بے وقت موت اور بروقت منافقت

436

غیر معروف اور غیر مشہور لوگ جب داعی اجل کو لبیک کہتے ہیں تو اپنے پیچھے ایک عدد بیوہ اور ۔۔۔ محکمہ بہبودِ آبادی کے سینے وغیرہ پر مونگ وغیرہ دلنے کے لیے ۔۔۔ کم و بیش نصف درجن کے لگ بھگ بچے بھی چھوڑ جاتے ہیں۔ مگر جب کبھی معروف، ممتاز اور مشہور افراد رحلت فرماتے ہیں تو وہ مذکورہ بالا وراثتوں کے ساتھ ساتھ اپنے عقیدت مندوں اور پرستاروں کی ایک بھری پُری دُنیا پیچھے چھوڑتے ہوئے از رَہِ عنایت اپنے پیچھے ایک ’خلا‘ بھی چھوڑ جاتے ہیں۔ اس کا فائدہ یہ ہوتا ہے کہ پیشہ ور تعزیت کنندگان تادیر اس خلا میں اپنے تعزیتی بیانات کے خلائی جہاز اُڑاتے رہتے ہیں۔ ہر بیان میں کہا جاتا ہے:
’’مرحوم کی وفات سے پیدا ہونے والا خلا مدتوں پُر نہ ہوسکے گا‘‘۔
مگر غالباً اِس قسم کی اگلی ہی وفات سے پچھلی وفات کا خلا پر ہوجاتا ہے۔ تاکہ ایک تازہ خلا پیدا ہوسکے۔ یوں ایک وقت میں عملاً ایک ہی خلا پیدا ہوتا ہے۔ اگر ایسا نہ ہوتا تو اب تک جتنی اموات سے جتنے خلا پیدا ہوچکے ہیں، اُن سب کا مجموعہ کیا جاتا تو ہمارے چاروں طرف خلا ہی خلا ہوتااور ہم سب خلائی مخلوق بنے امریکا، یورپ اور کنیڈا وغیرہ کی زمینی مخلوقات پر ہنس رہے ہوتے۔ خیر ہنسنے کا موقع تو ہمیں پھر بھی مل ہی جاتا ہے۔ کیوں کہ بعض اوقات خلا پیدا ہوتے ہوتے رہ جاتا ہے۔ بندہ بچ جاتا ہے اور خود ’خلا‘ ہی فوت ہو جاتا ہے۔
معروف، مشہور اور ممتاز مرحومین میں یوں تو ہر طرح کی خوبیاں پائی جاتی ہیں۔ ایسی خوبیاں بھی جو وہ اپنے اندر پیدا کرنے کی کوشش میں عمر بھر لگے رہے، مگر پیدا اُن کے فوت ہونے کے بعد ہوئیں۔ پَر ایک خامی ایسی ہے جو ایسے تمام مرحومین میں مشترکہ طور پر پائی گئی ہے۔ وہ یہ کہ یہ بڑے لوگ جان بوجھ کر اور ہمیشہ ’’بے وقت موت‘‘ مرجاتے ہیں۔ اللہ جانے انہیں ’’بے وقت موت‘‘ مرنے میں ایسا کیا لطف آتا ہے جس سے زندہ لوگوں کا لطف کرکرا ہوجاتا ہے۔ حتیٰ کہ تعزیت کنندگان کو بھی کسی قسم کی لگی لپٹی رکھے بغیر صاف صاف کہنا پڑتا ہے کہ:
’’مرحوم کی بے وقت موت سے ہمیں سخت صدمہ پہنچا‘‘۔
ظاہر ہے کہ سب ہی لوگوں کی کچھ نہ کچھ پہلے سے طے شدہ مصروفیات ہوتی ہیں۔ کوئی لنچ ہوتا ہے۔ کوئی ڈنر ہوتا ہے۔ کوئی پارٹی ہوتی ہے۔ کوئی پکنک ہوتی ہے۔ کسی کی ’’بے وقت موت‘‘ کی وجہ سے اگر ایسی تمام مصروفیات کو اچانک منسوخ کردینا پڑے تو صدمہ نہیں ہوگا توکیا خوشی ہوگی؟ اگر مرحوم کم ازکم مرتے وقت ہی وقت کی پابندی کر لیتے تو اُن کا کیا بگڑ جاتا؟ مگر ہم نے آج تک نہیں سُنا کہ کوئی صاحب اپنے تعزیت کنندگان کی سہولت کے لیے ’’بروقت موت‘‘ مرگئے ہوں۔ تاہم آئندہ اگر کوئی صاحب ایسا کرنا چاہیں تو اُن کی ’’بروقت موت‘‘ سے ہمیں بڑی خوشی ہوگی۔ دیکھیے نا، ہرکام اپنے وقت پر ہی اچھا لگتا ہے!
