وہ دور محض ایک طَور نہیں، ایک طرزِ زندگی تھا

411

اِسکول سے نکل کر سندھ مسلم سائنس کالج پہنچے تو وہاں اسلامی جمعیت طلبہ ہم سے پہلے پہنچی ہوئی تھی۔ شہر کا مرکزی دفتر (واقع 23عبدالمالک شہید روڈ) بھی کالج سے قریب ہی تھا اور روزنامہ ’’جسارت‘‘ کراچی کا دفتر بھی زیادہ فاصلے پر نہیں تھا۔ لکھنا لکھانا تو اسکول کے زمانے ہی سے شروع ہوگیا تھا، اب تحریری اور تقریری سرگرمیوں کا دائرہ مزید وسیع ہوگیا۔یہ طالب علم اسلامی جمعیت طلبہ کے رہائشی حلقہ کا بھی کارکن تھا اور اب کالج یونٹ کا بھی کارکن بن گیا تھا۔ کالج کے ناظم راجا بشیر احمد تھے جو بین الاقوامی اسلامی یونیورسٹی میں کلیۂ شریعہ واسلامی قوانین کے پروفیسر کے عہدے سے ریٹائر ہوئے۔ (اللہ راجا صاحب کو اپنے جوارِ رحمت میں جگہ دے، وہ 26مارچ 2018ء کو اپنے آبائی شہر گوجر خان میں انتقال فرماگئے) دیگر ساتھیوں میں برادر عاصم علی قادری‘ محتشم علی قادری‘ منصور شیخ‘ فضل الرحمٰن‘ سہیل عالم الطاف (تسنیم عالم منظر شہید کے چھوٹے بھائی) نجم الدین سکندر‘ احمد سعد صدیقی اور بہت سے دوسرے تھے۔ کالج کی دُنیا ایک نئی دُنیا تھی۔ تقریری و تحریری مقابلوں‘ مباحثوں‘ یونین کے انتخابات‘ جلسوں‘ جلوسوں اور احتجاجی مظاہروں کی دُنیا۔ یہ بڑی ہماہمی اور شدید ہنگاموں کا دور تھا۔ مشرقی پاکستان اب بنگلا دیش بن چکا تھا۔ بنگلا دیش نامنظور تحریک چل کر ناکام ہوچکی تھی۔ اسلامی جمعیت طلبہ پر مشتمل پنجاب یونیورسٹی طلبہ یونین کے صدر جاوید ہاشمی قومی ہیرو بن چکے تھے۔ شملہ معاہدہ ہوگیا تھا۔ اب محب وطن پاکستانی جو بنگلا دیش میں محصور ہوکر رہ گئے تھے اُن کی واپسی کے لیے تحریک چلنے لگی۔
جمعیت کا دور محض ایک دور نہیں تھا، جمعیت میں شامل ہوجانا محض ایک طور نہیں تھا، یہ ایک طرزِ زندگی تھا۔ صبح سے رات تک بس ایک ہی نصب العین کے حصول کے لیے زندگی وقف کردینا۔ کہیں درسِ قرآن ہورہا ہے‘ کہیں تربیتی نشستیں برپاکی جارہی ہیں‘ کہیں شب بیداریاں ہورہی ہیں اور کہیں مذاکرے اور سیمینار۔ مگر ایک ہی دُھن کا سودا سب کے سر میں سمایا ہوا ہے کہ کسی طرح دینِ حق کی دعوت طالب علم برادری کے ایک ایک فرد تک بالعموم اور ہر باصلاحیت طالب علم تک بالخصوص پہنچ جائے۔ اسلامی نظامِ تعلیم کے نفاذ کی جدوجہد کامیابی سے ہم کنار ہوجائے۔ سو اس دُھن کو پورا کرنے کے لیے ایک خاص طریقہ اختیار کیا جاتا تھا۔ طریقہ یہ تھا کہ مساجد‘ محلوں‘ تعلیمی اداروں کے شعبہ جات اور تحریک کے محلہ جاتی دفاتِر کی سطح پر چھوٹے چھوٹے اجتماعات منعقد کیے جاتے۔ اِن تمام اجتماعات میں تحریک کی دعوت پیش کی جاتی۔ ہر طالب علم کو اُس کے اُمّتِ وَسَط کا ایک فرد ہونے کا احساس دِلایا جاتا۔ فریضۂ شہادتِ حق ادا کرنے کی یاد دِہانی کرائی جاتی۔ اور فریضۂ اقامتِ دین کی ادائی کے لیے اُٹھ کھڑے ہونے کا ایک ولولۂ تازہ اُبھارا جاتا۔ جو طلبہ اِس شہادت گہہِ اُلفت میں قدم رکھنے پر آمادہ وتیار ہوتے تحریک کے کارکنان اُن کو اپنے خصوصی ربط میں لے لیتے۔ اب ایک ایسا ہمہ گیر تربیتی پروگرام شروع ہوجاتا جس سے ’’انسانی زندگی کی تعمیر‘‘ کا آغاز ہوجاتا۔ یوں تعمیرِ سیرت کے ذریعہ سے ہر ’’نوجواں مُسلم‘‘ کے روزمرہ میں انقلاب تو وہیں برپا ہوجاتا۔ کیوں کہ انفرادی طور پر تلاوت اور مطالعۂ تفسیر کا عمل اُس کے معمولات میں شامل ہو جاتا۔ اجتماعی طور پر درسِ قرآن کا حصول بھی ایک معمول بن جاتا۔ اِسی طرح انفرادی مطالعۂ احادیثِ نبویؐ اور اجتماعی طور پر محافلِ درسِ حدیث میں شرکت بھی وظیفۂ حیات بن جاتا۔ ذخیرۂ کُتبِ اسلامی سے فرداً فرداً اکتساب اور تربیتی نشستوں میں اِسلامی طرزِ زندگی کے مختلف موضوعات پر دیے جانے والے خطبات سے اجتماعی استفادہ بھی معمول کی سرگرمی تھی۔ ذراان خطبات کے موضوعات کی بھی ایک جھلک ملاحظہ فرما لیجیے۔ آفاتِ لسان۔ خاصانِ خدا کا خوفِ آخرت۔ حقیقتِ نفاق، انفاق فی سبیل اللہ۔ مسلمانوں کے روز وشب۔ اعلائے کلمۃ الحق۔ باہمی تعلقات۔ داعی کی صفات اور انقلابِ نبویؐ کا منہج وغیرہ وغیرہ۔ کارکنان کا جو تنظیمی اجتماع ہوتا اُن میں اپنی اپنی ذاتی زندگی کی مصروفیات کی رپورٹ پیش کی جاتی۔ نماز‘ تلاوتِ قرآنِ پاک، مطالعۂ حدیث اور مطالعۂ درسی کُتب وغیرہ میں کوئی کمی رہ جاتی تو ایک دوسرے کو اس کا بڑی دِل سوزی اور درد مندی سے احساس دِلایا جاتا۔ دعوتی سرگرمیوں اور ان میں پیش رفت کی رپورٹ پیش کی جاتی۔ جائزہ لیا جاتا۔ احتساب کیا جاتا اور مستقبل کی منصوبہ سازی ہوتی۔ تو یہ تھیں وہ سرگرمیاں‘ جنہیں ہم معاشرے میں انقلاب برپا کردینے والی سرگرمیاں سمجھا کرتے تھے۔ انھی کے باعث جمعیت کے کارکنان دیگر طلبہ سے ممتاز اور منفرد نظر آتے تھے‘ حتیٰ کہ شکلوں سے بھی پہچانے جاتے تھے۔
