خدارا احتیاط کریں

233

شاید یہ طے کرلیا گیا ہے کہ ہم اپنے ماضی سے کبھی سبق نہیں سیکھیں گے۔ حالات کتنے ہی خوفناک کیوں نہ ہوں اور اندرونی خلفشار خواہ کسی بھی سطح کا کیوں نہ ہو ان پر قابو پانا، شر پسند عناصر کی سرکوبی کرنا، ان پر کڑی نظر رکھنا، قانون کے مطابق ان کے ساتھ معاملہ کرنا ملک میں موجود پولیس، رینجرز، فوج اور دیگر قانون نافذ کرنے والی ایجنسیوں ہی کا کام ہوتا ہے۔ کسی بھی قسم کے حالات کو قابو میں رکھنے کے لیے مقامی افراد کا استعمال پاکستان میں آج تک کبھی کوئی اچھے نتائج سامنے نہیں لا سکا۔ ماضی میں یہ تجربہ مشرقی پاکستان کے حالات کو اپنے اختیار میں اور من مانی کے مطابق چلانے کے سلسلے میں کیا جا چکا تھا۔ ستم بالائے ستم یہ ہوا کہ ان کو نہ صرف ہتھیار تھمائے گئے بلکہ ان کو اختیارات بھی دیدیے گئے۔ اب آپ خود ہی اندازہ لگائیں کہ غیر تربیت یافتہ افراد کو اپنا حامی و ناصر بنانا، ان کے ہاتھ میں ہتھیار تھمانا اور پھر ان کو مکمل اختیار بھی دیدینا کیا کوئی اچھی تدبیر تھی؟۔ یہ بھی کہ کیا یہ عام شہریوں کی ذمے داری ہوتی ہے کہ وہ شرپسند اور ملک دشمن عناصر کا مقابلہ کریں؟۔
کراچی کے حالات تو ہمیشہ سے ہی خونیں رہے ہیں۔ یہاں مقتدر حلقے اپنی براجمانی کے تو خواہش مند رہتے ہیں لیکن اس کی ترقی و خوشحالی کے لیے کبھی سنجیدہ نظر نہیں آئے۔ کراچی کی ایک سیاسی جماعت کے خلاف خدشات اور الزامات کا سلسلہ گزشتہ 3 دھائیوں سے چلا آرہا ہے۔ یہ سب کچھ شاید اتنا عجیب اور تکلیف دہ نہیں۔ جو بات تکلیف کا سبب ہے وہ یہ ہے کہ اس جماعت کے خلاف صرف اور صرف قانونی کارروائیاں ہی کافی نہیں سمجھی گئیں بلکہ اس کو گروہوں میں بانٹنے کی کارروائیاں بھی کی گئیں۔ اس پر ہتھیار بند دستوں کو بٹھایا گیا جس کی وجہ سے دوطرفہ قتل و غارت گری ہوئی اور ہزاروں افراد لقمہ اجل بنے۔ اتنی قتل و غارت گری کے باوجود جو دکھ کی بات ہے کہ قاتلین آج تک نہیں پکڑے گئے خواہ ان کا تعلق کسی بھی گروہ سے رہا ہو۔ توڑنے پھوڑنے کا یہ سلسلہ آج تک جاری ہے جس سے اس بات کا خدشہ بدرجہ اتم موجود ہے کہ جونہی قانون نافذ کرنے والوں کی گرفت کمزور ہوئی نہ جانے کہاں کہاں اور کس کس کا خون بہے۔
آج کل منظور پشتین کا نام اسی طرح زور پکڑتا جا رہا ہے جیسے ماضی میں اور بہت سارے لیڈروں کا نام بام افق پر چمکتا رہا ہے۔ اس کی تحریک بلاشبہ بہت سے خدشات کو اپنے جلو میں لیے ہوئے ہے۔ یہاں یہ بحث مقصود نہیں کہ اس کی تحریک مثبت ہے یا منفی، بحث اس بات سے ہے کہ کیا کسی بھی غلط تحریک کو جڑ سے اکھاڑ پھینکنے کا کام عوام ہی میں سے کچھ لوگوں کا ہوتا ہے یا یہ کام ہر ملک و قوم میں قانون نافذ کرنے والے اداروں کا ہوتا ہے؟۔
