لاہور ہائی کورٹ کے مسٹر جسٹس مظاہر علی نقوی کی سربراہی میں عدالت عالیہ کے سہ رکنی فل بنچ نے سابق وزیراعظم نوازشریف اور ان کی صاحب زادی مریم نواز سمیت 16 حکومتی سیاسی رہنماؤں کی عدلیہ مخالف تقاریر نشر کرنے پر عبوری طور پر پابندی عائد کرنے کا حکم جاری کیا‘ جس کی مکمل وضاحت عدالت عظمیٰ نے از خود نوٹس لے کر کردی ہائی کورٹ کے فیصلے کی میڈیا میں رپورٹنگ کے باعث کچھ ابہام پیدا ہوا جسے اگلے روز ہی عدالت نے اپنے ایک حکم کے ذریعے دور کردیا۔ عدالتی کارروائی کی رپورٹنگ بہت ہی حساس معاملہ ہے یہ اس وقت تک درست نہیں ہوسکتی جب تک رپورٹر عدلیہ کے روبرو پیش کی گئی درخواست، اس کے مندرجات اور اس میں کی جانے والی استدعا کے قانونی اور آئینی تقاضوں سے واقف نہ ہو‘ کسی بھی وکیل کی جانب سے عدالت کے روبرو دیے جانے والے دلائل اور اپنے دلائل کے حق میں دی جانے والی گراؤنڈ میں فرق کو سمجھنا بہت ضروری ہے اس کے بغیر عدالتی کارروائی کی رپورٹنگ ایک مشکل امر ہے جس معاملے پر ابہام پیدا ہوا یہ درخواست محمد اظہر صدیق ایڈووکیٹ کی جانب سے دائر کی گئی تھی جس میں موقف اختیار کیا گیا ہے کہ: ’پیمرا عدلیہ مخالف تقاریر نشر ہونے سے روکنے میں ناکام رہا ہے درخواست گزار کے مطابق آئین کی دفعہ 19‘ اور 19۔A کے تحت اظہار رائے کا حق قانون اور ضابطے سے مشروط ہے ہم نے مدعا علیہان کی عدلیہ مخالف تقاریر کے خلاف پیمرا سے رجوع کیا مگر وہاں حکومت کے اپنے لگائے ہوئے لوگ بیٹھے ہیں جو ایسی شکایات پر ’’نو ایکشن‘‘ لکھ دیتے ہیں‘‘ فاضل عدالت نے اس پر نوازشریف‘ مریم نواز‘ وزیراعظم شاہد خاقان عباسی اور وفاقی وزراء اور حکمران مسلم لیگ (ن) کے ارکان احسن اقبال‘ اسحاق ڈار‘ خواجہ سعد رفیق‘ خواجہ محمد آصف‘ مریم اورنگزیب‘ طلال چودھری‘ نہال ہاشمی‘ رانا ثناء اللہ‘ مائزہ حمید‘ آصف کرمانی‘ عابد شیر علی‘ محسن رانجھا اور پرویز رشید کی توہین آمیز تقاریر کی نشریات عبوری طور پر روکنے کا حکم دے دیا اور پیمرا کو ہدایت کی کہ وہ مدعا علیہان کی تقاریر کی سخت مانیٹرنگ کرکے اپنی رپورٹ عدالت میں داخل کرائے‘ اس حکم کو میڈیا میں اس طرح لیا گیا کہ عدالت نے تقریر نشر یا شائع کرنے پر پابندی لگا دی ہے۔
عدالت کے حکم اور رپورٹنگ میں زمین آسمان کا فرق تھا اسی لیے عدالت عظمیٰ نے از خود نوٹس لیا چوں کہ یہ معاملہ شہریوں کے بنیادی حقوق سے متعلق ہے جن کے تحفظ کی آئین کی مختلف دفعات اور شقوں کے تحت ضمانت دی گئی ہے اس لیے عدالت عالیہ کے عبوری حکم کو آزادی اظہار اور شہریوں کے کسی بھی اہم قومی معاملہ کے بارے میں معلومات حاصل کرنے کے حق پر پابندی عائد کرنے سے تعبیر کیا گیا۔ آئین کی دفعہ 19 کے تحت اظہار رائے کے حق اور پریس کی آزادی کو اسلام کی عظمت اور پاکستان یا اس کے کسی حصہ کی سالمیت‘ دفاع‘ غیر ممالک کے ساتھ تعلقات اور تہذیب و اخلاق کے حوالے سے قواعد و ضوابط کے ساتھ مشروط کیا گیا ہے اور اسی طرح توہین عدالت کے زمرے میں آنے والے اظہار رائے اور پریس کی آزادی کے حق کو بھی قواعد و ضوابط کا پابند بنایا گیا ہے۔
