اے لوگو، اے دیدہ ورو کچھ اُس دن کی تدبیر کرو!

356

ہری پور۔ ایبٹ آباد۔ مانسہرہ۔ گڑھی حبیبُ اللہ۔ بالاکوٹ۔ کاغان۔ ناران۔۔۔ پشاور، سوات، چترال، گلگت بلتستان۔ وطنِ عزیز کے اِن سرسبز وشاداب اور جنت نظیر خطوں کے نام ایک سفر کی منزلوں کے نام ہیں۔ آگہی کا سفر۔ علم کا سفر۔ فرحت کے حصول کا سفر۔ سیر کا سفر اور اللہ کی اِن لہلہاتی نشانیوں کی اُنگلی تھام کربے بصری کی پستیوں سے اُٹھنے اور بصیرت کی بلندیوں تک پہنچ جانے کا سفر۔ جنت کے اُن باغات کا ایک دُنیاوی عکس کہ جن کے نیچے نہریں رواں ہوں گی۔ کائناتِ ارضی کے اِس سربلند گوشے کو دیکھ کر ہمیشہ یہی احسا س ہوا کہ:
خدا کی نظموں کی کتاب ساری کائنات ہے
غزل کے شعر کی طرح ہر ایک فرد‘ فرد ہے
چشم انسان اور چشم نرگس میں فرق بس بینائی کا ہے۔ جن علاقوں کے نام آپ نے اوپر پڑھے، یہ نام اِس کالم نگار کو شدید تپتی گرمیوں میں ایک ٹھنڈے ٹھار پُرسکون کوہستانی وادیوں کے خوابناک ماحول میں لے جاتے ہیں۔ مسافروں سے بھری ہوئی موٹر فراٹے بھر رہی ہے۔ دائیں بائیں سرو صنوبر کے بلند وبالا اور لپکتے لہکتے کاروان تیزی سے گزرتے چلے جارہے ہیں۔ ایک ہم سفر کہہ رہا ہے: ’’یہ پہاڑوں کے پاسبان ہیں‘‘۔ پہاڑوں کے نیچے نشیب میں ایک ندی غزل خواں ہے۔ پوری وادی اُس کی سامع ہے۔ آسمان صاف اور نیلا ہے۔ ہوا میں تراوٹ ہے اور تازگی ہے۔ فضا میں محبت کی خوشبو بھری ہے۔۔۔ مگر یہ کوئے سیاست میں کیا ہورہا ہے؟ ’’حقوق‘‘ کے طالب کیا کر رہے ہیں؟
کچھ برس پہلے بھی سرزمینِ ہزارہ کی بستیوں میں ہم نے دیکھا تھا کہ فضا یکایک نفرت سے بھر گئی ہے۔ راستوں میں آگ بھڑک رہی ہے۔ دُکانیں لوٹی جارہی ہیں۔ بازار بند ہیں۔ شاہراہیں ویران ہیں۔ سڑکیں سنسان ہیں۔ کبھی کبھی کوئی مشتعل ہجوم نمودار ہوتا ہے۔ نعرے بازی کرتا ہے۔ راہ میں رکاوٹیں کھڑی کرتا ہے۔ آگ لگاتا ہے اور دوبارہ جمع ہونے کے لیے منتشر ہوجاتا ہے۔ پولیس پہلے غائب ہوتی ہے۔ جب کچھ ہوجاتا ہے (یا سب کچھ ہوجاتا ہے) تو وہ ڈی آئی جی کی قیادت میں نمودار ہوجاتی ہے۔ آگ بجھاتی ہے۔ رُکاوٹیں ہٹاتی ہے۔ سڑکیں ٹریفک کے لیے کھول دینے کا اعلان کرتی ہے۔ اور واپس چلی جاتی ہے۔ واپس نہ جائے تو کیا کرے؟ عوام اُس کی جان کے دُشمن ہوگئے ہیں۔ چند روز پہلے اِسی مسلح پولیس نے چند نہتے عوام کی جان لے لی تھی۔ صوبائی وزیرِ داخلہ کا کہنا ہے کہ: ’’پولیس کو اپنے دفاع کا حق حاصل ہے‘‘۔ یہ نہیں بتاتے کہ: ’’نہتے عوام کو بھی دفاع کا حق ہے یا نہیں؟ اور اگر ہے تو اُن کا دفاع کرنا کس کا فرض ہے‘‘۔
