چیف جسٹس، جسٹس میاں ثاقب نثار کی طرف سے ازخود نوٹس لیے جانے اور چھاپا مار کارروائیوں کی وجہ سے سیاست دانوں اور بیورو کریسی میں بے چینی پائی جاتی ہے۔ دوسری طرف جسٹس ریٹائرڈ جاوید اقبال جب سے نیب کے چیئرمین مقرر ہوئے ہیں اُس وقت سے نیب غیر معمولی فعال نظر آرہی ہے۔ نیب کی بھی یکے بعد دیگرے مسلسل کارروائیوں سے نہ صرف سابق و نااہل وزیراعظم نواز شریف، ان کا خاندان اور ساتھی پریشان ہیں بلکہ سندھ کے حکمرانوں اور بیورو کریٹوں کی نیندیں بھی اُڑچکی ہیں۔
اگر کسی اور ملک میں چیف جسٹس اور احتساب بیورو اس طرح کارروائی کریں تو وہاں کے حکمران اور بیوروکریٹ نہ صرف خوش ہوں بلکہ ایسی کارروائیوں کو ان کی مدد کے مساوی قرار دیا جائے گا۔ لیکن وطن عزیز میں حکمرانوں اور بااثر سیاسی شخصیات نے اپنے خلاف اس طرح کے ایکشن کو کبھی بھی برداشت نہیں کیا۔ یہاں ایسا عمل برداشت کرنے کی’’پریکٹس‘‘ ہی نہیں رہی۔ ان لوگوں نے ملک و قوم کے مفاد میں کیے جانے والے اس طرح کے عمل کو ہمیشہ جمہوریت کے خلاف سازش کہہ کر انہیں متنازع بنایا۔ ایسا کرنے کا مقصد صرف یہی ہوتا ہے کہ وہ اپنے اور اپنی پارٹی کے سوا ہر ایک کے خلاف قوانین کی خلاف ورزی اور کرپشن کے الزام میں کارروائی چاہتے ہیں۔ نیب جس کے چیئرمین کا تقرر حکومت اور اپوزیشن کے لیڈر کی مشاورت سے کیا جاتا ہے لیکن جب اسی چیئرمین کی سربراہی میں بلا تفریق کارروائی کی جاتی تو اعتراضات اور تنقید کا سلسلہ شروع ہوجاتا ہے۔
نوازشریف کا کہنا ہے کہ: ’’ہم نے غلطی کی کہ نیب کا قانون ختم نہیں کیا اور اس ادارے کو بند نہیں کیا‘‘۔ پاکستان پیپلز پارٹی کی سندھ کی حکومت تو قومی احتساب بیورو سے اس قدر تنگ آچکی تھی کہ اس نے اِسے صوبے سے دور رکھنے اور اپنا احتساب بیورو قائم کرنے کے لیے صوبائی اسمبلی سے بل تک منظور کروا لیا تھا اور کوشش کی تھی کہ سندھ میں ’’نیب نہ کھپے‘‘۔ جب تک نیب سندھ تک سرگرم رہی وفاق میں موجود مسلم لیگ کی حکومت اس کے اقدامات کی تعریف کرتی رہی لیکن جیسے ہی نیب نے جسٹس ریٹائرڈ جاوید اقبال کی سربراہی میں نواز شریف اور وفاقی حکومت کی کرپشن پر کارروائی کا آغاز کیا انہیں بھی نیب ’’ایک آنکھ نہیں بھارہی‘‘۔ اور تنقید کا سلسلہ شروع کردیا گیا۔
نیب کے ساتھ ان دنوں چوں کہ عدلیہ بھی غیر معمولی بلکہ منفرد انداز میں فعال ہے اس لیے ناکام حکمرانوں کو چیف جسٹس سمیت دیگر ججوں کے اعمال بھی برے لگنے لگے ہیں۔ حالاں کہ قوم عدلیہ کے اس نئے روپ سے خوش نظر آرہی ہے۔ لوگوں کا کہنا ہے کہ جب متعلقہ ادارے اپنی ذمے داریاں ادا نہیں کریں گے تو انہیں ایسے ہی نہیں چھوڑا جاسکتا۔ عوام کے ٹیکسوں سے چلنے والے اداروں کا قبلہ بھی درست کرنا ناگزیر ہوگیا ہے۔ چیف جسٹس اسپتالوں سمیت دیگر اداروں کی کارکردگی دیکھنے کے لیے اچانک ہی اگر جائزہ لینے لگے ہیں تو یہ ان کا اچھا اقدام ہے۔ کیوں کہ حکومت اور اس کے وزراء تو ان اداروں اور ان کے نظام کی بہتری میں ناکام ہوچکے ہیں۔ سوال یہ ہے کہ لاکھوں اور کروڑوں روپے خرچ کرنے والے وزراء اپنے ہی اداروں کی حالت نہیں بدل سکے تو کون بدلے گا؟۔ ظاہر ہے یہ کام ایک نہ ایک دن عدلیہ ہی کو کرنا تھا۔ ان اداروں کے امور قانون کے مطابق چلانے کے لیے ریاستی اداروں کو ہی سامنے آنا پڑتا ہے۔ قوم کی یہ خوش قسمتی ہے کہ عدلیہ یہ کام ’’اوور ٹائم‘‘ نہیں بلکہ اپنی ذمے داریاں سمجھ کر کررہی ہے۔ مگر جمہوریت کے نام پر مزے لینے والے کرپٹ سیاست دانوں اور حکمرانوں کو یہ سب کچھ اچھا نہیں لگ رہا۔ وہ تو 70 سال سے مسائل حل کرانے کے وعدوں پر سیاست چمکا رہے ہیں۔ ان کا یقین ہے کہ جب تک عوام مسائل کا شکار رہیں گے اس وقت تک وہ ان مسائل حل پر جھوٹے وعدے کرکے اپنی سیاسی دکانیں چلاتے رہیں گے۔ دراصل ہمارے سیاست دانوں کی اکثریت اپنے ذاتی مفادات کے حصول کے لیے سیاست کررہی ہے۔ انہیں معلوم ہے کہ ان کی تعلیمی قابلیت، صلاحیت اور ذہانت کیا ہے اور کتنی ہے۔ ان میں سے بیش تر تو ایسے بھی ہوں گے جنہیں کلرک کی بھی ملازمت نہ مل سکے۔ لیکن وہ سیاست کرکے اپنی ذات کے لیے سب کچھ حاصل کررہے ہیں۔
سرکاری زمین پر اپنا کوٹھی نما بنگلہ بنانے والے پیپلز پارٹی کے رہنما اور قائد حزب اختلاف خورشید شاہ کا کہنا ہے کہ: ’’صرف اس بات کا خیال کرنا چاہیے کہ جس چیز سے ریاست کو نقصان ہو وہ بات نہیں کرنا چاہیے‘‘۔ شاید ان کو گمان ہے کہ کرپٹ عناصر خصوصاً سیاست دانوں کے خلاف کارروائی سے ریاست کو نقصان پہنچتا ہے جب کہ سرکاری خزانے اور سرکاری زمین پر قبضے سے ملک ترقی کرتا ہے۔ مقامی ٹی وی کے پروگرام میں موجودہ حالات میں آزادی اظہار رائے پر بات کرتے ہوئے قائد حزب اختلاف نے کہا کہ میڈیا حد سے تجاوز کر رہا ہے۔ یقیناًان تک جو میڈیا پہنچے گا وہ ان کے خیال میں ’’حد سے تجاوز ہی کرے گا‘‘۔ عدلیہ کے حوالے سے گفتگو کرتے ہوئے قائد حزب اختلاف نے مزید کہا کہ مجھے اس بات پر اعتراض ہے کہ چیف جسٹس آف پاکستان اگر عدالت میں سماعت کے دوران بات کرتے ہیں تو وہ کارروائی کا حصہ ہوتا ہے لیکن اس کے علاوہ اگر کوئی بیان عدالت سے باہر دیا جاتا ہے تو وہ تقریباً سیاسی ہی سمجھا جاتا ہے جو نہیں ہونا چاہیے۔ شاید سینئر سیاست دان خورشید شاہ کے علم میں یہ بات نہ ہوکہ عدالت کہیں بھی کسی بھی جگہ لگائی جاسکتی ہے، جج جہاں بیٹھ جائیں وہی عدالت کہلاتی ہے۔
خورشید شاہ کی طرح سابق وزیراعظم نواز شریف سمیت متعدد سیاست دانوں کو بھی چیف جسٹس آف پاکستان جسٹس ثاقب نثار کی جانب سے مختلف اداروں کی کارکردگی اور عوامی مسائل پر از خود نوٹس لینے پر اعتراض ہے۔ نواز شریف نے گزشتہ روز احتساب عدالت کے باہر میڈیا سے گفتگو کرتے ہوئے کہا تھا کہ ’’اس وقت ملک میں جمہوریت نہیں بلکہ چیف جسٹس میاں ثاقب نثار کی بدترین ڈکٹیٹر شپ قائم ہے‘‘۔ اور ملک میں جو ہورہا ہے وہ کسی ’’جوڈیشل مارشل لا سے کم نہیں‘‘۔ ان کا کہنا تھا کہ یہ چیف جسٹس کا کام نہیں کہ وزیر اعلیٰ کو طلب کرے اور حکومت کو قطار میں کھڑا کردے، حالیہ 3 فیصلے جسٹس منیر کے فیصلے سے بھی بدترین ہیں‘‘۔ سچ تو یہ ہے کہ قوم حکمرانوں اور ان کے جھوٹ سے تنگ آچکی ہے اور اب ان کی کسی بات پر یقین کرنا بھی نہیں چاہتی۔ اگر چیف جسٹس جو کچھ کررہے ہیں اور وہ ’’جوڈیشل مارشل لا‘‘ سے کم نہیں ہے تب بھی قوم خوش ہے کہ ان کے مسائل حل کرنے کے لیے کسی کو تو فکر ہے۔
نوازشریف اور ان کے سمدھی سابق و مفرور وزیر خزانہ اسحاق ڈار تو اپنی ہی بنائی پارٹی کی موجودہ حکومت پر تنقید کرنے لگے ہیں کیوں کہ اس حکومت میں وہ شامل نہیں ہیں۔ جس حکومت میں وہ نہیں تو کیسی حکومت اور کیسی جمہوریت؟۔ یہ ہیں ہمارے سیاست دان اور ان کی سوچ۔ اس طرح کے سیاست دانوں اور نام نہاد عوامی رہنماؤں کی موجودگی کی وجہ عوام کا ذاتی مفادات کے حصول کے لیے ان کا انتخاب کرنا ہے۔ ضروری ہے کہ ملک کے اپنے حالات بدلنے کے لیے قوم کو خود بدلنا ہوگا۔ اچھے سیاست دانوں کا انتخاب دراصل ملک و قوم کی ترقی کا ضامن ہوا کرتی ہے۔ کیا ہم آنے والے انتخابات میں نئے ایمان دار اور انسانوں سے مخلص نمائندوں کا چناؤ کرے گی؟۔