سنا ہے یہ قدسیوں سے میں نے۔۔۔ 

577

اقبال نے کہا تھا ؂
خیاباں میں ہے منتظر لالہ کب سے
قبا چاہیے اس کو خون عرب سے
اقبال کے کلام میں لالہ بالعموم قدیم تمدن سے جڑے ہوئے عربوں کی علامت ہے لیکن یہاں اس شعر میں لالہ سے مراد میرے آقا محمد مصطفیؐ کا دین ہے۔ وہ دین جس نے عربوں کو بے پناہ عظمت عطا کی مگر وہ بتدریج اس سے بیگانہ ہوگئے اور اس قدر مفلس کہ آج افلاس بھی ان پر نوحہ خواں ہے۔ عرب ہی کیا تمام مسلم ممالک، افلاس کے پیکر، نوحہ خواں، گریہ وزار اور مغرب کے عاشق۔ وہ مغرب جس کا ایک ہی مقصد ہے، اسلام کا خاتمہ۔ مغرب کیا چاہتا ہے۔ مسلم علاقوں پر مشتمل ایسے ممالک جن کی بنیاد نہ ہو۔ عملی طور پر مغرب اپنی مہم میں کامیاب ہوچکا ہے۔ تمام اسلامی ممالک میں اسلام کو حکومت سے بے دخل کردیا گیا ہے۔ اس وقت مسئلہ یہ نہیں ہے کہ اسلامی ممالک کی تعداد کتنی ہے یا مسلمان دنیا بھر میں کتنی عظیم تعداد میں ہیں۔ ضرورت ایک ایسی اسلامی ریاست کے قیام کی ہے جو اسلامی طرز زندگی کو دوبارہ رائج کرے، جس کی بنیاد اسلامی عقیدہ ہو، جو اسلام کو مکمل نافذ کرے۔
اسلام کی اصلی فکر اور مفہوم دونوں آج مسلمانوں سے اوجھل ہیں۔ وہ طریقہ بھی اوجھل ہے جس سے اسلام کے افکار نافذ ہوتے ہیں۔ اللہ کی آخری کتاب بھی اوجھل ہے اور میرے آقا ختم المرسلین ؐ کی سنت کا فہم بھی۔ اسلام مسلمانوں کے نزدیک محض ایک روحانی مذہب ہے۔ آج مسلمان اسلام کا دیگر مذاہب سے موازنہ بحیثیت ایک روحانی مذہب کے کرتے ہیں۔ اسلام ایک جامع عقیدہ اور زندگی کے معاملات کا مکمل نظام رکھتا ہے خود مسلمانوں کو آج یہ سمجھانا مشکل ہے۔ ان بوسیدہ جمہوری حکومتوں کے مقابل آج مسلمانوں کے لیے یہ مشکل ہوچکا ہے وہ اس اسلامی حکومت کا تصور بھی ذہن میں لائیں جو صدیوں تک دنیا پر غالب اور اثر انداز تھی۔ وہ حکمرانی کا تصور اس جمہوری نظام کو پیمانہ بناتے ہوئے کرتے ہیں جو ان پر مسلط کردیا گیا ہے۔ عام مسلمان بے بس اور دم بخود ہے۔ ان کے حکمران ان قاتلوں سے ہاتھ ملاچکے ہیں جن کے خنجر مسلمانوں کے خون سے آلودہ اور ہاتھ مسلمانوں کے خون سے رنگے ہوئے ہیں۔ ایک طرف مغرب مسلمانوں پر حملہ آور ہے تو دوسری طرف مسلمانوں کے حکمران ان سے بغل گیر ہیں۔ اسرائیل ایک ایسا بھیڑیا ہے جو بے دردی سے مسلمانوں کو نوچ رہا ہے کھا رہا ہے۔ جس کے مقابل مسلمان اپنے حواس کھوچکے ہیں لیکن مسلم حکمران ہیں کہ اس پر فریفتہ۔ ان محرکات کی تلاش میں جو اسرائیل کو تسلیم کرنے کا باعث بن سکیں۔ سعودی عرب کے ولی عہد شہزادہ محمد بن سلمان فرماتے ہیں ’’اسرائیل کو اپنی سرزمین کا حق ہے۔ اسرائیل اور سعودی عرب کے درمیان بہت سے مفادات مشترک ہیں۔ اگر امن قائم ہوجائے تو اسرائیل اور خلیج تعاون کونسل کے رکن ملکوں کے درمیان روابط بڑھ سکتے ہیں۔ سعودی عرب اور اسرائیل کے درمیان فی الحال کوئی سفارتی تعلقات نہیں تاہم گزشتہ چند سال میں دونوں ممالک کے درمیان تعلقات میں بہتری آئی ہے۔‘‘ خیال رہے گزشتہ چند سال میں اسرائیل اور یہودیوں نے اہل فلسطین اور مسلمانوں پر دنیا بھر میں بدترین ظلم اور درندگی کی ہے۔ مسلمانوں کا بے دردی سے قتل عام کیا ہے۔ دنیا بھر کے مسلمانوں کا قائد ہونے کی حیثیت سے وہ مقام جو آل سعود کو حاصل ہے ان کا فرض تھا کہ وہ اسرائیل کے خلاف اقدامات کرتے، جوابی کارروائیاں کرتے لیکن اس کے برعکس اسرائیل سے تعلقات بڑھائے جارہے ہیں اور اس پر اطمینان کا اظہار کیا جارہا ہے۔ اسرائیل کو تسلیم کرنے والا پہلا مسلم ملک ترکی ہے۔ طیب اردوان کے دور میں ترکی اور اسرائیل کے تعلقات گہرے اور مضبوط ہوئے ہیں۔ ترکی کے صدر رجب طیب اردوان نے ایک بیان میں فرمایا تھا ’’ان کے ملک کو اسرائیل کی ضرورت ہے اور اسرائیل ترکی کے ساتھ اچھے تعلقات چاہتا ہے۔‘‘ ان کے اس بیان سے قبل صہیونی حکام نے بھی اعلان کیا تھا کہ ترکی اور اسرائیل کے حکام نے سوئزر لینڈ میں اپنے خفیہ مذاکرات میں تعلقات کو بہتر بنائے جانے سے اتفاق کیا ہے۔ اقوام متحدہ کی ایک میٹنگ میں عالمی دہشت گردی کے خلاف جنگ میں اسرائیل کو صدر منتخب کیا گیا تو ترکی نے اس کے حق میں ووٹ دیا۔ ترکی نے اپنا ایک ہوائی اڈہ امریکا کو بلا معاوضہ فراہم کررکھا ہے جہاں سے افغانستان کے مسلمانوں عورتوں اور بچوں پر 50ہزار سے زاید بم گرائے جاچکے ہیں۔ اسے سفارت کاری کا نام دیا جاسکتا ہے۔ سفارت کاری کے یہ اصول مغرب اور اقوام متحدہ کے ہیں۔ چوں کہ بات عالم اسلام کی دوسر کردہ شخصیات کی ہورہی ہے تو عرض یہ ہے کہ اسلام کسی بھی ایسی ریاست کے ساتھ تعلقات قائم کرنے کی اجازت نہیں دیتا جو کھلے عام اسلام دشمنی کرے اور مسلمانوں کے قتل میں ملوث ہو۔
اسرائیل کے سابق وزیر اعظم ایریل شیرون نے کہا تھا کہ وہ اسرائیلی حکومت کو اردن شام عراق لبنان اور مصر تک تصور کرتے ہیں۔ اسرائیل اس مقصد میں کامیاب ہوچکا ہے۔ اردن ایک ایسا کمزور ملک ہے جس کی زندگی کی ڈور مغرب کی خیرات سے بندھی ہے۔ شاہ عبداللہ امریکا اور اسرائیل کے لیے ایک بے وقعت مہرے سے زیادہ کچھ نہیں۔ عراق، لبنان اور مصر میں امریکا کے ایجنٹ حکمران ہیں۔ جہاں تک شام کا تعلق ہے تو اسرائیل اور اسد خاندان ایک دوسرے کے محافظ اور مددگار ہیں۔ اس وقت جب کہ مصر کے صدر ناصر سمیت تمام عرب ملک یہ سمجھتے تھے کہ ابھی انہیں کم ازکم تین برس چاہئیں۔ اس کے بعد ہی وہ اس قابل ہوسکیں گے کہ اسرائیل سے جنگ کرسکیں۔ اسرائیل عرب ممالک کی اس کمزوری سے آگاہ تھا اور وہ فوری جنگ کرنا چاہتا تھا۔ اس موقع پر حافظ الاسد اسرائیل کے کام آیا اور اس نے عرب لیگ سے پوچھے بغیر 20مئی 1967 کو اسرائیل سے جنگ کا اعلان کردیا۔ اس اعلان جنگ کے کچھ دن بعد ہی اسرائیل نے مصر پر حملہ کردیا جس کے لیے مصر قطعاً تیار نہیں تھا۔ 5جون 1967 کو اسرائیل نے مصر کے ائر بیس کو مکمل تباہ کردیا۔ مصر کے 420 طیارے حسرت پرواز لیے تباہ ہوگئے۔ اردن بھی اس جنگ کے لیے تیار نہیں تھا۔ اسرائیل نے اس کے بیش تر حصے پر قبضہ کرلیا۔ شام کے اعلان جنگ کی خاص بات یہ تھی کہ پورے 24گھنٹے تک شام نے اسرائیل کی طرف ایک پٹاخہ بھی فائر نہیں کیا۔ چوبیس گھنٹے بعد حملہ بھی کیا تو یہودیوں کی خالی بستیوں پر۔ اسرائیل نے پانچ دن بعد گولان پر حملہ کیا تو وہاں اس کی مزاحمت کے لیے کوئی موجود نہیں تھا۔ ان خدمات کے صلے میں حافظ الاسد شام کے وزیردفاع سے ترقی کرکے صدر بنادیا گیا اور آج اس کا بیٹا بشار الاسد شام کا حکمران ہے جس کی مددکے لیے اسرائیل، امریکا، روس، برطانیہ، فرانس، سب موجود ہیں۔ شام پر امریکا کے حالیہ میزائل حملوں کا کسی کو فائدہ ہوا ہے تو بشارالاسد کو۔ حملوں کے بعد بشار کی ایک ویڈیو سامنے آئی ہے جس میں وہ چاق چوبند بریف کیس ہاتھ میں لیے دفتر جاتے نظر آرہا ہے۔ ظاہر ہے حملہ اس پر تو ہوا نہیں ہے حملہ ہوا ہے خون عرب پر۔ معرکہ آرا اور مغرب کے حملوں کا ہدف خون عرب ہے، خون مسلم ہے۔ مسلمان حکمران تو مسلمانوں کے قاتلوں سے کاندھے سے کاندھا ملائے کھڑے ہیں۔ آج مسلمانوں پر اسلام بالادست نہیں ہے۔ ان کے ممالک دارالکفر بن چکے ہیں۔ اسلامی طرز زندگی اور اسلامی حکومت کے احیا میں پہاڑوں سے بھی بلند مشکلات حائل ہیں۔ ایک ایسی ریاست جس کی بنیاد اسلامی عقیدے پر ہو، جس کے افکار اسلام پر مبنی ہوں، جس کے قوانین اسلامی ہوں، جس کا نظام اسلامی ہو اس مقصد کے لیے تحریکات دنیا بھر میں بپا ہیں جن کی سوچ پھیل رہی ہے جلد یابدیر کامیابی جن کا مقدر ہے۔
سنا دیا گوش منتظر کو حجاز کی خامشی نے آخر
جو عہد صحرائیوں سے باندھا گیا تھا پھر استوار ہوگا
نکل کے صحرا سے جس نے روما کی سلطنت کو الٹ دیا تھا
سنا ہے یہ قدسیوں سے میں نے وہ شیر پھر ہوشیار ہوگا