چیف صاحب کا چیلنج بجا مگر۔۔۔ 

224

چیف جسٹس آف پاکستان میاں ثاقب نثار ملک کو درپیش مسائل پربہت کھل کر اظہار خیال کررہے ہیں۔ وہ آئین اور قانون کے ساتھ وابستگی کی یقین دہانیاں کرارہے ہیں اس کے لیے قسم کھانے سے بھی گریز نہیں کرتے۔ وہ جوڈیشل مارشل لا کی اصطلاح کو لغو کہہ کر مسترد کر چکے ہیں۔ حالاں کہ اس اصطلاح میں ان کا ایک قطعی نیا اور مضبوط کردار مضمر اور پوشیدہ ہے۔ وہ اپنی ذات کی نفی کرنے کے لیے ’’میری ذات پر لعنت میں کچھ بھی نہیں‘‘۔ جیسے سخت الفاظ کا سہارا بھی لیتے ہیں اور یقین بھی دلاتے ہیں کہ اس منصب سے ہٹتے ہی کوئی نام بھی نہیں سنے گا۔ وہ حالات کے منظر اور یادوں کی لوح سے وقت اور تاریخ کی بھیڑ میں بہت سے ’’اہم ترین‘‘ افراد کی طرح گم ہوجائیں۔ چیف جسٹس کو بار بار اپنے کردار کی وضاحت کے لیے دلائل اور قسموں کا سہارا لینا پڑرہا ہے۔ اپنی اسی مہم میں انہوں نے ایک بار پھر چیلنج کے انداز میں مارشل لا کی افواہوں کی سختی سے تردید کرتے ہوئے کہا ہے کہ کس میں ہمت ہے جو مارشل لا لگائے۔ جس دن ملک پر شب خون مارا گیا اس دن عدالت عظمیٰ کے سترہ جج عہدے پر نہیں رہیں گے۔
چیف جسٹس کا چیلنج اپنی جگہ اور جمہوریت وآئین کے ساتھ ان کا اظہارِ مسلسل بجا مگر پاکستان کی تاریخ بتاتی ہے کہ مارشل لا لگانے کا معاملہ ہمت سے زیادہ حالات سے تعلق رکھتا ہے۔ ملک میں پہلا جزوی مارشل لا1953 میں پہلے لاہور اور پھر پورے پنجاب میں اس وقت لگا تھا جب ملک میں ختم نبوت تحریک زوروں پر تھی اور تصادم کے واقعات عام ہونے لگے تھے۔ جنرل اعظم کو پہلے چیف مارشل لا ایڈمنسٹریٹر کے طور پر حالات کو کنٹرول کرنے کی ذمے دای سونپی گئی تھی۔ گویا کہ ملک مارشل لا کے تلخ ذائقے سے آشنا ہی خرابی حالات کے باعث ہوا۔ ملک میں ختم نبوت تحریک کے بینر تلے قادیانیوں کے خلاف مظاہروں کا سلسلہ چل نکلا تھا جس کے بعد لاہور میں مارشل لا نافذ کیا گیا۔ اس کے بعد 1957 ایوب خان کے مارشل لا کے پیچھے وجہ یہ نہیں تھا کہ ایوب خان ٹارزن قسم کے جرنیل تھے اور وہ ملک کے سیاہ وسفید کا مالک بننے کی خواہش کا شکار تھے۔ دلوں کا حال تو اللہ تعالیٰ ہی جانتا ہے مگر تاریخ میں ایسی کسی اعلانیہ خواہش کے اظہار کے آثار نہیں ملتے سوائے اس کے کہ اعظم خان کے جزوی مارشل لا نے مسائل کے اس نئے انداز کو متعارف کرایا تھا اور یہ نسخہ اس لحاظ سے تیر بہدف بھی ثابت ہو چکا تھا کہ اس سے پنجاب میں کسی بڑے تصادم کا خطرہ ٹک گیا تھا۔
