حکمران بمقابلہ عدلیہ

246

پاکستان کے منصف اعظم میاں ثاقب نثار اور نا اہل قرار دیے گئے میاں نواز شریف اینڈ کمپنی کے درمیان میں جو کچھ ہورہاہے وہ انتہائی تشویشناک ہے۔ جس معاشرے میں عدلیہ اور ججوں کا احترام نہ ہو وہ معاشرہ تباہ ہوجاتا ہے۔ مسلمانوں کی تاریخ کا روشن ترین پہلو یہ ہے کہ انتہائی با اختیار حکمرانوں تک نے عدلیہ اور منصف کا احترام کیا ہے۔ خلیفہ چہارم حضرت علیؓ نہایت قابل احترام شخصیت تھے لیکن وہ قاضی شریح کے سامنے ایک عام آدمی کی طرح پیش ہوئے اور حق پر ہونے کے باوجود ثبوت پیش نہ کرنے پر قاضی کا فیصلہ قبول کیا۔ کیا آج کے دور میں پورے عالم اسلام میں حضرت علیؓ سے بڑی کوئی شخصیت ہوسکتی ہے۔ لیکن میاں نواز شریف اور ان کے حواری کھل کر عدلیہ کی نہ صرف توہین کررہے ہیں بلکہ مضحکہ بھی اڑارہے ہیں۔ نواز شریف کو تو اپنی نا اہلی کا صدمہ ہے جس نے ان کی فکر اور ان کی زبان پر بھی اثر ڈالا ہے لیکن وفاقی وزیر ریلوے خواجہ سعد رفیق تو میاں صاحب کی وفاداری میں بالکل آپے سے باہر ہوئے جارہے ہیں۔ ابھی ان پر کوئی مقدمہ قائم نہیں ہوا لیکن وہ چیف جسٹس کو انتباہ کررہے ہیں کہ ’’بس بہت ہوچکا‘‘۔ لیکن ان کے ساتھ ایسا کیا ہوگیا۔ ان کا یہ کہنا تو صحیح ہے کہ ان پر اگر کوئی الزام ہے تو اس کا ثبوت پیش کیا جائے کیونکہ ان کی بھی عزت ہے۔ میاں نواز شریف کہتے ہیں کہ چیف جسٹس اپنا کام کریں، دوسروں کے کام میں مداخلت نہ کریں۔ جو کام حکومت اور سیاست دانوں کا ہے وہ ان کو کرنے دیں لیکن اہم ترین سوال تو یہ ہے کہ سرکاری ادارے اور حکومتیں اپنا کام ہی نہیں کررہیں تو کوئی تو نوٹس لے گا۔ حکمران، مرکز میں ہوں یا صوبوں میں، ایمانداری سے بتائیں کہ وہ کیا کررہے ہیں، کس شعبے میں بہتری آئی ہے اور تقریباً 5 سال میں سوائے بیانات اور دعوؤں کے کیا کیا ہے۔ پھر جب وہ اپنا کام کرنے میں مکمل طور پر ناکام رہے ہیں تو عدلیہ اپنا کردار تو ادا کرے گی۔ اس پر چراغ پا ہونے کے بجا ئے عوام کو بتایا جائے کہ کس نے کیا کام کیا۔ یہ بھی حقیقت ہے کہ روزانہ ہی ہر سرکاری ادارے اور شعبے میں اربوں روپے کی کرپشن کے واقعات سامنے آرہے ہیں۔ اگر ان کی روک تھام کرلی جاتی تو پاکستانی معیشت اتنے برے حالوں میں نہ ہوتی۔ میاں نواز شریف کہتے ہیں کہ معیشت میں خرابی اس لیے آئی کہ ان کو وزارت عظمیٰ سے ہٹادیا گیا۔ میاں صاحب خدا کا خوف کریں۔ یہ خرابیاں جو آج منہ کھولے کھڑی ہیں ان کا آغاز تو 2014ء سے ہوگیا تھا۔ پاکستان کی برآمدات ہر سال گرتی چلی گئیں اور یہ پہلی بار ہوا کہ 2014ء سے 2017ء تک مسلسل گراوٹ نظر آئی۔ آپ تو جولائی 2017ء میں معزول کیے گئے۔ آپ کے دور حکومت میں تقریباً ہر ماہ پٹرول کی قیمتوں میں اضافہ ہوتا رہا اور مہنگائی آسمان کو چھونے لگی جب کہ آپ کا دعویٰ یہ تھا کہ اقتدار میں آکر اشیائے ضرورت کی قیمتیں 1999ء کی سطح پر لائیں گے جب آپ کو وزارت عظمیٰ سے ہٹایا گیا۔ ذرا بتایئے، آج کون سی شے 1999ء کی شرح کے مطابق ہے۔ آپ نے گزشتہ منگل کو صحافیوں سے گفتگو کرتے ہوئے فرمایا کہ نیب اس بات کی بھی تحقیقات کرے کہ چیف جسٹس میاں ثاقب نثار کو پہلے سیکرٹری قانون اور پھر جج کس نے بتایا۔ میاں صاحب کیا آپ کا حافظہ اتنا کمزور ہوگیا ہے کہ اپنے ہی اقدامات فراموش کر بیٹھے ہیں۔ یہ بات تو انہی کالموں میں پہلے بھی لکھی جاچکی ہے کہ میاں ثاقب نثار کو کس نے ترقی دی۔ لیکن آپ کو تو یہ بھی یاد نہیں رہا تھا کہ نو منتخب چیئرمین سینیٹ صادق سنجرانی کو کس نے سیاست میں متعارف کرایا اور ان کا نام سامنے آنے پر آپ انجان بن کر پوچھتے رہے کہ یہ کون ہے۔ میاں صاحب نے اعتراف کیا کہ نیب پرویز مشرف کا قانون ہے، ختم نہ کرکے غلطی کی۔ اس کے جواب میں پیپلزپارٹی کے ترجمان مولابخش چانڈیو نے گرہ لگائی کہ میاں صاحب ماضی کے ہر اقدام کو غلطی قرار دے دیتے ہیں لیکن وہ اتنے بھولے نہیں جتنے نظر آتے ہیں۔ صورتحال ایک مناظرے یا طرحی مشاعرے جیسی ہوتی جارہی ہے۔ ایک طرف سے اعتراض آتا ہے تو دوسری طرف سے اس کا جواب۔ کوئی ایک مصرع اٹھاتا ہے تو دوسرا نہ صرف گرہ لگاتا ہے بلکہ کبھی کبھی تو دو غزلہ اور سہ غزلہ بھی پیش کردیتا ہے۔ نواز شریف نے دعویٰ کیا ہے کہ اب جواب ان کی طرف سے نہیں، قوم کی طرف سے آئے گا۔ کیا میاں صاحب نے قوم سے کچھ زیادہ ہی توقعات وابستہ نہیں کرلیں۔ انہوں نے اپنی معزولی کی ہیٹ ٹرک مکمل کرلی ہے۔ کیا قوم کی طرف سے پہلے کوئی جواب آیا۔ کہہ سکتے ہیں کہ چیف جسٹس جو کام کررہے ہیں وہ ان کے کرنے کے نہیں تھے اور بقول نواز شریف وہ لاکھوں مقدمات نمٹانے پر توجہ دیں۔ لیکن انہوں نے جن معاملات پر توجہ دی ان کا تعلق عوام سے ہے مثلاً اسپتالوں اور اسکولوں کی حالت زار، پینے کے صاف پانی کی عدم فراہمی، غیر معیاری کالج وغیرہ۔ حکمرانوں کو ان باتوں پر بھڑکنے اور مداخلت قرار دینے کے بجائے خود ان معاملات کو ٹھیک کرلینا چاہیے تھا۔ اب چیف جسٹس ایبٹ آباد گئے ہیں تاکہ زلزلہ زدگان کی حالت زار اور ان کے نام پر ملنے والی امداد کا حساب لے سکیں۔