آمریت کے کرشمے؟

280

چند دن پہلے سابق وزیر اعظم میاں نوازشریف نے کہا تھا کہ ملک میں جمہوریت نہیں بلکہ چیف جسٹس کی آمریت قائم ہے۔ اس بیان کی روشنی میں ملک میں شاہد خاقان عباسی کی جمہوریت محض فریبِ نظر ہے۔ شاہدخاقان عباسی کا سراپا محض ایک تخیلاتی ہیولا اور ان کی کرسی محض تصوراتی دنیا کی بات ہے۔ چہار سو جو چیز دکھائی دیتی ہے وہ ثاقب نثار کی آمریت ہے۔ اس آمریت کے خدوخال یہ ہیں کہ چیف جسٹس اسپتالوں کے دورے کرکے درماندہ حال مریضوں کی بات سنتے ہیں۔ جامعات کی آہنی دیواروں میں تانک جھانک کر میرٹ اور انصاف کی ایک وسیع قتل گاہ کو دیکھتے اور اس پر رائے کا اظہار کرتے ہیں۔ ترقیاتی منصوبوں کی رفتار کا جائزہ لیتے ہیں اور کرپشن کے امکان کا جائزہ لیتے ہیں۔ اس راہ میں ڈانٹ ڈپٹ سے کام بھی لیتے ہیں۔ وہ لوگ جن کی وقعت اور حیثیت مدتوں تک کیڑے مکوڑوں جیسی رہی ہو ان کی داد رسی کرتے ہیں۔ جن فریادیوں کی جوانیاں بڑھاپے کی دہلیز پر پہنچ گئیں ان کی بات توجہ سے سنتے ہیں اور اس پر ایکشن لینے کی کوشش کرتے ہیں۔ مفاد عامہ کے ان کاموں کو اگر آمریت سے تشبیہ دی جاتی ہے تو پھر پاکستان کا آج کا معاشرہ مردہ اور بے حس جمہوریت کے بجائے سریع الحرکت آمریت ہی چاہتا ہے۔ یہ سارے کام وہ ہیں جن سے فوج، آئین، عوام یا مخالف سیاسی جماعتیں کوئی بھی حکمرانوں کو نہیں روکتا۔ ان معاملات اور مسائل کے حل کے لیے مطلق العنان حاکمیت چاہیے نہ بہت زیادہ اختیار اور نہ حکومت اور اپوزیشن کا کامل اتفاق رائے۔ یہ روز مرہ کے امور ہیں اور ان کے نمٹانے کو فقط صاف نیت اور کام کرنے کا عزم اور دلچسپی درکار ہوتی ہے۔
چیف جسٹس کی آمریت کا ایسا ہی ایک مظاہرہ متاثرین زلزلہ کے فنڈز کے برمودہ تکون میں جھانکنا ہے۔ یہ تیرہ برس پر محیط ایک ایسی کہانی ہے جسے دنیا تو کیا خود متاثرین بھول بھال گئے ہیں۔ تیرہ برس سے دفن ایک مردہ مسئلے کو قبر سے نکالنے کی جرات واقعی آمریت ہی کر سکتی ہے۔ جمہوریت ایسے مردے پر مزید مٹی ڈال کر اس کے باہر آنے کی تمام راہیں مسدود اور تمام امکانات ختم کرتی رہی ہے۔ چیف جسٹس ثاقب نثار تیرہ برس میں وہ پہلے شخص ہیں جنہوں نے ڈوبتی اور کمزور پڑتی اس آواز پر کان دھر کر یہ معلوم کرنے کی کوشش کی آخر متاثرین زلزلہ کون لوگ ہیں اور ان کا معاملہ ہے کیا؟ تیرہ برس میں یہ آواز صدا بصحرا ثابت ہوتی رہی ہے۔ جنرل مشرف کے دور میں شروع ہونے والا مسئلہ پیپلزپارٹی اور مسلم لیگ ن کی حکومتوں کو ورثے میں ملتا چلا گیا مگر مجال ہے کسی نے اس بحر کی تہہ میں جھانکنے کی کوشش کی ہو۔ دو جمہوری حکومتوں کے دس سال متاثرین کی آوازوں کو نظر انداز کرتے گزر گئے۔ جمہوریت میں عوامی مسائل سے یہ رویہ ایک المیہ ہے اور یہی وہ رویہ ہے جو جمہوریت کو مقبول نہیں ہونے دیتا۔ لوگ افراد کی محبت میں تو گرفتار کر دیے جاتے ہیں مگر وہ بطور نظام جمہوریت کی خوبیوں کے معترف نہیں ہوتے۔
