کے الیکٹرک پر وزیر اعظم کی مہربانیاں

245

وزیر اعظم پاکستان نے بھی کراچی میں بجلی کی لوڈ شیڈنگ کے حوالے سے اس پروپیگنڈے کی تصدیق کردی کہ سارا معاملہ صرف کے الیکٹرک کو سوئی سدرن گیس کی جانب سے گیس کی فراہمی میں کمی کی وجہ سے تھا اور انہوں نے سوئی سدرن کو حکم دیا کہ وہ کے الیکٹرک کو اضافی گیس فراہم کرے۔ جب سے جماعت اسلامی کراچی نے کے الیکٹرک کا محاصرہ کیا ہے اس کی لوڈ شیڈنگ اور بلنگ اور دیگر بدعنوانیوں کا پردہ چاک کیا ہے اس وقت سے کئی سیاسی پارٹیاں اور کے الیکٹرک سے فائدہ اٹھانے والے اس کی حمایت میں نکلے ہوئے ہیں۔ بعض اخبارات کے ذریعے بھی یہی تاثر دیا جارہا تھا کہ سوئی سدرن کمپنی گیس نہیں دے رہی جس کی وجہ سے کے الیکٹرک لوڈ شیڈنگ پر مجبور ہے۔ جب جماعت اسلامی نے وزیر اعلیٰ ہاؤس پر دھرنا دینے کا اعلان کیا تو سندھ حکومت متحرک ہوگئی وزیر اعلیٰ ادارہ نور حق پہنچ گئے۔ کچھ مانا کچھ نہیں مانا۔ بہرحال بنیادی بات پر اتفاق کیا کہ کے الیکٹرک گڑ بڑ کررہی ہے۔ اس کے بعد 30برس سے کراچی کو پانی و بجلی سے محروم کرنے والے نکل آئے جو اب تین حصوں میں منقسم ہیں۔ میئر کراچی نے بھی سوئی سدرن سے مطالبہ کیا ہے کہ کے الیکٹرک کو اضافی گیس دی جائے۔ پی ایس پی نے بھی یہی مطالبہ کیا اور وزیر اعظم نے کراچی آکر یہی اعلان کیا کہ سوئی سدرن کے الیکٹرک کو اضافی گیس دے۔ اس کے بعد خوش خبری سنائی کہ اب لوڈ شیڈنگ ختم ہو جائے گی۔ لیکن اگلے دن یہ ہوا کہ روزانہ جتنی لوڈ شیڈنگ ہوتی تھی اس سے زیادہ ہوئی۔ انتظام یہ کیا گیا کہ روزانہ تین مرتبہ جہاں ایک ایک گھنٹے کے لیے لوڈ شیڈنگ ہوتی ہے وہاں صرف دو مرتبہ لوڈ شیڈنگ کی گئی۔ لیکن اس مرتبہ لوڈ شیڈنگ ڈیڑھ ڈیڑھ گھنٹے کی ہوئی۔ کہنے کو صرف دو مرتبہ لوڈ شیڈنگ ہوئی۔ وزیر اعظم نے یہ بھی کہا کہ بجلی چوری کے پیسے کون دے گا۔ اور جہاں بجلی چوری ہوگی و ہاں لوڈ شیڈنگ ہوگی۔ وزیر اعظم نے سوئی سدرن کو جو حکم دیا ہے اس کے بارے میں بھی وزیر اعظم کو معلوم ہونا چاہیے کہ سوئی سدرن ایک سرکاری ادارہ ہے اس کو ایک ایگزیکٹو آرڈر کے ذریعے لاکھوں مکعب فٹ اضافی گیس فراہم کرنے کا پابند نہیں کیا جاسکتا۔ سوئی سدرن کا کے الیکٹرک سے اتنی بڑی مقدار میں گیس فراہمی کا کوئی معاہدہ نہیں ہے۔ محض وزیر اعظم کے حکم سے سوئی سدرن کئی ملین مکعب فٹ گیس فراہم نہیں کرسکتی۔ لیکن دیکھنا یہی ہے کہ پاکستان کے نظام میں بادشاہ وقت کے حکم کی طرح تمام ضابطے ختم کر کے کل سے سوئی سدرن گیس کمپنی گیس کی فراہمی شروع کردے گی۔ لیکن ایسا ہوگا نہیں کیوں کہ اوپر بابا رحمتے بیٹھے ہیں جو کسی بھی دن نوٹس لے کر سوئی سدرن گیس کے ذمے داروں کو طلب کرلیں گے۔ کے الیکٹرک کے لیے وزیر اعظم کی جانب سے اس قدر مہربانی کا کوئی سبب سمجھ میں نہیں آرہا۔ کے الیکٹرک کو 80ارب روپے سے زیاذدہ کا ڈیفالٹر ہونے کے باوجود گیس فراہمی کاحکم کیوں دیا گیا۔ اس گیس کمپنی کے 15سے 20 ارب کے واجبات کی وجہ سے پاکستان اسٹیل کی گیس منقطع کردی گئی اور پاکستان کی سب سے بڑی اسٹیل کی صنعت کو تباہ کردیا گیا۔ اس قدر تضادات ہیں کہ کوئی ان کا جواب نہیں دے سکتا۔ اگر کوئی صارف کے الیکٹرک کے خلاف مقدمہ لے کر عدالت جائے کہ میرا بل ہر ماہ 10 ہزار تک آتا تھا اچانک ڈیڑھ لاکھ کا بھیج دیا گیا ہے میرا بجلی کا استعمال اتنا نہیں ہے، اس بل کو درست کرایا جائے تو عدالت حکم دیتی ہے کہ پہلے بل جمع کرایا جائے۔ پھر تو جھگڑا ہی ختم۔ لیکن کے الیکٹرک کے معاملے میں اس قدر خصوصی رعایت دینے کا حکم کیوں دیا گیا۔ شنید ہے کہ سوئی سدرن نے گیس کی فراہمی شروع کردی ہے اور ہلکی سی آواز آئی ہے کہ 15دن میں واجبات نہ ملے تو فراہمی بند کردیں گے۔ لیکن ایک مرتبہ گیس فراہمی شروع کر کے بند کی تو پی ایس پی سے لے کر متحدہ اور گورنر تک سب شور مچا دیں گے کہ گیس کی فراہمی کیوں بند کی۔ سوال یہ ہے کہ کے الیکٹرک کو فرنس آئل والے پلانٹ چلانے پر کیوں رضامند نہیں کیا جاسکا۔ حکومت کی وہ کون سی مجبوری ہے کہ وہ کے الیکٹرک کے واجبات بھی وصول نہیں کرسکتی اور اس کی جانب سے دیگر بدعنوانیوں پر بھی کنٹرول نہیں کرسکتی۔ وزیر اعظم کا بجلی چوری کے حوالے سے عوام کو مجرم گرداننا بھی قابل گرفت ہے۔ وہ کس بنیاد پر کے الیکٹرک کی زبان بول رہے ہیں ۔ یہ ایک پوری زنجیر ہے کے الیکٹرک، گیس کمپنی کی نادہندہ ہے۔ گیس کمپنی اسی وجہ سے مالی بحران کا شکار ہے۔ کے الیکٹرک پی ایس او کی نادہندہ ہے ، کے الیکٹرک واپڈا کو پیسے نہیں دے رہی اور واپڈا، پی ایس او کو پیسے نہیں دے رہی۔ پی ٹی وی لائسنس فیس کے اربوں روپے بھی کے الیکٹرک نے ادا نہیں کیے ہیں۔ اس کے نتیجے میں پی ٹی وی کو بھی مالی دباؤ کا سامنا ہے۔ گویا ایک ادارہ کئی اداروں کو مالی بحران کا شکار کررہا ہے اور عوام کو الگ دباؤ میں رکھا ہوا ہے۔ گیس کمپنی اور کے الیکٹرک کے تنازع کے نام پر اصل مسائل اوجھل کردیے گئے۔ اصل مسئلہ کے الیکٹرک کی نجکاری کے اصول اور ضوابط ہیں یہ کس بنیاد پر کس معاہدے کے تحت نجی انتظامیہ کے حوالے کی گئی۔ تانبے کے تاروں کی جگہ المونیم کے تار لگائے کس قانون کے تحت لوگوں کو نیا کنکشن دینا اتنا مشکل کردیا کہ لوگ کنڈے ڈالنے پر مجبور ہیں۔ایک گھر میں ایک کنکشن کے نام پر زیادہ یونٹس استعمال کرائے جاتے ہیں جس سے بل زیادہ آتا ہے اس کو کنٹرول نہیں کیا جارہا۔ گزشتہ سال یہ بات سامنے آچکی ہے کہ کے الیکٹرک کے اعلیٰ حکام نے عام بلوں پر دس فیصد زیادہ بلنگ کا حکم دیا تھا۔ ان کی ای میل عام کرنے والے افسر کو نکال دیا گیا۔ یہ سب کچھ اس لیے ہو رہا ہے کہ صارفین کے تحفظ کی ذمے دار حکومت سو رہی ہے۔ حکمرانوں نے صارفین کے تحفظ کے لیے کوئی قدم نہیں اٹھایا ہے۔ اگر دیکھا جائے تو کے الیکٹرک کے حوالے سے سماجی میڈیا پر جو باتیں کہی جارہی ہیں کوئی نہ کوئی حقیقت تو ہوگی۔ کسی نہ کسی پارٹی کے رہنما کا کوئی نہ کوئی رشتہ دار کے الیکٹرک میں اعلیٰ منصب پر فائز ہے۔ کئی رہنماؤں کے رشتے داروں کے نام بھی سامنے آچکے ہیں۔ اور ایک اور اہم بات یہ ہے کہ کسی نجی ادارے میں 50لاکھ یا 75لاکھ تنخواہ دینے کا کیا جواز ہے۔ حکومت، عدالت، سیاست دان، نیپرا، اسمبلی یہ سب کیا کررہے ہیں۔