اِس صورتِ حال کو افراتفری کہیے۔ انارکی کہیے۔ طوائف الملوکی کہیے۔ ہنگامہ آرائی کہیے۔ شرپسندی کہیے۔ بدامنی کہیے۔ بغاوت کہیے یا آغازِ انقلاب۔ بہت سے لوگ اِس انقلاب کے خواب دیکھ رہے تھے۔ پیش گوئیاں کر رہے تھے۔ آگاہ کر رہے تھے۔ باخبر کررہے تھے۔ ڈرا رہے تھے۔ (اور آرزو کررہے تھے) کہ یہی حال رہا تو خوں ریز انقلاب آئے گا۔ اب وہ اِس ’’اندیشۂ تمنائی‘‘ کا اظہار کررہے تھے کہ کہیں ایسا نہ ہو کہ یہ وبا پھیلتے پھیلتے پورے ملک میں پھیل جائے۔ پھیل گئی تو سب کچھ تہس نہس کرکے رکھ دے گی۔ نقصان تو ہوگا۔ مگر موجودہ نقصان دہندگان سے کسی طرح جان تو چھوٹے گی۔ یوں ۔۔۔ یہ غم جو اِس رات نے دیا ہے۔۔۔ یہ غم خوشی کا یقیں بنے گا۔ یہ شب سحر کی امیں بنے گی!
خان صاحب کا کہنا ہے: ’’کوئی امیں ومیں نہیں بنے گا۔ کوئی یقیں وَقیں نہیں بنے گا۔ کوئی خوشی وُوشی نہیں ملے گی۔ کوئی سحر وَحر نہیں آئے گی۔ نئی نسل جو مناظر ٹیلی وژن کے روشن پردے پر دیکھ رہی ہے‘ ایسے تاریک مناظر ہم نے اپنی روشن اور گنہگار آنکھوں سے کئی کئی بار دیکھے ہیں۔ بار بار دیکھے ہیں۔ (جو کچھ دِکھائے چرخ سو نا چار دیکھنا)۔ سو اب ایک بار پھر ہماری قوم کو ’شام وسحر اور شبِ سیاہ وروزِ روشن‘ کے چکر میں الجھا کر استعماری طاغوت کے مقاصد کی تکمیل کی کوشش کی جارہی ہے۔ یعنی: پھر وہی رات کا سفر‘ پھر وہی خواب کے دیے‘‘۔
ہم نے خان صاحب کی طرف دیکھ کر سخت حیرت بھرے لہجہ میں کہا: ’’اچھا!!‘‘
خان صاحب سمجھتے ہیں کہ ہمارا یہ طریقۂ اظہار شدید اختلافِ رائے کی ایک مؤدبانہ (بلکہ ڈرپوکانہ) صورت ہے۔ کہنے لگے:
’’اے خوابوں کے شہزادے! تجھے تو ایک انقلاب کا خواب دکھایا جارہا ہے۔ مگر یہ لوگ ۔۔۔ خواب میں جو کچھ دیکھ رہے ہیں سب کو دِکھانا مشکل ہے ۔۔۔ میں کوشش کرتا ہوں کہ ان میں سے چند مناظر کی جھلک دِکھاہی دوں۔ پس اے خوابوں کے شہزادے! اپنی آنکھیں موند لے اور۔۔۔ آنے والے دور کی دھندلی سی اِک تصویر دیکھ!‘‘
