اچھے اور برے اخلاق کی فہرست کو خلط ملط کردیا گیا ہے بعض ایسے اخلاق کو اچھا سا نام دے کر بہترین قرار دے دیا گیا ہے جو اپنی حقیقت کے اعتبار سے برے اخلاق ہیں۔ اسی طرح اس کے برعکس بھی کیا جاتا ہے۔
* اعزاز :
کبر اور تکبر اس دور کا وہ اعزاز ہے جس کی جہتوں کا شمار بھی ممکن نہیں۔ تکبر کسی انسان میں اس وقت تک نہیں آسکتا جب تک کہ وہ بدقسمت نہ ہو لیکن یہ بدقسمتی آج قسمت والوں کا اعزاز ہے۔ تکبر آسمان وزمین کا پہلا گناہ ہے۔ یہ نسلی برتری میں مبتلا شیطان کی شناخت اور علامت ہے۔ کبر، تکبر اور نسلی برتری آج وہ اعزاز ہے جو ایک براعظم سے دوسرے براعظم تک، ایک تہذیب سے دوسری تہذیب تک، ایک ملک سے دوسرے ملک تک اور ایک انسان سے دوسرے انسان تک پُر مصیبت اور سرگرداں نسل انسانی کی مشکلات اور مصائب کی سب سے بڑی محرک ہے۔ کبر اور تکبر اللہ سبحانہ وتعالیٰ کی رداء ہے جو اسے ہی زیبا ہے اسی کا اعزاز ہے۔ انسان کو ہرگز جائز نہیں کہ اللہ سبحانہ وتعالی کی اس رداء پر ہاتھ ڈالے۔
* قومی ہمدردی :
قومی ہمدردی قبیلے سے ریاست تک اجتماعی عصبیت کا سفر ہے۔ اس ہمدردی نے ایک طرف انسانوں کے مشترکہ مفادات کو جنم دیا تو دوسری طرف وہ عصبیت بھی پیدا کردی کہ جنگ عظیم اول اور دوم میں کروڑوں انسانوں کو ہلاک کر ڈالا اور اس پر بعض ممالک میں جشن بھی منایا گیا۔ قومی عصبیت وہ جذبہ ہے جو ڈوبنے والے سے پوچھتی ہے ’’تم کس ملک وقوم سے ہو۔‘‘
* سیاسی حکمت :
اس دور میں سیاسی حکمت میکیاولی ڈاکٹرائن ہے جس میں جھوٹ اور فریب کو اساس کا درجہ حاصل ہے۔ سیاسی حکمت عملی کا رشتہ اخلاقیات سے منقطع کردیا گیا ہے۔ اس تصور سیاست میں صداقت، دیانت، امانت اور اصول پسندی کھوٹے سکے ہیں۔ سیاسی حکمت ملک وقوم کی فلاح کے بجائے اپنی سماجی حیثیت مضبوط بنانے اور زیادہ سے زیادہ دولت جمع کرنے کا نام ہے۔ صداقت، دیانت، امانت اور تقویٰ کا اس کوچے سے گزر نہیں۔
* قناعت :
آج کل قناعت کو پست ہمتی سے تعبیر کیا جاتا ہے۔ پست ہمت بہت چھوٹے عزم اور ارادے کے مالک کو کہا جاتا ہے جبکہ قناعت پسند نہ پست ہمت ہوتا ہے اور نہ اس کے عزم اور ارادے ہی میں کوئی کمی پائی جاتی ہے۔ قناعت وہ وصف ہے کہ دامن خالی ہو لیکن دل اللہ کی رحمت سے بھرا ہوتا ہے۔ قناعت پسند انسان اشیاء کے حصول پر غرور سے آزاد ہوتا ہے۔ قناعت پسند انسان اپنے نصیب پر خوش ہوتا ہے۔ وہ حسد اور رشک دونوں جذبوں سے آزاد ہوتا ہے۔
* توکل :
توکل ایمان کی روح اور توحید کی بنیاد ہے۔ اسباب اختیار کرکے نتیجہ اللہ پر چھوڑنے کا نام توکل ہے لیکن آج غلط طور پر توکل ہاتھ پر ہاتھ دھرے اسباب اختیار کیے بغیر اللہ پر بھروسے کا نام ہے۔ اس قسم کی توکل کا شریعت میں کوئی وجود نہیں۔ جناب بایزید بسطامی فرماتے ہیں اگر زمین آسمان لوہے کے بن جائیں، آسمان سے بارش برسے اور نہ زمین اناج پیدا کرے تو بھی میں توکل سے نہ پھروں۔ عصر حاضر میں توکل اس طرح ترک کردیا گیا ہے کہ اللہ پر بھروسا چھوڑ کر اپنے زور بازو اور دوسرے انسانوں پر بھروسا کیا جاتا ہے۔
* دینی غیرت :
