لوہے کے چنے

342

اِن دنوں میڈیا پر لوہے کے چنے کا بڑا تذکرہ ہے۔ ٹی وی چینلوں پر وزیر ریلوے خواجہ سعد رفیق کی وہ ویڈیو بہت چل رہی ہے جس میں وہ یہ کہہ رہے ہیں کہ ہم لوہے کے چنے ہیں جسے چبانے کی کوشش میں دانت تو ٹوٹ سکتے ہیں لیکن چباپا نہیں جاسکتا۔ اِدھر عدالت عظمیٰ ریلوے میں 60 ارب خسارے پر ازخود نوٹس کیس کی سماعت کررہی ہے۔ گزشتہ روز چیف جسٹس نے کیس کی سماعت کے موقع پر خواجہ سعد رفیق کو عدالت میں طلب کر رکھا تھا۔ انہوں نے سعد رفیق کو بیان دینے کے لیے روسٹرم پر طلب کرتے ہوئے کہا کہ وہ آئیں اور لوہے کے چنے بھی ساتھ لائیں۔ اس پر خواجہ سعد رفیق نے کہا کہ وہ بیان آپ کے لیے نہیں، سیاسی مخالفین کے لیے تھا۔ سیاسی تجزیہ کار کہتے ہیں کہ خواجہ سعد رفیق کا یہ عذر بدتراز گناہ کے مترادف ہے۔ سیاسی مخالفین کے درمیان محاذ آرائی ضرور ہوتی ہے لیکن وہ ایک دوسرے کو لوہے کے چنے قرار نہیں دیتے۔ سیاست میں نہ مستقل دوستی ہوتی ہے نہ مستقل دشمنی۔ ایک زمانہ تھا جب پیپلز پارٹی کا نام سن کر میاں نواز شریف کا خون کھول اُٹھتا تھا، وہ پنجاب کے وزیراعلیٰ تھے اور بے نظیر بھٹو وفاق میں وزیراعظم لیکن انہوں نے بے نظیر بھٹو کا اسلام آباد سے نکلنا دشوار بنا دیا تھا۔ پھر جب میاں نواز شریف فوجی آمریت کے پہاڑ تلے آئے تو یہی بے نظیر بھٹو ان کے لیے رحمت کا فرشتہ بن گئیں، دونوں نے مل کر ’’میثاق جمہوریت‘‘ پر دستخط کیے اور فوجی آمریت کے خلاف ایک دوسرے کا ساتھ دینے کا عہد کیا۔ بے نظیر بھٹو کے بعد ان کے شوہر نامدار آصف زرداری نے بھی ’’میثاق جمہوریت‘‘ کی لاج رکھی۔ عمران خان کے دھرنے کے خلاف وہ میاں نواز شریف کی پشت پر پورے قد سے کھڑے رہے اور ان کی حکومت کو گرنے نہ دیا لیکن یہی میاں نواز شریف ہیں جو میمو اسکینڈل میں زرداری کے خلاف کالا کوٹ پہن کر عدلت عظمیٰ پہنچ گئے۔ اب میاں نواز شریف پاناما کیس کے فیصلے کے بعد مشکل میں ہیں اور زرداری سے صلح کرنا چاہتے ہیں تو زرداری تلوار سونت کر میاں صاحب کے خلاف میدان میں نکل آئے ہیں اور کسی طرح بھی صلح پر راضی نہیں ہیں۔ دوسری طرف عمران خان کے رنگ ڈھنگ سب سے نرالے ہیں وہ میاں نواز شریف اور آصف زرداری، دونوں کو سیاست سے آؤٹ کرکے اپنا ڈنکا بجانا چاہتے ہیں۔ ان کا دعویٰ ہے کہ شریفوں کو تو انہوں نے سیاست سے آؤٹ کردیا ہے اب زرداری کی باری ہے لیکن سینیٹ کے انتخابات میں جو کچھ ہوا اور عمران خان نے جس طرح درپردہ زرداری سے تعاون کیا اس سے خان کے دعوے کی قلعی کھل جاتی ہے۔ اب کہا جارہا ہے کہ آئندہ انتخابات کے نتیجے میں اگر معلّق اسمبلی وجود میں آئی اور کسی سیاسی جماعت کو حکومت سازی کے لیے واضح اکثریت حاصل نہ ہوئی تو زرداری اور خان پھر مل سکتے ہیں اور وفاق میں پیپلز پارٹی اور تحریک انصاف کی مخلوط حکومت وجود میں آسکتی ہے۔
