پشتون تحفظ تحریک

306

نقیب اللہ محسود کے ماورائے عدالت قتل کے بعد احتجاج کے جو قرینے اختیار کیے گئے انہوں نے اب ایک تحریک کی شکل اختیار کرلی ہے۔ پشتون تحفظ تحریک۔ جنوبی وزیرستان سے تعلق رکھنے والے 62سالہ منظور پشتین اس تحریک کے سربراہ ہیں۔ پشتون تحفظ تحریک کو عوامی پزیرائی حاصل ہے جس کا ثبوت اس کی پشاور ریلی تھی جس میں عوام کی بڑی تعداد نے شرکت کی۔ پاکستانی میڈیا نے پشاور ریلی کا مکمل بائیکاٹ کیا تھا لیکن تمام اندازوں کے برخلاف عوام کی غیر معمولی شرکت نے اس تحریک کو موضوع بحث بنادیا۔ افغان صدر اشرف غنی کی جانب سے اس تحریک کی ستائش اور پاکستان کے چیف آف آرمی اسٹاف جنرل قمر جاوید باجوہ کی طرف سے اس تحریک کی منصوبہ بندی کو دشمنوں کی طرف منسوب کرنا اس تحریک کی اہمیت اور اس سے بڑھ کر حساسیت کی طرف اشارہ ہے۔ اشرف غنی کی جانب سے اس تحریک کے آغاز کو ایک تاریخی لمحہ کہنا اور ڈیورنڈ لائن کے دونوں طرف موجود پشتونوں کو اس مقدس جدوجہد میں حصہ لینے پر آمادہ کرنا شکوک کو جنم دیتا ہے۔ تحریک کی طرف سے افسوس ناک نعرہ ’’یہ جو دہشت گردی ہے اس کے پیچھے وردی ہے‘‘۔ اور جنرل قمر جاوید باجوہ کی جانب سے یہ کہنا کہ: ’’پشتون تحفظ تحریک ہائی برڈ جنگ کا ایک حصہ ہے جس کی منصوبہ بندی ہمارے دشمنوں نے کی ہے‘‘۔ اس تحریک کے غیر معمولی ہونے اور ساقی کے شراب میں کچھ ملانے کی طرف واضح اشارہ ہے۔ ساقی سے مراد امریکا، بھارت اور پاکستان دشمن قوتیں ہیں۔ امریکا نے افواج پاکستان اور قبائلی عوام کے درمیان موجود قدیم رشتے کو کمزور کرنے کی ہر ممکن کوشش کی ہے۔
پشتون تحفظ تحریک کے نام ہی سے یہ خیال جنم لیتا ہے جیسے پشتون پاکستان میں غیر محفوظ ہیں اور یہ تحریک اس صورت حال کے ردعمل میں وجود میں آئی ہے۔ جب کہ حقیقت میں ایسا نہیں ہے پشتون ملک کے تمام شہروں اور علاقوں کا واضح حصہ ہیں اور ملک بھر میں اپنی روزی کما رہے ہیں۔ باعزت۔ خیبر پختون خوا کے نظام میں پشتون سماجی، سیاسی، معاشرتی، کاروباری اور دفاعی ہر نظام کا متحرک اور غالب حصہ ہیں۔ کے پی کے اسمبلی پشتونوں کی نمائندہ ہے۔ وزارتیں بھی پنجابیوں کے پاس نہیں ہیں بلکہ وہ پشتونوں کے نمائندوں کے پاس ہی ہیں۔ کیا کے پی کے کا وزیراعلیٰ ایک پشتون نہیں ہے۔ محمود اچکزئی جن کا خاندان صوبے کی سیاست کا سب سے موثر حصہ اور اقتدار میں شریک ہیں کیا پشتون نہیں ہیں۔ پشتونوں کے تحفظ کو کسی جانب سے خطرہ درپیش ہے تو وہ پاکستان اور اس کی اسٹیبلشمنٹ نہیں بلکہ امریکا اور اس کے ایجنٹ ہیں جو ڈیورنڈ لائن کے دونوں طرف پشتونوں کو مارہے ہیں۔ امریکا افغانستان اور پاکستان میں دس لاکھ سے زاید پشتونوں کو شہید اور لاکھوں کو زخمی اور معذور کرچکا ہے۔ پشتون آج جن مصائب اور مشکلات کا شکار ہیں اس کی وجہ اسلام اور جہاد سے ان کی شدید محبت اور وابستگی ہے۔ انہوں نے افغانستان میں امریکی قبضے کو مسترد کیا ہے اور سختی سے مستردکیا ہے۔ اسلام اور جہاد سے اس محبت کی وجہ سے امریکا نے ان پر بے پناہ ظلم کیے ہیں۔ ان کا قتل عام کیا ہے۔ امریکا نے افغانستان اور پاکستان میں پشتونوں کا خون پانی کی طرح بہایا ہے لیکن پشتون تحفظ تحریک اس باب میں خاموش ہے۔
پشتون تحفظ تحریک یقیناًایک معاشرتی اور سیاسی تحریک اور نوجوانوں کی آواز ہے۔ اس میں بھی کوئی شک نہیں کہ یہ تحریک مظلوم اور پسے ہوئے لوگوں کے مسائل حل کرنے میں دلچسپی رکھتی ہے لیکن اس مقصد کے حصول کے لیے اس تحریک کو اپنا کینوس اور منظرنامہ وسیع کرنا پڑے گا۔ مثال کے طور پر لاپتا یا مسنگ پرسنز کا مسئلہ کسی ایک قوم کا مسئلہ نہیں ہے۔ اس مسئلے کی جڑیں بھی ’’دہشت گردی کے خلاف جنگ‘‘ یا وار آن ٹیرر سے جڑی ہیں۔ یہ صرف پشتونوں کا مسئلہ نہیں ہے۔ اس کا ہدف صرف پشتون نہیں ہیں۔ آمنہ مسعود جنجوعہ اور کئی دوسرے لوگ عرصے سے اس مسئلے کے حل کے لیے سرگرم ہیں۔ وہ یہ نہیں کہتے کہ لاپتا لوگ بے گناہ ہیں۔ ان کا مطالبہ صرف اتنا ہے کہ ان کے پیاروں کو عدالتوں کے سامنے پیش کیا جائے۔ ان کے بارے میں آگہی دی جائے۔ بتایا جائے کہ وہ کس حال میں ہیں۔ یہ ایک آئینی حق ہے۔ اس معاملے میں کوئی بڑی پیش رفت نہیں ہوئی۔ یہ وہ بھاری پتھر ہے جسے سب چوم کر چھوڑ دیتے ہیں۔ اسے صرف پشتونوں کا مسئلہ بنانا اس مسئلے کی سنگینی کو کم اور محدود کرنا ہے۔ پشتون تحفظ تحریک کو پورے پاکستان کے لاپتا افراد کو اپنے مطالبے کا حصہ بنانا چا ہیے۔
اسی طرح چیک پوسٹوں کا مسئلہ ہے۔ فوج جہاں جاتی ہے خواہ وہ اپنے ہی علاقے اور اپنے ہی لوگ ہوں یقیناًاس سے مسائل پیدا ہوتے ہیں۔ طاقت کا استعمال مسائل پیدا کرتا ہے۔ علاقہ کلئیر ہونے کے بعد یقیناًفوج کو ان علاقوں سے نکل جانا چاہیے۔ ان چیک پوسٹوں کا اختیار پولیس کے ہاتھ میں آجانا چا ہیے۔
اس معاملے میں بہرحال جو زیادتیاں ہیں ان کا ازالہ لازم ہے۔ ریاستی اداروں خصوصاً فوج کے لیے ضروری ہے کہ وہ ناراض لوگوں کے مسائل میں دلچسپی لے۔ انھیں حل کرے۔ اس سلسلے میں کچھ پیش رفت ہوئی ہے۔ فوج نے غیر ضروری چیک پوسٹیں خالی کی ہیں۔ یہ یقیناًخوش کن ہے۔
