پاکستان اور روس کے لیے سرد جنگ ایک ایسی تلخ اور بھیانک یاد رہی ہے جس کی قید اور حصار سے نکلنا قطعی آسان نہیں تھا مگر حالات، وقت اور اپنے اپنے بے وفاؤں نے اس مشکل کو دونوں کے لیے آسان بنا دیا ہے۔ پاکستان اور روس دونوں نے عالمی اور علاقائی معاملات میں اپنی پوزیشنیں تبدیل کی ہیں۔ روس نے افغانستان سے متعلق اپنی خاموشی کی پالیسی کو تبدیل کرکے امریکا مخالف لائن اختیار کی تو پاکستان نے امریکا سے فاصلہ پیدا کرکے بے دام اتحادی کا تاثر دور کیا۔ 2012 سے پاکستان اور روس ایک دوسرے کو مثبت اشارے دیتے رہے۔ وقت گزرنے اور خطے کی سیاست کے خدوخال واضح ہونے کے ساتھ ساتھ یہ اشارے نامہ وپیام اور آخرش کلام تک جا پہنچے۔ اس مشکل کو آسان بنانے میں چین کا پس پردہ کردار یقینی ہے۔ چین اور روس کے درمیان تعلقات میں بھلے سے گرم جوشی نہ رہی ہو مگر دونوں کے تعلقات میں کبھی خرابی بھی پیدا نہیں ہوئی۔ روس اور پاکستان اب ماضی کی ناخوش گوار یادوں کو بھلا کر قریب آرہے ہیں تو اس میں پاکستان کے ہمہ موسمی دوست چین کا کردار اہم ہے۔ کبھی روس کے ساتھ فاصلہ رکھنا پاکستان کی بقا کے لیے ضروری سمجھا جاتا تھا مگر آج پاکستان اور روس دفاعی اور تجارتی، ثقافتی، توانائی سمیت ہر شعبے میں تعاون کو فروغ دے رہے ہیں۔
پاک فوج کے سربراہ جنرل قمر جاوید باجوہ نے چند دن قبل روس کا اہم دورہ کیا۔ اس دورے سے پہلے قومی سلامتی کے مشیر جنرل ناصر جنجوعہ کی قیادت میں ایک وفد نے ماسکو کا دورہ کرکے پہلی بار بین الوزارتی مذاکرات اور معاہدات کیے ہیں۔ پاکستانی حکام کو اس دورے کی دعوت روس کی قومی سلامتی کے سیکرٹری نکولائی پیٹرو شیف نے دی تھی۔ وفد میں قومی سلامتی ڈویژن، وزارت دفاع، وزارت دفاعی پیداوار کے میجر جنرل سطح کے افسران، وزارت داخلہ اسپیس اینڈ پرایٹما سفیر ریسرچ کمیشن، سپارکو اور دیگر وزارتوں کے اعلیٰ عہدیدار شامل ہیں۔ ماسکو میں ہونے والے مذاکرات میں عالمی سطح پر بدلتی ہوئی صورت حال خصوصاً اس کے نتیجے میں سیکورٹی کو درپیش چینلجوں کے بارے میں تبادلہ خیال کیا گیا۔ اس کے بعد جنرل قمر جاوید باجوہ ماسکو پہنچے تو ان کا پرتپاک استقبال کیا گیا۔ انہیں گارڈ آف آنر پیش کیا گیا اور دونوں ملکوں کے قومی ترانوں کی دھنیں بجائی گئیں۔ آئی ایس پی آر کے مطابق آرمی چیف نے روس کے فوجی سربراہ سے ملاقات کی۔ روسی فوج کے سربراہ نے دہشت گردی کے خلاف جنگ میں پاک فوج کی قربانیوں کی تعریف کی۔ روسی کے فوجی سربراہ نے کہا کہ روس پاکستان کے ساتھ فوجی تعاون بڑھانے کا خواہاں ہے جب کہ آرمی چیف کا کہنا تھا کہ روس نے خطے کے پیچیدہ معاملات کو سلجھانے میں مثبت کردار ادا کیا ہے۔ روس اور پاکستان کے درمیان یہ فوجی اور بین الوزارتی سطح کے روابط کا پہلا کامیاب راونڈ ہے۔
آرمی چیف کا دورہ ماسکو ایسے وقت میں خاصی اہمیت کا حامل ہے جب دنیا ایک نئی سیاسی تقسیم اور تشکیل کی طرف تیزی سے بڑھ رہی ہے۔ یونی پولر دنیا کا فریب دو عشروں ہی میں اپنی اہمیت کھوچکا ہے اور دنیا دوبار ملٹی پولر بننے جا رہی ہے۔ ایک طرف مغربی بلاک ہے جس کی قیادت امریکا کر رہا ہے، دوسری طرف چین اور روس غیر محسوس طور پر ایک نئے بلاک کا نیوکلیس بن رہے ہیں۔ فوجی اور اقتصادی تقسیم بھی انہی خطوط پر ہورہی ہے۔ تنازعات کے آغاز اور وسعت بھی یہی تقسیم نمایاں کردار ادا کر رہی ہے۔ اس تقسیم کی سب سے دلچسپ بات یہ ہے کہ پاکستان اور بھارت جو جنوبی ایشیا کے دو روایتی حریف اور اہم ایٹمی ممالک ہیں اپنے مدار تبدیل کر رہے ہیں۔ بھارت اپنے روایتی حلیف روس کو چھوڑ کر امریکا کا لاڈلا بن چکا ہے اور عشروں تک امریکا کا ساتھ دینے والا پاکستان اب اسے الوداع کہہ کر دوسری جانب کھسک رہا ہے۔ پاکستان جوں جوں امریکا پر اپنا انحصار کم کر رہا ہے اسی رفتار سے وہ امریکی اثر رسوخ سے بھی آزاد ہورہا ہے۔ کچھ یہی معاملہ بھارت اور روس کے تعلقات کا بھی ہے۔ دونوں میں ابھی تک دفاعی اور اقتصادی تعلقات پوری طرح موجود ہیں مگر دونوں کے درمیان فاصلے بھی بڑھتے جا رہے ہیں۔ ایسے میں پاکستان اور روس کے تعلقات میں گہرائی اور وسعت آتی جا رہی ہے۔ پاکستان اور امریکا کے دفاعی اور تزویراتی تعلقات میں رکاوٹ ہی نہیں کٹاو اور خلیج کا عمل جاری ہے۔ دونوں ملکوں کے تعلقات کے سفر میں آرمی چیف کا دورہ ایک سنگ میل کی حیثیت کا حامل ہے۔ پاکستان کو اسی طرح بتدریج امریکا اور مغربی بلاک پر اپنا انحصار کم کرکے تجارت اور تعاون کے متبادل جہان اور امکان تلاش کرنے چاہیے۔ سرد جنگ کی پالیسی نے پاکستان کو زخموں کے سوا کچھ نہیں دیا۔عالمی کشمکش کے اس پورے دور میں پاکستان کمونزم کے خلاف فرنٹ لائن اسٹیٹ بنا رہا اور سیٹو اور سینٹو جیسے معاہدات میں مغربی بلاک کے ساتھ نتھی ہوتا رہا مگر مغربی بلاک کو جب اس معرکے میں کلی فتح ملی اور سوویت یونین کی شکست ریخت ہوئی تو اس بلاک نے پاکستان کو سینڈ بیگ بنا کر اپنا لہو گرمانے کی مشقیں شروع کر دیں۔ ایسے ناقابل اعتبار اتحادیوں کو الوداع نہ سہی مگر ان پر انحصار صفر کی سطح پر لایا جانا ضروری ہے۔