اس داستان سرائی کا مقصد یہ بتانا ہے کہ سعد رفیق کا یہ دعویٰ درست نہیں ہے کہ سیاستدان ایک دوسرے کے لیے لوہے کے چنے ہوتے ہیں۔ وہ تو اس روایت پر عمل کرتے ہیں کہ ’’چلو تم اُدھر کو ہوا ہو جدھر کی ‘‘۔ سعد رفیق کے قائد میاں نواز شریف جن کے بیانیے کا اِن دنوں بہت چرچا ہے اس روایت پر تسلسل سے عمل کرتے رہے ہیں۔ اگر ایسا نہ ہوتا تو وہ کبھی پیپلز پارٹی سے ہاتھ نہ ملاتے اور بے نظیر کو اپنی بہن اور زرداری کو اپنا بھائی قرار نہ دیتے اور رقیب کے گھر سر کے بل نہ جاتے۔ لوہے کے چنے درحقیقت وہ آئینی ادارے ہوتے ہیں جنہیں چبایا نہیں جاسکتا اور جو شخص یا جماعت ان اداروں پر حملہ آور ہونے اور انہیں چبانے کی کوشش کرتی ہے خود اپنے دانت تڑوا بیٹھتی ہے۔ قانون اور آئین ہی وہ لوہے کا چنا ہے جسے چبایا نہیں جاسکتا۔ مسلم لیگ (ن) اور اس کے قائد میاں نواز شریف کے ساتھ ان دنوں یہی کچھ ہورہا ہے۔ وہ اگرچہ ماضی میں آئین اور قانون کے ساتھ بھی کھیلتے رہے ہیں اور عدالتوں سے بھی اپنی مرضی کے فیصلے حاصل کرتے رہے ہیں لیکن اب زمانہ بدل گیا ہے، آئینی ادارے اپنی رٹ قائم کرنے پر مُصر ہیں اور عدالتیں آئین و قانون کے خلاف کوئی دباؤ قبول کرنے کو تیار نہیں ہیں۔ وہ مسلم لیگ (ن) اور اس کے قائد کے لیے صحیح معنوں میں لوہے کے چنے ثابت ہورہی ہیں۔ پاناما کیس کے فیصلے کے نتیجے میں میاں نواز شریف عوامی نمائندگی کے لیے نااہل ہوئے اور ایوان اقتدار سے نکالے گئے تو انہوں نے سیدھے سبھاؤ یہ فیصلہ قبول کرنے کے بجائے اسے ’’عوامی عدالت‘‘ میں چیلنج کردیا اور جگہ جگہ جلسے کرکے ’’مجھے کیوں نکالا‘‘ کی گردان کرنے لگے۔ ان کا خیال تھا کہ اس طرح عوامی دباؤ ڈال کر عدالت کو اپنا فیصلہ تبدیل کرنے پر مجبور کیا جاسکتا ہے لیکن وہ یہ بھول گئے تھے کہ عوامی دباؤ آئین و قانون پر اثر انداز نہیں ہوسکتا بلکہ خود عوام آئین و قانون کے تابع ہوتے ہیں اور انہیں گمراہ کرنے والوں کو ناکامی کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔ میاں نواز شریف کے ساتھ بھی یہی معاملہ پیش آیا۔ عدالت ان کے لیے لوہے کے چنے ثابت ہوئی۔ انہوں نے اسے ’’عوامی حمایت‘‘ کے زعم میں جتنا چبانے کی کوشش کی اسی قدر ان کے دانت ٹوٹتے چلے گئے، وہ پہلی مرتبہ عوامی نمائندگی کے لیے نااہل ہوئے اور وزارت عظمیٰ سے بیدخل کیے گئے۔ پھر پارٹی صدارت کے لیے نااہل ہوئے اور اب ساری عمر کے لیے نااہل قرار پائے ہیں۔ لوہے کے چنے چبانے کا نتیجہ یہ نکلا کہ میاں صاحب اپنے سارے دانتوں سے محروم ہوگئے ہیں۔ ان کی صاحبزادی مریم نواز کہہ رہی ہیں کہ تاعمر نااہلی صرف اسی وقت تک ہے جب تک فیصلہ دینے والے اپنی کرسیوں پر بیٹھے ہیں۔ شاید وہ نہیں جانتیں کہ عدالتیں فیصلے وقتی اور عارضی نہیں ہوتے ان کے اثرات پائیدار ہوتے ہیں اور ہمیشہ برقرار رہتے ہیں۔ موجودہ جج حضرات بے شک سبکدوش ہوجائیں ان کا فیصلہ قائم رہے گا اور اسے کہیں بھی چیلنج نہیں کیا جاسکے گا۔
سعد رفیق نے نہ جانے کس لہر میں خود کو یا اپنے لیڈروں کو لوہے کے چنے قرار دے دیا ہے، حالاں کہ وہ محض ایک عدالتی شوکاز نوٹس کی مار ہیں۔ ان کے نااہل لیڈر کے خلاف احتساب عدالت کا فیصلہ بھی بس آنے والا ہے۔ پھر دنیا دیکھے گی کہ لوہے کا چنا کون ہے۔ عدالت اپنے فیصلے پر عملدرآمد کراکر یہ ثابت کرے گی کہ قانون ہی وہ لوہے کا چنا ہے جسے چبایا نہیں جاسکتا۔ کہا جارہا ہے کہ احتساب عدالت کا فیصلہ اپنے اثرات اور مضرات کے اعتبار سے عدالت عظمیٰ کے فیصلے سے بھی بڑا ہوگا اور وہ پورا سیاسی منظرنامہ بدل کر رکھ دے گا۔ آئیے اس فیصلے کا انتظار کریں۔