ہم نے تو نہیں مگر خود خان معاذ اللہ خان ہی نے اپنی آنکھیں موند لیں۔ پھر کسی عاملِ تنویم (Hypnotist) کی طرح کہنا شروع کیا: ’’ہنگامے بڑھ گئے ہیں۔ تعلیمی اِدارے بند۔ بازار بند۔ سڑکیں بند۔ بسیں بند۔ ٹیکسیاں چلتی ہیں تو گولی بھی چل جاتی ہے۔ لوگ ضروری سے ضروری موقع پر بھی ذاتی گاڑیاں گھر سے نکالتے ہوئے ڈرنے لگے ہیں۔ جہاں ایمبولینس محفوظ نہ ہو۔ وہاں ذاتی عذر کون سنے گا۔ ریل کی پٹریاں اُکھاڑ دی گئی ہیں۔ ٹرینیں بند۔ مسافر تو مسافر عملہ تک ہوائی اڈے پر نہیں پہنچ پاتا۔ پروازیں بند۔ ہر چلتی چیز رُک گئی ہے۔ خواہ وہ کارخانوں کی مشینیں ہوں یا معیشت کا پہیہ۔ چلنے والی سب چیزیں ساکت ہیں۔ حکومت چلے تو کیسے چلے؟
حملے شروع ہوگئے ہیں۔ تھانوں پر حملے۔ جیلوں پر حملے۔ حکومتی وزیروں اور سیاسی رہنماؤں کے گھروں پر حملے۔ پٹرول پمپوں‘ بینکوں اور اہم سرکاری عمارات پر حملے۔ ایک ہجوم نے دُکان کا تالا توڑ کر جتنا سامان لوٹا جاسکتا تھا لوٹ لیا ہے۔ باقی کو آگ لگا دی۔ اب حالات پولیس کے بس سے باہر ہوگئے ہیں۔
نیم فوجی دستے تعینات کردیے گئے۔ اُنہیں بھی کوئی خاطر میں نہیں لاتا۔ فائرنگ ہوتی ہے۔ لاشیں گرتی ہیں۔ ہر جلوسِ جنازہ ایک مشتعل احتجاجی جلوس میں بدل جاتا ہے۔ شرپسند اور تخریب کار اِس میں شامل ہوجاتے ہیں۔ فائرنگ ہوتی ہے۔ لاشیں گرتی ہیں‘ مزید دس پندرہ عدد جلوسِ جنازہ کا بندوبست ہوجاتا ہے۔ جلوسوں میں ہونے والے دھماکے بھی بڑھ گئے ہیں۔ لوگ کہتے ہیں کہ یہ دھماکے حکومت خود کروا رہی ہے۔ ماضی سے مثال دی جاتی ہے۔ حکومت نے امن و امان کے قیام کی ذمے داری فوج کے حوالے کردی۔
اب مظاہرین اور فوج میں تصادُم شروع ہوگیا۔ فوج نے فائرنگ کی۔ سیکڑوں کی تعداد میں لوگ مارے گئے۔ نتیجہ یہ کہ لاکھوں کی تعداد میں لوگ باہر نکل آئے۔ یہ لوگ مطالبہ کر رہے ہیں کہ فوج اہلِ وطن کو قتل کرنے کے بجائے وطن کی سرحدوں کادفاع کرے۔ جن بے قصور لوگوں کو حسّاس اِداروں نے اُن کی خواب گاہوں سے اُٹھا کر غائب کر دیا ہے اُن کو رہا کیا جائے۔ قوم کے قاتلوں کو پھانسی دی جائے۔ روز ایک نیا مطالبہ سننے کو ملتا ہے۔ مسلح گروہوں نے موقع سے فائدہ اُٹھانا شروع کردیا ہے۔ فوج اور فوجی ٹھکانوں پر بھی حملے ہونے لگے۔