دینی غیرت مومن کی پہچان اوراس کی ذمے داری ہے۔ غیرت اگر دین کے لیے ہے تو بجا لیکن اگر دین سے ماسوا ہے تو ناروا۔ لیکن مسئلہ یہ ہے کہ معاشرے میں اسے عدم برداشت اور بے جا سختی سے تعبیر کیا جاتا ہے۔ کسی مجلس میں دین کا مذاق اڑایا جارہا ہو، اگر آپ برداشت کا مظاہرہ کریں تو قابل تحسین اور غیر جانبدار لیکن اگر غیرت ایمانی سے جوش میں آجائیں تو جہالت اور انتہا پسندی۔ دینی غیرت کے معاملے میں جس طرح ناخوب، خوب ہوا ہے کسی اور شعبے میں اس کی مثال نہیں دی جا سکتی۔
* سادگی :
سادگی بلند خیالی کا خاصہ ہے۔ سادگی آخرت کی ابدی زندگی کا انتخاب اور وسائل اپنے بجائے آخرت کے حصول کے لیے خرچ کرنے کا نام ہے۔ سادگی شاہ دوعالم ؐ کے جسم اطہر پر چٹائی کے نشان اور سیدنا عمرؓ کے آنسوؤں کا نام ہے۔ آج اشیاء تعیشات زندگی کا مقصد ہیں۔ معیار زندگی کی نہ ختم ہونے والی دوڑ پسندیدہ اور سادگی ناپسندیدہ ہے کیوں کہ یہ عہد جہالت ہے۔
* تقوی :
تقویٰ کے بغیر خدا ایک نام ہے، نہ جان نہ حرزجان۔ تقویٰ ذات اور صفات کا کمال ہے۔ تقویٰ غلام کی سواری اور آقا کے اونٹ کی نکیل کا تھامنا ہے۔ تقویٰ علم اور عمل کے درمیان خلیج کا خاتمہ ہے۔ تقویٰ وہ صفت ہے جو صفت کے عطا کرنے والے تک لے جاتی ہے۔ تقویٰ ہمہ وقت محبوب کا خیال اور احسا س ہے جسے آج باربار در آنے والے وہم اور وسوسے کے مماثل سمجھا جاتا ہے۔
* اہل علم اور اہل دین کی غیبت وعیب گوئی:
مستقل پروپیگنڈے اور میڈیا کی جادوگری سے آج مولوی اور ملا کو کم نگاہ، کم سمجھ، ہٹ دھرم، کج بحث، غیر متوازن، مسلکی اختلافات کا علم بردار، فرقہ وارانہ قتل وغارت کا سبب، مذہبی منافرت پھیلانے والا اور توہین رسالت کی آڑ میں اقلیتوں کا جینا حرام کرنے والا باور کرایا جارہا ہے۔ یہ متعفن سوچ کے وہ سیکولر اور لبرل لوگ ہیں جو اہل علم اور اہل دین کی برائیوں اور عیب گوئی کے پردے میں اسلام کے خلاف باتیں کرنا چاہتے ہیں۔ اسلام کے خلاف باتیں کرنا تو مشکل اور دشوار ہے کہ لوگوں سے پٹنے کا خطرہ اور ڈر ہے اس لیے یہ بالشتیے مولوی اور ملا کی آڑ میں اہل علم اور اہل دین کو نشانہ بناتے ہیں۔
* ریا اور تفاخر :
رسالت مآب ؐ نے ریا کو شرک اصغر فرمایا ہے۔ جہنم کی ایک وادی جس سے جہنم بھی ہر روز چار سومرتبہ پناہ مانگتی ہے۔ اس میں وہ لوگ ڈالے جائیں گے جو نیکی لوگوں کو دکھانے کے لیے کرتے ہیں۔ ریا کی تباہ کاری کا اندازہ کیجیے کہ نیکی جہنم میں لے جائے گی۔ تفاخر انفرادی سطح پر ہوتو اکڑی گردن مونچھوں کے بل، پگڑی کے پیچ اور نام کے ساتھ لگائے گئے القابات ہیں اور اگر اجتماعی سطح پر ہوتو دیگر اقوام کو اپنے سے حقیر سمجھنے ان پر حکومت کرنے، انہیں غلام بنانے اور تحقیر کرنے کا عمل ہے۔ جعلی تفاخر کو انسان اپنی قوم کے لیے مخصوص کردیتا ہے۔ یہ جعلی تفاخر ہی تھا جس کی وجہ سے کمال اتاترک کے دور میں بچوں کو تعلیم دی جاتی تھی کہ سیدنا آدم ؑ ترک تھے۔ امریکی سمجھتے ہیں ’’امریکا خدا کا اپنا ملک ہے۔‘‘ جرمنوں کا نعرہ ہے ’’جرمنی سب سے اوپر۔‘‘ اٹلی والے قرار دیتے ہیں ’’اٹلی ہی مذہب ہے‘‘ اور برطانوی یہ نظریہ رکھتے ہیں کہ ’’حکومت کرنا برطانیہ کا حق ہے۔‘‘