گندم کے کاشتکاروں کو آڑھتیوں کے رحم وکرم پر چھوڑ دیا گیا، میاں مقصود

125

لاہور (وقائع نگار خصوصی) صدر متحدہ مجلس عمل پنجاب اور صوبائی امیر جماعت اسلامی میاں مقصود احمد نے کہا ہے کہ حکومت نے گنے کے بعد گندم کے کاشتکاروں کو بھی آڑھتیوں کے رحم وکرم پر چھوڑ دیا ہے۔ کسان اونے پونے اپنی فصلیں فروخت کرنے پر مجبور ہیں۔ حکمرانوں کی ترجیحات میں شعبہ زراعت سے وابستہ افراد کو ریلیف فراہم کرنا شامل نہیں ہے۔ ملک کی 70 فیصد آبادی شعبہ زراعت سے منسلک ہے مگر حکمرانوں نے اس شعبے کی ترقی کے لیے کچھ نہیں کیا۔ جب تک کاشت کاروں کو ریلیف فراہم نہیں کیا جائے گا تب تک ان کی زندگیوں میں خوشحالی نہیں آسکتی۔ حکمرانوں کی ساری توجہ سڑکوں کی توڑ پھوڑ پر مرکوز ہوکر رہ گئی ہے۔ حکومتی سطح پر 40 لاکھ ٹن کے بجائے 60 ٹن گندم کی خریداری کا اعلان نہ کرنا اس بات کا ثبوت ہے کہ حکمرانوں کو کسانوں کے مسائل سے کوئی غرض نہیں۔ دنیا کے تمام ترقی یافتہ ممالک اس اہم شعبہ پر خصوصی توجہ دے رہے ہیں۔ ہمارا ہمسایہ ملک بھارت بھی زراعت پر خصوصی توجہ دے رہا ہے۔ بھارت اپنے ریگستانوں کو نخلستانوں میں بدل رہا ہے مگر بدقسمتی سے پاکستان میں معاملہ بالکل الٹ ہے۔ انہوں نے کہا کہ جماعت اسلامی نے اس سے قبل گنے کے کاشتکاروں کے حقوق کی جنگ لڑی ہے اور گندم کے کاشتکاروں کے لیے بھی بھرپور انداز میں آواز اٹھائے گی۔ حکمرانوں نے اگر اپنی روش کو نہ بدلا تو احتجاج کریں گے۔ انہوں نے کہا کہ حکمرانوں کی عاقبت نااندیش پالیسیوں کی بدولت ہر شعبہ ہائے زندگی سے تعلق رکھنے والا شخص مایوس ہوچکا ہے۔ ضرورت اس بات کی ہے کہ شعبہ زراعت سے وابستہ افراد کے مسائل ہنگامی بنیادوں پر حل کیے جائیں۔ حکومت سے مطالبہ کرتے ہوئے کہا کہ گندم باردانے کو اوپن کیا جائے اور وڈیروں، جاگیرداروں کے تسلط سے آزاد کیا جائے۔ حکومت اس سال 40 لاکھ ٹن کے بجائے 60 لاکھ ٹن گندم خریدنے کا اعلان کرے اور گندم کو برآمد کرنے کی اجازت دے کر کسانوں کی حوصلہ افزائی کی جائے۔