ذرائع اِبلاغ کے ذمے داروں کا ایک اجلاس ہوا۔ ٹیلی وژن چینلوں نے سنسنی خیزی ختم کرنے پر اتفاق کر لیا۔ تخریب کاروں اور شر پسندوں کے خلاف خبریں‘ تقریریں اور پیغامات کا سلسلہ شروع کردیا گیا۔ کچھ چینلوں پر حملے ہوئے۔ پھر حملوں کا فیشن ہوگیا۔ ایک چینل پر مظاہرین نے قبضہ کرلیا۔ یرغمالی عملہ کی مدد سے خود ساختہ لیڈروں نے اپنے اپنے خطابات نشر کروائے۔ اب چینل بند ہونا شروع ہو گئے۔
سفارت خانے بھی ایک ایک کرکے بند ہونے لگے ہیں۔ سفارت کار کسی نہ کسی طرح ہمسایہ ملک فرار ہوجاتے ہیں۔ وہاں سے اپنے گھر کی راہ لیتے ہیں۔ ایک مشتعل ہجوم نے ایک ’’دوست ملک‘‘ کے سفیر کو بھاگتے ہوئے پکڑ لیا۔ اُسے ’’پاکستان کا دُشمن نمبر ایک‘‘ قرار دیا اور سرِعام پھانسی دے ڈالی۔ مقبوضہ ٹیلی وژن چینلوں پر اُس کی لاش کی نمائش لگی ہوئی ہے۔ عوامی تاثرات نشر کیے جارہے ہیں۔
تازہ خبر ملی ہے کہ ملک کی ایک اہم ترین شخصیت ایک خصوصی طیارے میں بیٹھ کر ملک سے فرار ہوگئی۔ قریبی دوست ساتھ تھے۔ اِس فرار سے لوگوں کا غم وغصہ اور اشتعال بڑھ گیا ہے۔ پورا ملک سڑکوں پر نکل آیا۔ وہ جو ایک ’’نام نہاد سی حکومت‘‘ باقی رہ گئی تھی‘ اِس خبر کے ساتھ ہی اُس کا خاتمہ بالخیر ہوگیا۔
اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل کا ہنگامی اجلاس ہوا۔ امن فوج بھیجنے کا فیصلہ کرلیا گیا۔ امن کے لیے بھیجی جانے والی صلیبی فوج کے اندر تو خیر یہودی بھی ہیں‘ نصرانی بھی۔ مگر باہر سے بھارتی فوج بھی ’’امن فوج‘‘ کا حصہ بنالی گئی ہے۔ لوگ حیران ہیں۔ کیا یہود وہنود اہلِ ایمان میں امن قائم کریں گے؟ جن دو ایک مُسلم ممالک کے پاس فوج کے نام پر چند باوردی اہل کار موجود ہیں‘ اُن کو بھی ’’امن فوج‘‘ میں برائے نام نمائندگی دے دی گئی ہے۔ ’’امن منصوبے‘‘ کا اعلان کردیا گیا ہے اور ۔۔۔‘‘
’’خدا کے واسطے کر قصہ مختصر ناصح۔۔۔‘‘ ہم چیخ پڑے اور خان صاحب سے پوچھا: ’’اِس صورتِ حال سے بچنے کا طریقہ کیا ہے؟‘‘
’’تمام استعماری طاغوتی طاقتوں سے ناتا توڑ کر رُجُوع اِلَی اللہ‘‘۔
’’طریقہ ۔۔۔ طریقہ ۔۔۔ طریقہ ۔۔۔ کیا ہے؟‘‘ ہم نے پھر چیخ کر پوچھا۔ بولے:
’’طریقہ یہ ہے کہ صرف عوام ہی کو نہیں ۔۔۔ خواص کو‘ دانشوروں کو‘ اینکروں کو‘ ذرائع اِبلاغ کے سٹھیائے ہوئے سیٹھوں کو‘ سیاسی اور قومی رہنماؤں کو‘ حتیٰ کہ حکمرانوں کو بھی اُن کی سطح پر پہنچ کر رُجُوع اِلَی اللہ کی دعوت دی جائے۔ میاں! اُن تک یہ دعوت اپنی حقیقی دعوتی روح کے ساتھ ابھی پہنچی ہی کہاں ہے؟۔