معاشرے کی بنیادی سطح پر ہونے والی والی یہی سرگرمیاں شہر کی سطح پر بھی سرانجام دی جاتیں۔ ضلع کی سطح پر بھی‘ صوبہ کی سطح پر بھی‘ اور بالآخر ملک گیر سطح پر بھی۔ جمعیت کی دعوت کا آغاز ہوا تھا تو ملک اُس وقت خیبر سے راس کُماری تک پھیلا ہوا تھا۔ توسیعِ دعوت کے تسلسل کے باعث چراغ سے چراغ جلتا رہا۔ ہاتھ سے ہاتھ مِلتا اور یکجان ہزار قالب رکھنے والا ایک ایسا کارواں تشکیل پاجاتا‘ جس کی بابت ہمارا دعویٰ تھا (اور یہ دعویٰ تجربہ سے درست بھی پایا گیا) کہ سندھ سے سلہٹ تک آپ تحریک کے ہر کارکن سے ایک ہی سوال پوچھ کر دیکھ لیجیے‘ جواب میں زبان، الفاظ اور لہجے کے فرق کے سوا کوئی فرق نہیں ہوگا۔ مفہوم سب کا ایک ہی ہوگا۔
اُنھی دِنوں میں ایک دِن ایسا بھی آیا کہ ایک طے شدہ مسئلہ پر قوم کو پھر سے ایک نئی بحث میں اُلجھا دیا گیا تھا۔ بحث اِس بات پر ہورہی تھی کہ: ’’یہ ملک کس لیے حاصل کیا گیا ہے؟‘‘ نیا نقطۂ نظر یہ تھا کہ: ’’صرف معاشی مفادات کے حصول کی خاطر!‘‘ (ایسی بحثوں میں تو آج بھی الجھایا جارہا ہے) شائستگانِ ہوش میں وحشت کی بات تھی۔ سو اُن کے مقابلہ میں اِس کم سِن طالب علم اور اسلامی جمعیت طلبہ کے اِس کارکن نے بحث بازوں کو بحث میں مصروف چھوڑا۔ خود پاکستان ٹیلی وژن کارپوریشن کراچی مرکز کی عمارت سے باہر نکل کر برابر ہی میں واقع سفید اور گُلابی رنگ کی خُوب صورت عمارت میں داخل ہو گیا اور لیاقت میموریل لائبریری کے ’’شعبہ میعادی مطبوعات‘‘ (Periodical Section) میں جاپہنچا۔ قدیم اخبارات کی ورق گردانی میں مصروف ہوا تو ماضی کی تلاش کا یہ سفر بہت اچھا لگا۔ پڑھتے پڑھتے ایک چھوٹی سی خبر پر نظر پڑی جو اُسی سَن (یعنی سن 1976ء) کی ’’لیل و نہار‘‘ ڈائری میں حوالہ کے ساتھ نوٹ کرلی گئی:
’’لندن۔ ( 9فروری)۔ مسٹر جان پرائس نے، جو تیئس برس تک مشرقِ وسطیٰ میں رہے ہیں، ایک بیان میں کہا ہے کہ صرف اِسلام ہی کمیونزم کا مقابلہ کرنے کی صلاحیت رکھتا ہے، اور اِس تحریک کی کامیابی سے قیادت کے لیے پاکستان سب سے موزوں ملک ہے‘‘۔ (روزنامہ ’’جنگ‘‘ کراچی۔ 12 فروری 1951ء)

موزونیت کی اِس پیش گوئی کے پچیس برس بعد یہ قول ڈائری پر نوٹ کیا گیا تھا۔ پیش گوئی کے ٹھیک سینتیس برس بعد یہ قول صادق بھی آگیا۔ 1988ء میں کمیونزم کے پرخچے اُڑ گئے اور پاکستان کی قیادت میں برپا ہونے والے جہادِ افغانستان نے، گوادر کے ساحلوں تک پہنچنے کی آرزو مند، دُنیا کی سب سے بڑی کمیونسٹ طاقت کو 1989ء میں، آدھے رستے، افغانستان ہی سے، ایسی شکستہ حالت میں واپس بھاگنے پر مجبور کیا کہ دیکھتے ہی دیکھتے اُس کے ٹکڑے بکھر گئے۔ پاکستان نے اِس تحریک کی کامیابی سے قیادت کی۔ اِ س کامیابی نے دُنیا کی دیگر تمام استعماری طاقتوں کے کان وغیرہ کھڑے کردیے۔ سب نے جان لیا کہ ۔۔۔ ’’مزدکیت‘‘ فتنۂ فردا نہیں، ’’اسلام‘‘ ہے۔