1977میں جنرل ضیاء الحق بھی اپنے مارشل لا کا جواز حالات کی خرابی اور سیاسی ڈیڈلاک کو بتاتے تھے۔ زندگی کی آخری سانسوں تک وہ عالم مجبوری میں اقتدار سنبھالنے کی بات کرتے رہے۔ جنرل پرویزمشرف کی فوجی حکومت پہلوانوں کے داؤ پیچ کا نتیجہ تھی۔ میاں نواز شریف نے وزیر اعظم کے طور پر جنرل پرویز مشرف کو خلا میں معلق کر دیا تو جنرل مشرف کے ساتھیوں نے میاں نوازشریف کو زمین سے اُٹھا لیا اور اس داؤ پیچ میں طاقت کی جیت ہوئی۔ اس کے بعد جنرل مشرف معاشی حالات کی خرابی کو بھی چارج شیٹ میں شامل کرتے رہے۔ نوے کی دہائی میں جب ملک میں پیپلز پارٹی اور مسلم لیگ ن کی صورت میں دو جماعتی نظام جڑ پکڑ چکا تھا مارشل لا کو بھولی بسری کہانی سمجھا جا رہاتھا۔ پیپلزپارٹی تو ایک زمانہ شناس جماعت کے طور پر حقیقت اور حالات کا شعور رکھتی تھی مگر مسلم لیگ ن کا اعتماد اکثر خوش فہمی کے پیمانوں سے چھلکتا رہتا تھا اور اس کی قیادت یہ جملہ دہرایا کرتی تھی کہ یہ سترکی دہائی نہیں اب حالات بدل چکے ہیں۔ اس کے لیے دو باتوں کا سہارا لیا جاتا تھا ایک تو یہ دنیا اب فوجی حکومت کی حمایت نہیں کرتی دوسرا یہ کہ عوام بھی اب اپنے حق حکمرانی پر سمجھوتا نہیں کریں گے۔ جنرل مشرف کی بغاوت کے چند دن پہلے تک حکمران اسی خوش فہمی کا اظہار کرتے رہے یہاں تک امریکی اسٹیٹ ڈیپارٹمنٹ سے ’’کچھ نہ ہونے‘‘ کی ضمانت بھی حاصل کر لی گئی۔
بیرونی دنیا کا مارشل لا کو قبول نہ کرنے کا تاثر جنرل مشرف کے ایک فوٹو اور ایک انٹرویو کی مار نکلا۔ وہ مشہور زمانہ تصویر جس میں وہ دوکتے اُٹھائے ہوئے تھے اور وہ انٹرویو جس میں انہوں نے ترکی کے مصطفی کمال پاشا کو اپنا آئیڈیل قرار دیا تھا۔ ان دوباتوں سے مغرب جمہوریت کے سارے سبق بھول گیا۔ عوام کی طرف سے مارشل لا کو قبول نہ کرنے کی تھیوری تو اسی وقت پٹ گئی تھی جب ’’قدم بڑھاؤ نوازشریف ہم تمہارے ساتھ ہیں‘‘ کے نعروں میں قدم بڑھانے والے نوازشریف گردش دوراں کا شکار ہوتے ہی تنہا ہو گئے تھے۔ اس تاریخ کو دیکھیں توتمام مارشل لا ہمت سے زیادہ حالات سے جنم لیتے رہے۔
فوجی حکمرانوں نے ’’عزیز ہم وطنو السلام علیکم‘‘ کہنے کے بعد اپنی پہلی تقریر میں ملک کے خراب ہی حالات کو مارشل لا کا جواز بنا کر پیش کیا۔ ایک پیشہ ور سپاہی جو مسلسل ترقی کرتا ہوا جرنیل بنتا ہے شاید کبھی ملک کی براہ راست حکمرانی کا خواب بھی نہیں دیکھتا ہوگا۔ ملک کے مخدوش حالات، سیاسی آویزش، انارکی اور معاشی حالات فوج کو بطور ادارہ ملک کے نظام کو کنٹرول حاصل کرنے کی طرف دھکیلتے ہیں۔ پھر جب حالات کا دباؤ بڑھ جاتا ہے تو مارشل لا کے اقتدار کی بساط لپٹنے لگتی ہے۔ آج حالات اس طرح بدل چکے ہیں کہ پاکستان مغربی ملکوں کی آنکھ کا تازہ نہیں رہا۔ پاکستان بھی مغربی ملکوں اور این جی اوز کا دباؤ جھٹک رہا ہے۔ اس سے ملک میں مغربی جمہوریت کے لیے گنجائش بڑی حد تک کم ہو گئی ہے۔ تاریخ کا سبق یہ ہے کہ مارشل لا کو نہ عوام روک سکتے ہیں نہ بیرونی دباؤ اور نہ ہی عدلیہ۔ مارشل لا کو سیاست دان اور فوج ہی روک سکتے ہیں۔ اس کی شرط یہ ہے کہ سب بدل جائیں اور بدل جانے پر آمادہ اور تیار ہوجائیں۔