تحریک انصاف نے سینیٹ انتخابات میں ووٹ فروشی کے الزام کی زد میں آنے والے بیس ارکان کے نام میڈیا میں ظاہر کرنے کے ساتھ انہیں شوکاز نوٹس جاری کرنے کا فیصلہ کیا ہے۔ پارٹی کے سربراہ عمران خان کی طرف سے یہ بھی کہا گیا کہ اگر ووٹ بیچنے والوں نے تسلی بخش جواب نہ دیا تو ان ارکان کے خلاف کرپشن کے مقدمات نیب کو بھیجیں دیے جائیں گے۔ سینیٹ انتخابات میں ووٹ فروشی ہمارے سیاسی نظام کو لاحق چند پرانے عارضوں میں سے ایک ہے۔ اس بار جب ملک میں احتساب کا غلغلہ بلند تھا تو بھی ارکان نے اپنے ضمیروں کو وقت کے بازار میں سجانے سے گریز نہیں کیا۔ سینیٹ انتخابات سے بہت پہلے بھاؤ تاؤ کی خبریں آنا شروع ہو گئی تھیں اور اسٹاک ایکسچینج کی طرح روزانہ کی بنیاد پر قیمتیں متعین ہو رہی تھیں۔ پردوں کے پیچھے جاری ان سرگرمیوں سے انتخاب کی گرم بازاری کا بخوبی اندازہ لگایا جا سکتا تھا۔ چوں کہ اس طوفان کے آگے بند باندھنے کی کوئی قانونی اور آئینی صورت نہیں تھی اس لیے سیاسی جماعتیں بے بسی کی تصویر بن کر اس ساری صورت حال کو دیکھ رہی تھیں۔ عین ممکن ہے ان کی خاموشی نیم رضامندی ہی کی شکل ہوتی۔
ووٹ فروشی کی قبیح رسم وریت کے خلاف سیاسی جماعتوں اور معاشرے میں ایک ردعمل ضرور موجود رہا ہے مگر یہ ردعمل عملی شکل میں ظاہر ہونے کے بجائے چودھری شجاعت حسین کی مشہور زمانہ اصطلاح ’’مٹی پاؤ‘‘ کی نذر ہوتا رہا۔ اب تحریک انصاف نے بیس ارکان کے خلاف تادیبی کارروائی کا فیصلہ کیا۔ ان بیس ارکان کی فہرست پر نظر ڈالی جائے تو ’’ہر چند کہیں ہے کہ نہیں ہے‘‘ کے مصداق کئی ایک کی سیاسی وابستگی پہلے معما اور مشکوک نظر آتی ہے۔ ان میں کئی نام تحریک انصاف میں ہیں بھی اور نہیں بھی۔ کئی ایک نام دوسری سیاسی جماعتوں سے وابستہ ہیں، کچھ آزاد ہوکر ان کا حصہ بنے ہیں کچھ باغی اور ناراض ہیں۔ گویا کچھ پہلے ہی مستقبل کے ٹکٹ کے حوالے سے سرخ دائرے کی زد میں آچکے ہیں اور کچھ نگاہوں نگاہوں میں کسی نئے آشیاں میں بسیرے کا عندیہ دے چکے ہیں۔ اس لحاظ سے ان بیس ارکان کے نام میڈیا میں جاری کرنا انہیں معاشرے اور سیاسی نظام میں نشان زدہ کرنے کی مترادف ہے۔
ووٹ فروشی کی شکایات تمام جماعتوں کی طرف سے سامنے آئی تھیں مگر دوسری تمام جماعتیں ان شکایات کے باجود غضِ بصر سے کام چلارہی ہیں۔ وہ تحقیقات اور بیان در بیان کے جھنجٹ میں پڑنے سے گریزاں ہیں۔ ہونا یہ چاہیے تھا کہ پہلے ان ارکان کو شوکاز نوٹس جاری کیے جاتے اور ان کا موقف سنا جاتا اس کے بعد نام مشتہر کرنے کا مرحلہ آتا۔ مگر تحریک انصاف چوں کہ پارلیمانی سیاست میں نئی ہے اور اس کی اعلیٰ قیادت کو پوری طرح پارلیمانی سیاست کے اسرار وموز سے آشنائی نہیں اس لیے حکمت اور تدبیر کی غلطی کا امکان موجود رہے گا۔ اس لیے تادیبی کارروائی کی ترتیب اُلٹی ہو کر رہ گئی۔ پہلے نام مشتہر ہوئے پھر شوکاز نوٹسز جاری ہوں گے۔ اب شوکاز نوٹس کے جواب میں اپنی صفائی میں لکھنے اور کہنے کو ان ارکان کے پاس باقی کیا رہ گیا ہے؟۔ اگر کوئی زندہ و بیدار سیاسی معاشرہ ہوتا تو ان ارکان کی سیاسی موت اس فہرست کے مشتہر ہوتے ہی واقع ہوجاتی مگر ہمارے ہاں کچھ ہی وقت گزرنے کے بعد ناخوب بھی خوب بن جاتا ہے۔ تحریک انصاف نے ووٹ فروشی کی شکایات کرنے والی جماعتوں پر اس لیے برتری حاصل کی کہ اس مسئلے پر آنکھیں بند کرنے کے بجائے اسے سماج کا ایک مسئلہ بنانے کی کوشش کی ہے۔ اس سے سیاست میں مروج ایک غلط روایت کو غلط سمجھنے کی ابتدا ہو سکتی ہے۔
ایک زمانہ تھا جب پنجاب کے سابق آئی جی راؤ رشید نے جو بعد میں پیپلزپارٹی پنجاب کے صدر بھی رہے اور ’’جو میں نے دیکھا‘‘ کے عنوان سے ان کی یادداشتوں پر مبنی ایک کتاب بھی بہت مشہور ہوئی تھی کہا تھا کہ ابھی ہمیں سوسائٹی کو یہ باور کرانا ہے کہ کرپشن ایک غلط روایت ہے۔ کرپشن روکنا اس کے بعد کا مرحلہ ہے۔ ابھی ہماری سوسائٹی کرپشن کو غلط سمجھنے سے بھی کوسوں دور ہے۔ یہ تو اسی کی دہائی کی بات ہے ابھی کل تک یہی کیفیت تھی۔ منی لانڈرنگ کو پتنگ بازی جیسا کوئی معمولی جرم سمجھا جاتا تھا۔ ان محسوسات کو جرم کے بجائے شاید محض پر تعیش تفریح سمجھا جاتا تھا۔ ایک جملہ زباں زدخاص وعام تھا کہ کرپشن وہی نہیں کرتا جسے موقع نہیں ملتا مگر ناقابل یقین حد تک منظر بدل چکا ہے۔ ابھی عوام میں کرپشن اور منی لانڈرنگ کے خلاف جذبات پوری طرح بیدار تو نہیں ہوئے اور ناپسندیدگی کا معیار غیر معمولی حد تک بلند نہیں ہوا مگر آج یہ پاکستانی سیاست کا ایک اہم موضوع ہے۔
ملک کی چند جماعتیں مسئلہ نہ سمجھے جانے والے مسئلے کو واقعی ایک مسئلہ بنا چکی ہیں۔ ان میں عمران خان اور سراج الحق کا کردار نمایاں ہے ایک مین اسٹریم جماعت کی حیثیت سے اور عوامی دباؤ کو کامیابی سے استعمال کرکے وہ کرپشن کو ایک موضوع بناچکے ہیں۔ اس راہ میں قاضی حسین احمد مرحوم کی جدوجہد کو بھی فراموش نہیں کیا جا سکتا جنہیں دائیں بازو کے میڈیا نے تنہا اور اجنبی بنانے کی کوشش کی مگروہ کرپشن کو موضوع بناتے رہے۔ صرف سیاست دانوں ہی کی نہیں بلکہ فیصل مسجد اسلام آباد کے سیمینار میں جب ملک میں جنرل پرویز مشرف کے اقتدار کا سورج پوری آب وتاب سے چمک رہا تھا انہوں نے ’’کورکمانڈر اور کروڑ کمانڈر‘‘ کی اصطلاح استعمال کرکے احتساب کے نعرے کو ہمہ جہتی بنایا تھا۔ اسی طرح ووٹ فروشی کے خلاف عمران خان کا ردعمل اس قبیح رسم کو ایک موضوع بنا سکتا ہے۔ غلط کو غلط سمجھنے کی یہی روایت آگے چل کر عوامی دباؤ کی شکل اختیار کرسکتی ہے۔ اس کے باجود اس مسئلے کا اصل اور پائیدار حل سینیٹ کے انتخابی طریقہ کار میں تبدیلی ہے۔ عوامی دباؤ اور تادیبی کارروائی جیسے اقدمات اس منزل تک پہنچنے کے لمبے سفرکا نام ہے۔ اس میں شارٹ کٹ بہرحال یہی ہے کہ مخصوص نشستوں پر انتخاب کا طریقہ اپنایا جائے۔ بجز اس کے سینیٹ انتخابات کو ضمیروں کی منڈی بننے سے بچانے کا کوئی طریقہ کامیاب نہیں ہوسکتا۔