مجھے نہیں معلوم کہ منظور پشتین کی تحریک کے مقاصد کیا ہیں اور اس کا مستقبل کیا ہوگا۔ مجھے اگر علم ہے تو بس اتنا کہ اس کی تحریک کا نام ’’پختون تحفظ موومنٹ‘‘ ہے۔ ان کے لیڈروں کی کچھ جذباتی باتیں جو میرے کانوں تک پہنچیں ہیں ان میں بلا کی کاٹ ہے اور اس میں بھی کوئی شک نہیں کہ وہ افواج پاکستان کے لیے اچھی رائے نہیں رکھتے لیکن اس کا یہ حل بھی نہیں کہ ان کے خلاف کسی ایسے گروہ کی حوصلہ افزائی کی جائے جو ’’تحفظ پاکستان موومنٹ‘‘ چلا بیٹھا ہے۔ جو بھی شر ہے، بغاوت ہے، پاکستان اور ریاست کے خلاف اقدامات ہیں ان کے خلاف ایکشن لینا صرف اور صرف قانون نافذ کرنے والے اداروں کے علاوہ اور کسی کا بھی نہیں ہونا چاہیے۔ امن دستوں کے نام پر کتنی دشمنیوں نے جنم لیا اور کیسی کیسی ہستیاں خاک و خون میں نہا گئیں۔ کراچی کس تباہی کا شکار ہوا اور حالیہ اقدامات نے اسے بارود کے ڈھیر پر لاکر کھڑا کردیا۔ اب معلوم نہیں کہ منظور پشتین کے لیے جو تحفظ پاکستان موومنٹ بن رہی ہے وہ کیا گل کھلائے۔ خدا کے لیے اس سلسلے کو دراز کرنے سے اجتناب کیا جائے اگر پشتوں آپس میں الجھ گئے تو اللہ نہ کرے پاکستان کا وہی حشر نہ بن جائے جو افغانستان کا ہو گیا ہے۔ وہاں ہر گروہ یہی سمجھتا ہے کہ وہی حق پر ہے۔ سب ایک دوسرے کے خون کے پیاسے ہیں۔ غیر ملکی فوجیں ہوں یا نہ ہوں اب ان کو آپس میں ایک دوسرے کی گردن کاٹنے سے کوئی بھی نہیں روک سکتا اس لیے کہ وہاں حکومت کو قائم و دائم رکھنے کے لیے ایک دوسرے کو لڑا دیا گیا ہے۔ یہی کچھ پاکستان میں بھی جاری رہا، قانون نافذ کرنے والے ادارے از خود کارروائیاں کرنے کے بجائے افراد سے کام لیتے رہے، ایک دوسرے کی کن سوئیوں پر مامور کرتے رہے، ایک دوسرے کی مخبریاں کراتے رہے، ایک دوسرے کے سامنے لاکر کھڑا کرتے رہے اور تقسیم در تقسیم کے مکروہ عمل پر قائم رہے تو خون خرابہ شہروں اور ان کی گلیوں تک پھیل جائے گا اور امن و سکون تباہ و برباد ہو کر رہ جائے گا۔
قانون نافذ کرنے والے جس کے بھی خلاف کارروائی کریں اپنے اختیارات کے مطابق کریں۔ میں ان افراد کو بھی متنبہ کرنا چاہتا ہوں جو جوش محبت میں اداروں کے ساتھ مل جاتے ہیں۔ وہ بھی گریز کریں اور جن کا فرض امن و امان کو قائم رکھنا ہے، ذمے داری ان ہی پر ڈال دیں۔ تعاون کی بات اور دست و بازو بننے میں فرق ہے۔ اس امتیاز کو محسوس کریں ورنہ مشرقی پاکستان میں ہونے والی پھانسیاں، افغان جہاد کے بعد برسنے والی گولہ و بارود کی بارش، کراچی میں ’’حقیقی‘‘ کا حشر اور امن جرگوں کا حال اپنے سامنے رکھیں اور دیکھیں کہ مقصد براری کے بعد کس طرح یکہ و تنہا چھوڑدیا جاتا ہے۔