نوجوان کی شہادتیں اور ہمارے وزیراعظم

188

غزالہ عزیز

پاکستان کے وزیراعظم شاہد خاقان عباسی مزید محض دو ماہ کے وزیراعظم ہیں۔ لیکن جس طرح وہ دورے کرتے پھر رہے ہیں لگتا ہے کہ وہ کچھ خاص کر ڈالنا چاہتے ہیں۔ افغانستان کا ایک دن کا دورہ انہوں نے بڑے جوش و جذبے سے کیا، اُسی ایک دن میں انہوں نے افغان صدر اور گلبدین حکمت یار سمیت افغان حکومت کے اہم رہنماؤں سے الگ الگ ملاقاتیں کیں۔ وزیراعظم کے افغانستان جانے پر کچھ لوگوں کو اُمید تھی کہ وزیراعظم چند روز قبل قندوز میں معصوم حفاظ کی شہادت پر بھی کچھ کہیں گے تو یہ اُمید بر نہ آئی۔ ٹھیک ہے کہ حملے میں دو سو کے قریب حفاظ کرام اور عام شہری شہید ہوئے۔ لیکن ظاہر ہے کہ یہ افغانستان کا اندرونی معاملہ تھا۔ سوال تو یہ بھی کچھ لوگ اٹھا سکتے ہیں کہ یہ میزائل افغان فورسز نے برسائے تھے لہٰذا شہادت ثابت ہوئی ہے یا نہیں؟؟؟ آخر پاکستان میں بھی تو یہ سوال اٹھایا جاتا رہا ہے؟؟۔ لیکن جب اشرف غنی کہتے ہیں کہ ’’ہمیں جنگ جیتنی نہیں ہے بلکہ اسے ختم کرنا ہے اور پاکستان ہماری مدد کرے‘‘ تو پھر یوں افغان فوج کا اپنے ہی شہریوں پر حملہ جنگ ختم کرنے کا عندیہ تو نہیں۔۔۔ یہ تو مزید جنگ کی آگ بھڑکانے کا ذریعہ ہے۔
یہ کہنا کہ حملہ افغان فورسز نے کیا وہی کہانی ہے جو پاکستان میں بار بار دہرائی گئی۔ امریکی حملے کے بعد پاکستانی حکومت معاملے کی خرابی کا ہار اپنے گلے میں پہن لیتی تھی یا زبردستی پہنایا جاتا تھا۔ دراصل یہ سارا معاملہ کم ہمتی اور بزدلی کا ہے۔ مسلم حکمران بزدلی اور کم ہمتی کا لبادہ اوڑھے کبوتر کی طرح آنکھیں بند کرنے میں اپنی عافیت جانتے ہیں۔ حالاں کہ مثالیں کم نہیں کہ جب نشان عبرت بنادیا جاتا ہے۔ کبھی کوئی صدام، کبھی کوئی قذافی، زیادہ پیچھے جائیں تو یاسر عرفات، ایرانی بادشاہ رضا شاہ پہلوی جن کا نام بھی اب کوئی نہیں لیتا۔ لہٰذا یہ جاننا انتہائی ضروری ہے کہ آپ تاریخ میں کس نام اور حیثیت سے زندہ رہنا چاہتے ہیں۔ حفاظ بچے اپنی دستار فضیلت کے ساتھ مزید ایک شہادت کا سہرا سجائے ربّ کے حضور حاضر ہوئے اس سے قبل جنرل پرویز مشرف کے دور میں باجوڑ میں بھی ایسے ہی امریکی ڈرون حملے میں 80 حفاظ شہید ہوئے تھے۔ بہانہ بھی آج کی طرح وہی تھا کہ اتنے لوگوں کی سرگرمی اور ایک ساتھ موجودگی نے انہیں اس شک و شبہ میں ڈال دیا کہ نہ جانے اتنے جنگجو طالبان ایک جگہ جمع ہو کر کیا منصوبے بنارہے ہیں؟؟۔
اگرچہ بعد میں ریڈیو فری یورپ اور ریڈیو لبرٹی کی رپورٹ کے مطابق قندوز کے اس اجتماع میں طالبان کا کوئی رکن موجود نہیں تھا اور اس محفل میں قرآن کو حفظ کرنے پر نوجوان لڑکوں کو دستار فضیلت دی جارہی تھی۔ لیکن جو کام کرنا تھا مسلمان نوجوان حفاظ کو شہید کرنے کا وہ تو کردیا گیا۔ اس افسوسناک کارروائی کا ایک مقصد پاکستان اور افغانستان کے درمیان اختلافات پیدا کرنا تھا۔ ساتھ ہی طالبان اور افغان حکومت کو بھی مذاکرات کی میز سے دور رکھنا ہے تا کہ خطے میں معاملات ویسے ہی چلتے رہیں جیسے امریکا چلا رہا ہے۔ 2 ماہ قبل طالبان نے امریکی عوام اور کانگریس کے نام ایک کھلا خط لکھا تھا۔ یہ خط پشتو اور انگریزی دونوں زبانوں میں لکھا گیا تھا اس خط میں امریکی عوام اور کانگریس کے ’’امن پسند‘‘ ارکان کو مخاطب کرکے کہا گیا تھا کہ وہ اپنی حکومت پر زور ڈالیں کہ وہ پُرامن ذرائع سے افغانستان کے مسئلے کا حل نکالنے کی کوشش کریں۔ خط میں پہلا مطالبہ طالبان کا دیرینہ مطالبہ تھا کہ امریکی فوج افغانستان سے نکل جائے۔