تیرہ برس بعد چیف جسٹس ثاقب نثار اس مسئلے کی حقیقت جاننے کے لیے بالاکوٹ پہنچے تو متاثرین نے شکایات کے انبار لگا دیے۔ چیف جسٹس وہ پہلے شخص ہیں جنہوں نے یہ سوال پوچھا کہ زلزلہ متاثرین کے لیے جمع غیر ملکی فنڈز کہاں گئے؟ کیا یہ رقم قومی خزانے میں ڈالی گئی؟۔ ان سوالوں کے جواب میں وزارت خزانہ کے اعلیٰ افسر کا کہنا تھا کہ متاثرین کے لیے باہر سے 2ارب 89 کروڑ ڈالر امداد آئی لیکن پاکستان سے اکٹھی ہونے والی امداد کا علم نہیں۔ چیف جسٹس نے کہا معلوم کرنا چاہیے کہ مجموعی طور پر کتنی رقم اکٹھی ہوئی۔ ایرا میں مامے چاچے اور دوسرے رشتہ دار بھرتی کرلیے گئے۔ متاثرین کے لیے غیر ملکی امدد کسی دوسری جگہ استعمال کرنا جرم ہے۔ یہ نیب کے لیے روزانہ کی بنیاد پر تحقیقات کا فٹ کیس ہے۔ یہ سوال جو چیف جسٹس تیرہ سال بعد پوچھ رہے ہیں اگر جمہوری حکومتیں اُٹھاتیں تو ان کی شان جمہوریت میں کیا کمی آتی۔ ایک عام سے مسئلے کو آنے والے وقتوں پر ٹالنا ہی ملک میں بے شمار مسائل کو جنم دینے کا باعث بنتا ہے اور پھر ہم چہک چہک اور لہک لہک کر جمہوریت کا نوحہ پڑھتے ہیں اور کسی سخت گیر منتظم کا انتظار کرنے لگتے ہیں۔ کون سی آئینی اور قانونی بندشیں ہوتی ہیں جو جمہوری حکمرانوں کو اس نوعیت کے معاملات کی جانب متوجہ ہونے سے روکتی ہیں۔
بالاکوٹ کے باشندوں نے چند برس سے فریاد کرنا بھی چھوڑ رکھی تھی کچھ یہی حال آزادکشمیر کے متاثرین کا ہے۔ تعمیر نو کے لیے جن کے پچپن ارب پراسرار انداز میں کہیں غائب ہوگئے۔ کسی نے کہا کہ متاثرین سوات آپریشن کو منتقل ہوئے تو کوئی قیاس آرائی کرتا رہا کہ یہ رقم بے نظیر انکم سپورٹ اسکیم میں چلی گئی مگر حقیقت آج تک توجہ اور تحقیق طلب ہے۔ چیف جسٹس نے اس مسئلے کو چھیڑا تو مگر یہ ایک پرت در پرت اسیکنڈل ہے جس کی جڑیں جنرل مشرف کے دو رتک جاتی ہیں۔ اس کیس کو نیب میں بھیج دیا جائے تو بہت سے پردہ نشینوں کے چہرے پوری طرح کھل کر سامنے آسکتے ہیں۔ ایسا ہوجائے تو عوام الناس کو احتساب کے ہمہ جہتی ہی نہیں واقعی بے لاگ ہونے کا یقین آسکتا ہے کیوں کہ اس کی زد صرف سیاسی لوگوں پر نہیں پڑتی بلکہ اس کا آغاز اس دور کی کئی وردی پوش شخصیات سے ہو سکتا ہے۔