قرض معاف کرانے والوں کے اثاثے فروخت کرکے رقم وصول کریں گے ،چیف جسٹس

192

اسلام آباد(مانیٹرنگ ڈیسک +صباح نیوز)چیف جسٹس پاکستان نے قرض معافی کے کیس میں ریمارکس دیے ہیں کہ جنہوں نے قرض معاف کرائے ان سے وصول کریں گے اور رقم نہیں تو اثاثے فروخت کرکے رقم وصول کریں گے۔عدالت عظمیٰ میں چیف جسٹس پاکستان کی سربراہی میں 3 رکنی بینچ نے قرض معافی سے متعلق ازخودنوٹس کیس کی سماعت کی ،اس سلسلے میں نیشنل بینک اور نجی بینک کے وکیل بھی عدالت میں پیش ہوئے۔نیشنل بینک کے وکیل نے عدالت کو بتایا کہ اس کیس میں مین پارٹی اسٹیٹ بینک ہے جب کہ نجی بینک کے وکیل نے دلائل میں کہا کہ اسٹیٹ بینک ریگولیٹری اتھارٹی ہے اور بینکوں نے قرضے معاف کیے۔نجی بینک کے وکیل نے اپنے دلائل میں کہا کہ نیشنل بینک کمیشن کا کہنا ہے کہ قصہ ماضی کا ہے لیکن بینک اس پیسے کی واپسی میں گہری دلچسپی رکھتے ہیں۔چیف جسٹس نے استفسار کیا کہ کمیشن کی رپورٹ کہاں ہے؟۔اس پر نیشنل بینک کے وکیل نے جواب دیا کہ مجھے بھی رپورٹ دیکھنے کا موقع نہیں ملا۔جسٹس ثاقب نثار نے سوال کیا کہ کوئی اندازہ ہے کتنے ارب معاف ہوئے؟ ۔نجی بینک کے وکیل نے بتایا کہ 54 ارب روپے معاف ہوئے۔ چیف جسٹس نے ریمارکس دیے کہ یہ مقدمات پرانے ہوگئے ہیں اسی لیے انہیں کھول رہا ہوں، سیاسی بنیادوں پر جو قرض معاف ہوئے اس کی تفصیلات کہاں ہیں؟ 222 مشکوک مقدمات ہیں۔جسٹس ثاقب نثار نے کہا کہ نیشنل بینک نے بہت زیادہ رقم کے قرضے مختلف ٹیکسٹائل ملوں کو معاف کیے، جب سے یہ رپورٹ آئی ہے اس کے بعد کوئی کارروائی نہیں ہوئی،یہ معاملہ ہمارے پاس 2007ء سے زیر التوا ہے، ہمیں رپورٹ چاہیے اور اس کی سفارشات بھی،جنہوں نے سیاسی بنیادوں پر قرض معاف کرائے ان سے وصول کرتے ہیں۔چیف جسٹس نے استفسار کیا کہ رپورٹ کیا ہے؟ انہوں نے ذمے داری کس پر ڈالی ہے؟ پوری رپورٹ کی سمری عدالت کو فراہم کریں۔بیرسٹرظفر اللہ نے عدالت کو بتایا کہ محمد خان جونیجو، یوسف رضا گیلانی،بے نظیر بھٹو، نواز شریف اور چودھری برادران نے بھی قرض لے کر معاف کرائے ہیں۔اس پر چیف جسٹس نے ریمارکس دیے کہ جنہوں نے غیرقانونی قرض معاف کرائے ان سے وصول کریں گے، اگر رقم نہیں تو اثاثے فروخت کرکے رقم وصول کریں گے۔علاوہ ازیں عدالت عظمیٰ نے پاکستانیوں کے بیرون ملک اکاؤنٹس اور اثاثوں کے کیس میں اسٹیٹ بینک سے بیرون ملک منتقل رقم کی تفصیلات ایک ہفتے میں طلب کرلیں۔عدالت عظمیٰ میں چیف جسٹس پاکستان کی سربراہی میں 3 رکنی بینچ نے پاکستانیوں کے بیرون ملک اکاؤنٹس اور اثاثوں پر از خود نوٹس کیس کی سماعت کی، اس سلسلے میں گورنر اسٹیٹ بینک اور چیئرمین ایف بی آر بھی عدالت میں پیش ہوئے۔دوران سماعت چیف جسٹس نے ریمارکس دیے کہ بہت سے افراد کے اثاثے اور اکاؤنٹس ملک سے باہر ہیں، اثاثوں کے ساتھ کیا کرنا ہے یہ بعد کی بات ہے، پہلے یہ معلوم ہونا چاہیے کب کتنا پیسہ بیرون ملک منتقل ہوا۔اس موقع پر عدالت کی قائم کردہ کمیٹی کی رپورٹ بھی پیش کی گئی اور کمیٹی کے سربراہ گورنر اسٹیٹ بینک طارق باجوہ نے بتایا کہ عدالت نے موجودہ قوانین کا جائزہ لینے کا کہا تھا، عدالت نے پوچھا تھا کہ پیسہ کیسے واپس لایا جاسکتاہے۔چیف جسٹس نے کہا کہ اصل مقصد باہر گیا ہوا پیسہ تلاش کرنا ہے، دیکھنا یہ تھا کہ رقم کس نے اور کیسے باہر منتقل کی، کس کے کتنے اثاثے اور اکاؤنٹس کس ملک میں ہیں، سوئٹزرلینڈ میں کتنے پاکستانیوں کے اکاؤنٹس ہیں،کتنے پاکستانیوں کی بیرون ملک جائداد ہیں۔چیف جسٹس نے گورنر اسٹیٹ بینک سے استفسار کیا کہ کیا ہم انتظار کریں کہ حکومت پہلے مختلف ممالک سے معاہدے کرے۔گورنر اسٹیٹ بینک نے بتایا کہ معاہدے کے علاوہ کسی ملک سے معلومات نہیں مل سکتیں، ٹیکس دہندگان اپنے دنیا بھر کے اثاثے ظاہر کرنے کے پابند ہیں۔جسٹس ثاقب نثار نے ریمارکس دیے کہ اگر کوئی اثاثے چھپائے تو حکومت بالکل مفلوج ہے، حکومت نے خود پیسہ باہر لے جانے کی پالیسیاں بنائیں،جب چاہو پیسہ باہر منتقل کردو،کوئی پوچھنے والا نہیں۔عدالت نے حکم دیاکہ ایک سال میں 50 ہزار ڈالر سے اوپر فارن ٹرانزیکشنز کا ریکارڈدیا جائے اور تفصیلات سربمہر لفافے میں پیش کی جائیں۔ بعد ازاں عدالت نے کیس کی مزید سماعت ایک ہفتے کے لیے ملتوی کردی۔