اس میں دو رائے نہیں ہوسکتیں کہ پشتون پاکستان کے انتہائی وفادار ہیں۔ کشمیر کے ایک حصے کو آزاد کرانے میں پشتونوں کا کردار مسلمانوں کی تاریخ کا ایک روشن حصہ ہے۔ منظور پشتین نے متعدد مواقع پر اعلان کیا ہے کہ ان کے مطالبات پاکستان کے آئین کے مطابق اپنا حل چاہتے ہیں۔ فاٹا کے معاملات میں یقیناًحکومت اور اداروں نے بے حسی کا ثبوت دیا ہے۔ وہاں سنگین انتظامی مسائل ہیں جنہیں دور کیا جانا چاہیے۔ بنیادی آئینی مراعات ملنا فاٹا کے لوگوں کا حق ہے۔ اسی طرح ماورائے آئین قتل وغارت کا معاملہ ایسا نہیں ہے جسے نظر انداز کیا جاسکے۔

لیکن اس تحریک کو یہ تمام جائز اور آئینی مطالبات قومی دھارے میں شامل ہوکر پیش کرنا چاہیے۔ لبرلز اور سیکولرز جن کی ڈوریاں مغرب سے ہلتی ہیں ان کی اس تحریک کے لیے وارفتگی شکوک کو جنم دیتی ہے۔ امریکا نے ڈرون حملوں کی بارش کردی، ہزاروں مدارس اور وہاں پڑھنے والے بچوں کو نشانہ بنایا لیکن اس کے باوجود پشتون تحفظ تحریک کی طرف سے یہ کہنا کہ ’’ڈرون حملے صحیح تھے اور ان سے صرف دہشت گردوں کو نشانہ بنایا جاتا تھا جب کہ پاک فوج عام شہری آبادی اور گھروں کو نشانہ بناتی ہے۔‘‘ یہ کہنا درست نہیں ہے۔ یہ سیکولر اور لبرلز کی لائنیں ہیں وہ سیکولر اور لبرلز جو وار آن ٹیرر کے مداح تھے۔ ان کی یکایک پشتونوں کے انسانی حقوق کے لیے دہائی دینا سازش کا پتا دیتی ہے۔ پشتون تحفظ تحریک کے غصے کا رخ درست جانب ہونا چاہیے۔
وار آن ٹیرر اور پاکستان اور امریکا کے اتحاد سے جنم لینے والی مسائل کے دکھ پشتونوں نے سب سے زیادہ اٹھائے ہیں۔ پشتون تحفظ تحریک کے بیش تر مطالبات جائز، آئینی اور بر حق ہیں۔ ان کا سنجیدگی سے جائزہ لینا چاہیے۔ ان مسائل کو حل کرنا چاہیے جنہیں اس تحریک نے آواز دی ہے۔ اس میں سب کا بھلا ہے۔ پاکستان کا بھلا ہے۔ پاکستان دشمنوں کو قطعاً یہ موقع نہیں ملنا چاہیے کہ وہ اس تحریک کو ہائی جیک کرسکیں۔ افغانستان پر قبضے کے بعد امریکا نے اس بات کا ادراک کیا کہ پاکستانی فوج اور قبائلی مسلمانوں کی ایک دوسرے سے محبت، اتحاد اور وفاداری خطے میں اس کے منصوبوں کی راہ میں سب سے بڑی رکاوٹ ہے۔ امریکا نے فتنے کی آگ بھڑ کا کر اس تعلق کو کمزور کرنے کی کوشش کی ہے۔ پشتون تحفظ تحریک بھی اگر اس تعلق کو کمزور کرتی ہے تو یہ نہ پشتونوں کی خدمت ہوگی اور نہ پاکستان کی بلکہ یہ امریکا سے وفاداری کا ثبوت ہوگا۔ یہ امریکا کی معاونت ہوگی۔ پاکستان کی افواج اور پشتون عوام کو متحد ہوکر امریکا کا مقابلہ کرنا ہوگا۔