خط میں طالبان نے لکھا تھا کہ ’’امریکا کی ہٹ دھرمی ، جنگ کو جاری رکھنے اور کابل میں ایک کرپٹ اور غیر موثر حکومت کی پشت پناہی جاری رکھنے سے پورے خطے اور خود امریکا کے اپنے استحکام کے لیے انتہائی مضر اثرات مرتب ہوں گے۔ یہ بات سچ ہے اور امریکا سمیت کوئی اس کو جھٹلا نہیں سکتا کہ اس 17 سالہ افغانستان کی جنگ نے امریکا کو ہر لحاظ سے نقصان پہنچایا ہے۔ طالبان نے اپنی حکومت میں افغانستان میں منشیات کی پیداوار پر قابو پالیا تھا۔ لیکن ان 17 برسوں کے دوران امریکی فوجی قبضے میں افغانستان میں منشیات کی پیداوار میں 87 فی صد اضافہ ہوا ہے۔ امریکی فوج کو جانی نقصان جو ہوا سو ہوا، امریکی فوج کی قلعی کھل گئی ہے۔ دسیوں ہزار معصوم اور بے گناہ افغانوں کا قتل ہوا اور دسیوں ہزار معذور ہوئے۔ پھر اس خط میں امریکی عوام کو مخاطب کرکے طالبان نے کہا کہ آپ کے اربوں ڈالر کے ٹیکس ضائع ہوئے ہیں بلکہ انہیں آپ سے نفرت اُبھارنے کے لیے استعمال کیا گیا اور دوسری طرف طالبان ایک قوت بن کر اُبھرے ہیں۔ طالبان نے خط میں یہ اشارہ بھی دیا ہے کہ امریکا افغانستان میں تنہا رہ گیا ہے اور اُس کے اپنے اتحادی بھی اُس کا ساتھ چھوڑ گئے ہیں جب کہ خود اپنے بارے میں ان کا کہنا تھا کہ اب انہیں بعض بیرونی طاقتوں اور ہمسایہ ملکوں سے حمایت حاصل ہو رہی ہے۔ یہ بات خود امریکا نے کچھ دن پہلے روس کے بارے میں کہی تھی کہ وہ طالبان کی مدد کررہا ہے۔ اس خط میں طالبان نے اسرائیل میں امریکی سفارت خانے کو یروشلم منتقل کرنے کے فیصلے کا ذکر کرتے ہوئے یہ بات کہی کہ امریکی حکومت کے غلط فیصلوں کی وجہ سے امریکا بین الاقوامی سطح پر تنہائی کا شکار ہوتا جارہا ہے۔
خط کے آخر میں کہا گیا کہ مذاکرات کا راستہ ابھی بند نہیں ہوا لیکن ساتھ ہی یہ مطالبہ بھی دہرایا گیا کہ امریکا اپنا قبضہ ختم کرے اور افغان عوام کی اُمنگوں کے مطابق اُن کے افغانستان پر حکومت کرنے کے جائز حق کو تسلیم کرے۔ امریکی عوام اور کانگریس کے ارکان کے نام خط اُن کے لیے غور فکر کے مواقع فراہم کرتا ہے کہ انہیں افغانستان میں ویت نام اور کمبوڈیا کی طرح کے انجام سے بچنا ہے یا نہیں؟؟؟۔
ان حالات میں پاکستان کے 2 ماہ کے وزیراعظم کا افغانستان کا دورہ مثبت ہے۔ دورے کے بعد جاری ہونے والے اعلامیہ میں ایکشن پلان کے تحت پانچ ورکنگ فعال کرنے پر اتفاق کیا گیا۔ ریل، روڈ، گیس اور توانائی کے منصوبوں پر عمل درآمد کا جائزہ لیا گیا۔ چمن قندھار ریلوے لائن، پشاور کابل موٹر وے پر اتفاق کیا گیا۔ یہ معاملات ایسے چلتے گئے تو دونوں ممالک ایک دوسرے کے قریب آئیں گے البتہ امریکا نے اگر کوئی شرارت کی یا افغان حکومت کو بہکایا تو پھر واپس اُسی نکتہ پر پہنچتے دیر نہیں لگے گی؟ سوال یہ بھی اہم ہے کہ مسلم حکمران آخر بہکاوے میں آتے کیوں ہیں؟؟۔