تحریک انصاف کے مشکوک اراکین اسمبلی کو بے نقاب کیا جائے، مشتاق خان

148

پشاور (وقائع نگار خصوصی) امیر جماعت اسلامی خیبر پختونخوا سینیٹر مشتاق احمد خان نے وزیر اعلیٰ خیبر پختونخوا کے ترجمان کے بیان پر اپنے ردعمل کا اظہار کرتے ہوئے کہا ہے کہ سینیٹر سراج الحق نے حقیقت حال کی ہیں۔ صوبائی حکومت کا ردعمل غیر ضروری، جذباتی اور حقائق کے منافی اور غیر سیاسی ہے۔ یہ حقیقت ہے کہ پی ٹی آئی کی آدھی پارٹی ساٹھ کروڑ میں بک گئی تھی، جس کے نتیجے میں منتخب ہونے والے سینیٹرز کی حیثیت پر سوال اٹھنا لازمی بات ہے۔ نومنتخب سینیٹرز کو بلانے اور ان سے حلف لینے کے سراج الحق کے مطالبے پر سیخ پا ہونا سمجھ سے بالاتر ہے۔ ہمارا مطالبہ ہے پاکستان تحریک انصاف کے جو مزید مشکوک ممبران اسمبلی ہیں انہیں بھی بے نقاب کیا جائے۔ چیف جسٹس آف پاکستان کا گلہ سراج الحق سے کرنا کہاں کا انصاف ہے۔ جماعت اسلامی پر الزام تراشی کا کوئی فائدہ نہیں، شوکت یوسفزئی کو خبردار کرتے ہیں کہ وہ اپنے الفاظ اور جملوں کے انتخاب میں احتیاط کریں۔ جماعت اسلامی کی داخلی جمہوریت کا اعتراف ملکی اور بین الاقوامی اداروں نے کیا ہے جب کہ امانت و دیانت پر عدالت عظمیٰ آف پاکستان کی گواہی موجود ہے، اصولوں کی پاسداری اور پارٹی سے وفاداری حالیہ سینیٹ الیکشن میں صرف جماعت اسلامی کے امیدورانوں نے ثابت کی۔ ہم بجٹ کے لیے تیار ہیں اور چاہتے ہیں کہ صوبائی حکومت بجٹ پیش کرے لیکن پی ٹی آئی کا بجٹ سے راہ فرار سمجھ میں نہیں آتا۔ ان خیالات کا اظہار انہوں المرکز الاسلامی پشاور میں میڈیا نمائندوں سے گفتگو کرتے ہوئے کیا۔ سینیٹر مشتاق احمد خان نے کہا کہ جماعت اسلامی صوبائی حکومت کا اہم حصہ رہی ہے، ہم پی ٹی آئی کے جرگے اور اپنے تحریری شرائط پر تحریک انصاف کی آمادگی کے بعد حکومت میں شامل ہوئے اور ہم نے اپنے شرائط ایک معاہدے کی شکل میں پی ٹی آئی کی قیادت اور وزیر اعلیٰ سے دستخط کرلیے تھے۔ جماعت اسلامی کے اس تحریری معاہدے کی وجہ سے معاہدے کی روشنی میں ہی حکومت نے سود کیخلاف قانون سازی کی۔ ہمارے وزرا کی کارکردگی سب کے سامنے ہے، جماعت اسلامی کے وزرا کی کاردگی کا اعتراف وقتاً فوقتاً ملکی اور بین الاقوامی ادارے کرتے رہے ہیں۔ حال ہی میں چیف سیکرٹری نے صوبائی وزیر بلدیات عنایت اللہ خان کو بہترین وزیر کا سرٹیفکیٹ دیا ہے، جماعت اسلامی کے تینوں وزرا پر کرپشن کا الزام تک نہیں لگا۔ قرآن پاک کا ترجمہ و ناظرہ، نصاب تعلیم میں اصلاحات اور نکالے گئے مشاہیر اسلام و پاکستان کے اسباق کو دوبارہ شامل کرنا جماعت اسلامی کی وجہ سے ممکن ہوا۔ انہوں نے کہا کہ سینیٹ کے حالیہ انتخابات کڑا امتحان تھے، سینیٹ انتخابات سے پتا چلا کہ کرپشن کے لحاظ سے کونسی پارٹی کتنے پانی میں ہے، سینیٹ انتخابات نے پارٹیوں اور امیدواروں کی کرپشن کو بے نقاب کیا۔ جماعت اسلامی کے سات ممبران نے پارٹی کے ساتھ وفاداری نبھائی ہے، تحریک انصاف کے بیس ایم پی ایز بک گئے ہیں اور اس کا اقرار عمران خان نے بھی کیا ہے۔ انہوں نے ووٹ بیچا ہے تو ان کے منصوبوں کا بھی جائزہ لینا چاہیے کہ ترقیاتی کاموں میں ان بیس افراد نے کتنی کرپشن کی ہے۔ انہوں نے کہا کہ الیکشن کمیشن اور نیب کی ذمے داری ہے کہ وہ تحریک انصاف کے تمام ممبران اسمبلی اور مرکزی و صوبائی قیادت کو بلائیں اور دونوں ا طراف کے الزامات کا جائزہ لیں اور تحقیقات کریں تاکہ دودھ کا دودھ اور پانی کا پانی ہو۔ اس وقت گیند الیکشن کمیشن اور نیب کی کورٹ میں ہے۔ انہوں نے کہا کہ لوگوں کو جماعت اسلامی کی امانت و دیانت اور کرپشن فری سیاست کا پتہ ہے،لوگ جماعت اسلامی کے پارلیمانی لیڈرز کو بھی جانتے ہیں، وزیر اعلیٰ اگر اسلامائزیشن کی بات کرتے ہیں تو بتائیں کہ ممتاز قادری کے مسئلے پر ان کا اور ان کی پارٹی کا کیا مؤقف تھا، قومی اسمبلی او ر سینیٹ میں ختم نبوتﷺ کے مسئلے پر پی ٹی آئی اپنی پوزیشن اور مؤقف واضح کرے، لوگوں کو پتا ہے کہ صوبائی حکومت میں اگر شفافیت، بہتر طرز حکمرانی اور اسلامائزیشن کچھ نہ کچھ ہوئی وہ جماعت اسلامی کی وجہ سے ہوئی ہے۔