کوئی صاحب اگر ’’بروقت‘‘ نہ مرسکیں تو اس پر بھی افسوس ہوتا ہے کہ مر کیوں نہ گئے؟ اُن کی ’’موت فروشی‘‘ سے فائدہ اُٹھانے کا سارا پلان (جسے ’’لاشوں پر سیاست کرنا‘‘ کہا جاتا ہے) دھرے کا دھرا رہ جاتا ہے۔ پہلے کہا جاتا تھا کہ:
’’جسے اللہ رکھے، اُسے کون چکھے؟‘‘
مگر اب زمانہ ترقی کر گیا ہے۔ ’چکھنے والے‘ تو ’اللہ کے رکھنے‘ کے باوجود اس محاورے پر عمل کرنے کے لیے ’ہر گھڑی تیار کامران‘ رہتے ہیں:
’’جہاں دیکھا توا پرات، وہیں بِتائی ساری رات‘‘
سو دسترخوان سج گئے ہیں اور طرح طرح کے پکوان چکھ چکھ کر رات بِتائی جا رہی ہے۔ آنکھیں کھولیے اور دیکھ لیجیے کہ جو لوگ پہلے ’کچھ اور پسند‘ تھے، (مثلاً ترقی وغیرہ) اب وہ کھلم کھلا ’منافقت پسند‘ ہو گئے ہیں۔ منافقت ہے کہ اب ایک آرٹ بنتی جارہی ہے۔ فنونِ لطیفہ میں جگہ پا رہی ہے۔ ان منافقت پسند لوگوں کو اپنی ’’بے وقت موت‘‘ کا بھی خیال نہیں آتا۔ خیر، چھوڑیے اس قصے کو۔ منافقت کے باب میں ایک نیا قصہ سنیے۔
پچھلے دنوں ایک فلمی اداکارہ نے اپنے ایک مجلاتی انٹرویو میں یہ سنسنی خیز انکشاف کیا: ’’مجھے منافقت اور ریاکاری سے شدید نفرت ہے، میری سب سے اچھی عادت یہ ہے کہ میں کبھی منافقت یا ریاکاری سے کام نہیں لیتی‘‘۔
یہ نیک بی بی اداکاری کرتے وقت کاہے سے کام لیتی ہے؟ پورا انٹر ویو پڑھ جانے کے باوجود ہمیں یہ نہیں معلوم ہوسکا۔تاہم ان نیک بی بی نے خود بتا یا: ’’میں آئندہ آٹھ دس فلموں میں ہیروئن کی حیثیت سے آرہی ہوں، اس سے قبل مختلف فلموں میں دوسری قسم کے مختلف کردار ادا کر چکی ہوں‘‘۔
ہمارے یہاں بڑے بڑے جید جاہل پڑے ہوئے ہیں۔ اکثر لوگ ’ریاکاری‘ کے لیے ’اداکاری‘ کا لفظ استعمال کر بیٹھتے ہیں۔ یہ لفظ بعض معنوں میں ’سیاست کاری‘ کے لیے بھی استعمال ہونے لگا ہے۔ ’ریاستی اداکار‘ (State Actors) اور ’غیر ریاستی اداکار‘ کی سیاسی اصطلاح اب عام ہوچکی ہے۔سو، جن محترمہ نے یہ انکشاف کیا ہے کہ اُن کی سب سے اچھی عادت یہ ہے کہ وہ کبھی منافقت یا ریاکاری سے کام نہیں لیتیں، اُنہوں نے ایک فلم میں ایک شخص کی زوجہ کا کردار ادا کیا تھا اور دوسری فلم میں دوسرے شخص کی داشتہ کا۔ ایک فلم میں طوائف بنی تھیں اور ایک فلم میں بی بی نیک پروین۔ ظاہر ہے کہ محولہ بالا کوئی بھی کردار ادا کرتے وقت اُنہوں نے اپنے اعلان بموجب منافقت یا ریاکاری سے کام نہیں لیا ہوگا۔ ہرکام پوری ’نیک نیتی‘ کے ساتھ اور بڑے خلوص سے کیا ہوگا۔ اس سے یہ نتیجہ نکلتا ہے کہ یہ تمام صفات اور صلاحیتیں اُن کی ذات میں بیک وقت موجود ہیں۔ ایسی متضاد صلاحیتوں کی مالکہ بلکہ ’ملکہ‘ کو کیا کہا جائے گا؟ اداکارہ یا ’سیاست کارہ‘۔ ہماری دُنیائے سیاست میں بھی ایسے بہت سے لوٹے اور لُٹیائیں موجود ہیں جنہیں ’منافقت اور ریاکاری سے نفرت ہے‘۔
اُن کا یہ انٹرویو ہم نے وطن عزیز کے جس ’بڑے اخبار‘ میں پڑھا ہے اُس نے ایک پورے صفحہ پر اُن کی مختلف انداز سے ہاتھ پاؤں پھیلائے، بیٹھے، لیٹے اور جھکے ہوئے اسٹائل میں چہار رنگی تصاویر کے ساتھ اُن کے ’اقوالِ زرّیں‘ کی سرخیاں جمائی ہیں۔ جس میں سے ایک سرخی یہ ہے کہ:
’’فلمی دُنیا سے مجھے عزت، دولت اور شہرت نصیب ہوئی ہے‘‘۔
ہوئی ہوگی۔ مگر مذکورہ بالا دنیا سے اُنہیں ’عزت‘ اور ’شہرت‘ نصیب کروانے میں مذکورہ اخبار کی دولت بھی خرچ ہوئی ہے، جس نے نہ صرف اُن کا جہازی سائز کا انٹرویو اپنے خرچ پر (یعنی بصرفِ زرِ کثیر) شائع کیا، بلکہ رنگا رنگ جمبو سائز تصاویر بھی۔ اگر وہ اپنا قصیدہ خود چھاپنے کا قصد کرتیں تو نہ جانے کتنا خرچہ آجاتا۔ کتنے جھنجھٹ پیش آتے۔ اس کے باوجود وہ اپنے اعلیٰ و ارفع خیالات سے قارئین کے اتنے بڑے حلقے کو جس میں مرد، عورتیں، لڑکے اور لڑکیاں شامل ہیں، نواز نہیں سکتی تھیں۔ اُنہیں اخباری دُنیا کا بھی شکر گزار ہونا چاہیے جس نے قارئین اور اشتہاری ایجنسیوں سے حاصل ہونے والی دولت کو، اپنی عزت و شہرت داؤ پر لگا کر، اُن کی ذاتی ’شہرت اور عزت‘ میں اضافہ کے لیے اُن پر نچھاور کردیا۔ نچھاور کرنے کو پنجابی زبان میں ’ویلیں‘ دینا کہتے ہیں۔ ’’ویلی دولت‘‘ جیسے آتی ہے، ویسے ہی چلی بھی جاتی ہے!۔