نئے انتخابات بھی مشتبہ

231

پاکستانی عوام کو پانچ سال بعد انتخاب کا موقع ملتا ہے کہاجاتا ہے کہ انہیں اپنی مرضی کے نمائندے منتخب کرنے کا موقع دیا جاتا ہے لیکن حالات بتارہے ہیں کہ انتخابات اسی پرانی ڈگر پر اسی پرانے نظام اور مشتبہ انتخابی فہرستوں کے مطابق ہوں گے اس حوالے سے بار بار مختلف حلقوں کی جانب سے نشان دہی کی جاچکی ہے لیکن الیکشن کمیشن کی وہی رفتار بے ڈھنگی، کسی معاملے کا فیصلہ ڈھنگ سے نہیں کیا۔ پہلے مردم شماری میں کراچی کی ڈھائی کروڑ کی آبادی میں سے ایک کروڑ لوگوں کو غائب کردیاگیا۔ شہری علاقوں کو دیہی بنادیاگیا۔ اب مردم شماری کے بعد انتخابی فہرستوں میں وہی بد انتظامی نظر آرہی ہے۔ اگر محض بد انتظامی ہو تو اس کی اصلاح کی جاسکتی ہے لیکن اب تو صاف نظر آرہاہے کہ حکومت اور الیکشن کمیشن کی ملی بھگت سے من پسند نتائج والے انتخابات منعقد کرائے جائیں گے۔ انتخابی فہرستوں اور مردم شماری میں ہم آہنگی نہ ہونے کی وجہ سے اکثر بلاکس میں آبادی اور ووٹر کا تناسب 100 فی صد ہے جب کہ سیکڑوں بلاکس میں یہ تناسب 20 فی صد سے بھی کم ہے۔ کیا سو فی صد والے علاقوں کے لوگ بہت تعلیم یافتہ با شعور اور جمہوری ہیں اور بقیہ علاقوں کے لوگ جاہل، جمہوریت سے نابلد اور عدم دلچسپی والے ہیں کہ اپنے ووٹ کا اندراج ہی نہیں کراتے۔حالانکہ پوش آبادی والے نہ تو انتخابی فہرستوں میں خود اندراج کراتے ہیں نہ ہی ووٹ ڈالنے کے لیے نکلتے ہیں۔ یہ تو پولنگ کے دن گھروں میں ہوتے ہیں۔ اچھی رائے رکھنے کے باوجود استعمال نہیں کرتے اور کچی آبادیوں اور متوسط طبقے والے ووٹ کے حوالے سے زیادہ متحرک ہوتے ہیں۔ لیکن انتخابی فہرستوں کو دیکھ کر تو صاف نظر آرہاہے کہ آنے والے انتخابات میں من پسند نتائج حاصل کرنے کی تیاری کی جاچکی ہے۔ افسوسناک امر یہ ہے کہ ایک طرف الیکشن کمیشن خود مختاری کے دعوے کررہاہے اور حکومت شفاف انتخابات کا لیکن دوسری طرف وہ ایسی انتخابی فہرستوں کی تیاری میں مشترکہ طور پر کام کررہے ہیں۔ اس بد نظمی یا سازش پر پردہ بھی اتفاق سے جماعت اسلامی ہی نے چاک کیا ہے۔ امیر جماعت اسلامی حافظ نعیم نے پریس کانفرنس کرکے کراچی کے درجنوں حلقوں کے بارے میں تفصیلات میڈیا کو پیش کیں۔ انہوں نے بتایاکہ جماعت نے نہ صرف الیکشن کمیشن کو بار بار ثبوت فراہم کیے بلکہ عدالت عظمیٰ کو بھی درخواست دی اور عدالت عظمیٰ کی جانب سے گھر گھر جاکر ووٹر لسٹوں کی تصدیق کا حکم دیاگیا لیکن الیکشن کمیشن نے ایسا نہیں کیا بلکہ حقیقت یہ ہے کہ الیکشن کمیشن ایسا کرنا نہیں چاہتا۔ یہ بات کسی سے ڈھکی چھپی نہیں کہ 2008ء اور 2013ء کے انتخابات میں انتخابی فہرستوں میں بے شمار جعلی اندراجات کیے گئے جو متحدہ اور حکومت نے مل جل کرکیے تھے الیکشن کمیشن کے بارے میں کہا جاتا ہے کہ وہ آزاد اور خود مختار ہے لیکن جب انتخابی عملہ سامنے آتا ہے تو صاف نظر آجاتا ہے کہ تمام لوگ سیکٹر اور یونٹ کے ہیں جعلی ملازم ہیں یا پرچی پر متعلقہ اداروں میں ملازم ہیں پھر شفاف انتخابات کہاں گئے۔ کیا پھر عدالت عظمیٰ سے نوٹس لینے کی اپیل کی جائے۔؟؟