مہنگے ترین سندھ گیمز۔۔۔ اصلاح کی ضرورت 

254

کہا جاتا ہے کہ کھیل کود صحت کے لیے بڑی اہمیت کے حامل ہوتے ہیں۔ اور جب نوجوان اس میں دلچسپی لیں تو قوم کو مستقبل میں اچھے کھلاڑی اور صحتمند نسل ملتی ہے لیکن پاکستان میں ہر شعبے کی طرح کھیل کا شعبہ بھی بد عنوانی اور لوٹ مار کی لپیٹ میں آیا ہوا ہے۔ گزشتہ دنوں 17 ویں سندھ گیمز کراچی میں منعقد ہوئے۔ یہ گیمز نیشنل اسپورٹس اینڈ کوچنگ سینٹر بالمقابل نیشنل کرکٹ اسٹیڈیم میں ہوئے حال ہی میں پی ایس ایل فائنل اور ویسٹ انڈیز کی ٹیموں کے میچز کے تناظر میں ایسا لگ رہا تھا کہ سیکورٹی کا کوئی انتظام ہی نہیں۔ بین الاقوامی میچ کے لیے دو کروڑ لوگوں کو پابند کردیا گیا اور اپنے کھلاڑیوں کے تحفظ کی کوئی فکر ہی نہیں۔ تحفظ توثانوی بات ہے جس مقصد کے لیے سب کو جمع کیاگیا تھا ا کے لیے کوئی سہولیات نہیں تھیں۔ شدید گرمی میں کھلاڑیوں کے لیے پانی تک نہیں تھا۔ ٹریک سوٹ نہیں ملے، کسی کو جوتے نہیں ملے، جمپنگ اینڈ لینڈنگ کے لیے نہایت خراب اور پرانے گدے رکھے گئے جس سے کھلاڑی زخمی بھی ہوئے۔ گیمز کے تینوں روز بجلی نہ ہونے کے سبب ٹارچ کی روشنی میں مقابلے ہوئے اور میڈلز دیے گئے۔کھلاڑیوں کی زندگی کے نہایت تاریخی مواقع کی تصویر بھی نہیں بن سکی۔ گیمز کا دوسرا حصہ سندھ اسپورٹس بورڈ ناظم آباد میں ہوا وہاں اس سے بھی زیادہ ناقص انتظامات تھے۔ زیادہ تر یہی شکایت رہی کہ منتظمین تصویریں بنوانے میں مصروف رہے۔ ان گیمز کے بارے میں اطلاع ہے کہ حکومت نے 5 کروڑ روپے جاری کیے تھے اور تقریباً ڈیڑھ کروڑ مختلف اسپانسرز نے دیے تھے لیکن کھیلوں کے لیے سہولتیں تو ڈیڑھ لاکھ کی بھی نظر نہیں آئیں۔ نئے گدے اور ٹریک سوٹ وغیرہ یا پانی کا انتظام ایک دو کروڑ میں کیا جاسکتا تھا۔ باقی رقم بجلی، جنریٹر اور کھلاڑیوں پر خرچ کی جاتی، وزیراعلیٰ سندھ نے بہر حال اس کا نوٹس لیا ہے اور کہا ہے کہ اس بار ہونے والی بد انتظامی اور غلطیوں کا جائزہ لیا جائے گا وہ اگلے گیمز لاڑکانہ میں منعقد کرائیں گے۔ الٰہی خیر!!! لاڑکانہ کو 50 سال میں پیرس نہیں بنایا جاسکا اب سندھ گیمز مزید مہنگے نہ پڑ جائیں۔ حالیہ گیمز اب تک کے مہنگے ترین گیمز تھے۔ کھیلوں کی دنیا سے تعلق رکھنے والوں کو صورتحال بہتر بنانے پر توجہ دینی ہوگی۔ ورنہ اس سے ایک طرف ٹیلنٹ تباہ ہوتا ہے دوسری طرف نوجوانوں میں کھیل سے دلچسپی ختم ہوجاتی ہے جو قومی نقصان ہے۔