمی میں بھی خطاب کیا اور صاف بات کی کہ ’’ میں اکیلا نظام ٹھیک نہیں کرسکتا، 1861ء کا قانون آج تک تبدیل نہیں ہوا، ججوں کا کام قانون بنانا نہیں ان پر عمل کرانا ہے‘‘۔ لیکن بڑا مسئلہ یہ ہے کہ جن کا کام قانون بنانا ہے ان کو قانون سازی سے کوئی دلچسپی ہے نہ ہی قانون کا علم۔ یہ قانون ساز کسی اور اہلیت اور صلاحیت کی بنیاد پر منتخب ہو کر ایوان میں پہنچتے ہیں اور آئندہ بھی پہنچتے رہیں گے۔ تازہ مثال سینیٹ کے انتخابات کی ہے جہاں کروڑوں میں ووٹ فروخت ہوئے ہیں ۔ یہ سرمایہ کاری بے مقصد تو نہیں ۔ فائدے کا سودا ہوگا تو کیا ہوگا۔ بہرحال اگر عدلیہ فعال ہے، چیف جسٹس بہتری لانے کے لیے پرعزم ہیں تو یہ بھی اچھی علامت ہے۔ چیف جسٹس اکیلے نہیں ہیں، عدل و انصاف کے خواہش مند ان کے ساتھ ہیں ۔ جانب منزل کوئی اکیلا ہی چل پڑے تو لوگ ساتھ آتے جاتے ہیں اور قافلہ بن جاتا ہے۔ خیبرپختونخوا حکومت کی کارکردگی کا پردہ چاک کرنے سے شاید دوسرے صوبوں کی حکومتوں کو کان ہو جائیں۔