آئین کی دفعہ 63۔ جی میں فوج اور عدلیہ کی تضحیک کے مرتکب افراد کو قومی‘ صوبائی اسمبلیوں اور سینیٹ کی رکنیت کے لیے نااہل قرار دیا گیا ہے تاہم اظہار رائے اور پریس کی آزادی کے بنیادی آئینی حق کے تحفظ کی بھی انہی آئینی شقوں میں ضمانت فراہم کی گئی ہے۔ اسی تناظر میں چیف جسٹس میاں ثاقب نثار کی سربراہی میں عدالت عظمیٰ کے خصوصی بنچ نے لاہور ہائی کورٹ کے عبوری حکم کا اپنے ازخود اختیارات کے تحت نوٹس لیا اور ہائی کورٹ سے متعلقہ کیس کا ریکارڈ بھی طلب کیا جب کہ فاضل عدالت نے اس نوٹس کیس میں نوازشریف اور مریم نواز کو بھی اصالتاً یا وکالتاً طلب کیا اور اٹارنی جنرل کے موقف کی بھی سماعت کی اور پھر اس بنیاد پر یہ نوٹس کیس نمٹا دیا کہ پیمرا نے پہلے ہی مدعا علیہان کی تقاریر کے حوالے سے الیکٹرونک میڈیا کو ضروری ہدایات جاری کر رکھی ہیں، ہائی کورٹ نے بھی پیمرا کو اس معاملہ میں 15 دن کے اندر اندر فیصلہ صادر کرنے کی ہدایت کی ہے۔
اب پیمرا کے روبرو مدعا علیہان کی متعلقہ تقاریر کا آئین کی دفعہ 19 کی روشنی میں جائزہ لیا جائے گا کہ آیا ان میں عدلیہ کی توہین کا کوئی ایسا پہلو نکلتا ہے جو اظہار رائے اور پریس کی آزادی کے حق کو متاثر کرتا ہو قومی پریس سے متعلق ایک رائے ہے کہ اپنی آزادی کے آئینی حق کے استعمال کے معاملہ میں اپنی ذمے داریوں سے بخوبی آگاہ ہے‘ بالکل یہ درست بات ہے‘ قومی پریس کو آئین کی دفعہ 204 کا بھی مکمل ادراک ہے جس کے تحت توہین عدالت کے زمرے میں آنے والے معاملات کی وضاحت کرکے توہین عدالت کا جرم قابل سزا قرار دیا گیا ہے یہ بات بھی درست ہے کہ آزادی اظہار یا پریس کی آزادی کے آئینی حق کے استعمال سے روکنا آئین کی دفعہ 13 سے متصادم تصور ہوگا۔ آئین کی دفعہ 27 کے تحت چوں کہ کسی شہری کے ساتھ امتیازی سلوک نہیں کیا جا سکتا اس لیے آئین کی دفعہ 19 کو اظہار رائے کے حق اور پریس کی آزادی سلب کرنے کے لیے بروئے کار لانا متعلقہ شخص یا ادارے کے ساتھ امتیازی کارروائی کے مترادف ہوگا یہ صورت حال جہاں نازک‘ پیچیدہ اور حساس ہے وہیں اس بات کا بھی تقاضا کرتی ہے کہ عدلیہ کے بارے میں کچھ لکھنے یا نشر کرنے سے قبل روشنی اور اندھیرے کا فرق معلوم کرلینا بہتر ہے جہاں کہیں تجاوز ہوگا تو اس پر آئین و قانون کی متعلقہ شقوں کی عمل داری لاگو ہو جائے گی اگر اس سے ہٹ کر کوئی ایسا قدم اٹھایا جائے گا جس سے بادی النظر میں اظہار رائے کا حق اور پریس کی آزادی کی ضمانت فراہم کرنے والی آئین کی دفعہ 19 پر زد پڑتی ہو تو اس سے معاشرے میں اضطراب کی کیفیت پیدا ہونا فطری امر ہوگا، بادی النظر میں عدالتی حکم میں بھی یہی تاثر پیدا ہوا کہ قومی پریس اور میڈیا کو مدعا علیہان کی تقاریر نشر کرنے سے روک دیا گیا ہے جبکہ آئین کے ہوتے ہوئے ایسی کسی قدغن کا تصور بھی نہیں کیا جا سکتا جس کے تحفظ کی خود چیف جسٹس عدالت عظمیٰ میاں ثاقب نثار متعدد مواقع پر ضمانت فراہم کرچکے ہیں اس لیے یہ کیسے تصور کیا جا سکتا ہے کہ کوئی قدم آئین کے تحت دی گئی شہری آزادیوں کے منافی بھی اٹھایا جا سکتا ہے۔
عدلیہ کو بلاشبہ فراہمی انصاف کے ساتھ ساتھ آئین و قانون کی عمل داری کو بھی یقینی بنانا ہے اور شہریوں کے بنیادی آئینی حقوق کا بھی تحفظ کرنا ہے اس لیے اس ریاستی ادارے پر نسبتاً زیادہ ذمے داری عائد ہوتی ہے آئین کی دفعہ 19 کی اس کی روح کے مطابق عمل داری ہونی چاہیے قوم بھی یہی توقع رکھتی ہے کہ آئین کے تقاضوں کے مطابق تمام شہریوں کی مساوی حیثیت ہوگی‘ کسی کے ساتھ امتیازی سلوک نہیں ہوگا قومی پریس و میڈیا آئین کی دفعہ 19 الف کے تحت شہریوں کو قومی معاملات کے حوالے سے بلاترغیب و تخویف معلومات فراہم کرتا رہے گا ہر ایک کو معاشرے کا ذمے دار فرد ہونے کا ثبوت فراہم کرنا ہے۔