جس تحریک کی کامیابی سے قیادت کے لیے، پاکستان کو سب سے موزوں ملک قرار دیا گیا تھا، اُس تحریک کے قائد بیسویں صدی میں ملتِ اسلامیہ کے بطلِ جلیل مولانا سید ابوالاعلیٰ مودودیؒ تھے۔ اُس دور میں جب ایک تہائی دُنیا کیمونسٹ سامراج کے زیرِ اثر تھی اور باقی دوتہائی دُنیا اُس کے حریف سرمایہ دارانہ استعمار کے زیرِاثر۔ توایسے میں مولانا مودودیؒ نے اسلام کو اِن دونوں نظریات کے مقابلہ میں انتہائی طاقتور نظام کی حیثیت سے پیش کیا اور نہ صرف وطنِ عزیز اسلامی جمہوریہ پاکستان میں ایک پوری کی پوری نسل میں ذہنی، فکری اور نظری انقلاب برپا کرڈالا، بلکہ عالمِ اِسلام اور غیراِسلامی دُنیا کے مسلمانوں، بالخصوص نوجوانوں میں بیداری کی ایک نئی لہر دوڑادی۔ بیداری کی یہی لہر تھی جس نے مراکش سے اراکان تک کے مسلمانوں ہی میں نہیں، برطانیہ، کنیڈا اور امریکا وغیرہ وغیرہ کے نومسلموں میں بھی کمیونزم کی جارحیت سے جنم لینے والے ’’جہادِ افغانستان‘‘ میں جوش وخروش سے شرکت کا جذبہ اُبھارا۔
جس زمانے میں لیاقت نیشنل لائبریری کے محافظ خانے (Archives) میں بیٹھے ہوئے طالب علم کو اخباری نوادرات کی ’ٹائم مشین‘ ماضی کی گنجان اور گنجلک گلیوں کی سیر کروا رہی تھی، اُس زمانے میں ہمارے ملک پر، ہمارے ملک کے، بلکہ شاید دُنیا کے سب سے پہلے سویلین چیف مارشل لا ایڈمنسٹریٹر کی نافذکردہ ’’عوامی جمہوریت‘‘ مسلط تھی۔ ’’فکس اپ‘‘ کردینے کی دھمکیاں، گرفتاریاں، قیدوبند، لاٹھیاں، گولیاں، اخبارات کی بندش اور پیپلز گارڈ کی کھلم کھلا غنڈہ گردیاں اِس جمہوریت کی طرف سے ملک و قوم کو ملنے والا عوامی تحفہ تھیں۔
یہ لوگ عوام کو ’’روٹی، کپڑا اورمکان‘‘ دینے کا وعدہ کرکے (بادشاہ گروں کی مدد سے) برسر اقتدار آئے تھے۔ کہتے تھے کہ ہم سوشلسٹ انقلاب لائیں گے اور ہر پُرانی عمارت کو ڈھاکر نئی عمارت بنائیں گے۔
مگر جب اُنہیں مُنہ مانگا اقتدار مل گیا تو عوام کے کھانے کو گولی، پہننے کو کفن اور رہنے کو وہ دوگز زمین دی جانے لگی جو کوئے یار میں نہ ملنے پر بہادر شاہ ظفر جیسے بادشاہ بھی اپنے آپ کو بدنصیب قرار دیتے تھے۔ اُن شہداء کو یقیناً’’خوش نصیبی‘‘ کے منصب پر فائز کیا گیا تھا، جن کی قبروں کی موجودگی کے باعث ہمارے کئی چوراہوں کا نام ’’شہید چوک‘‘ پڑ گیا۔ جو’’انقلاب‘‘ لایا گیا وہ تو لوگوں نے بھگت ہی لیا۔ مگر ایک وعدہ بہرحال اُنہوں نے پورا کردیا۔ نجی تعلیمی، تجارتی اور صنعتی اداروں کی پُرانی عمارتیں سب ڈھادیں، اور نئی عمارت کے طورپر کلفٹن کے ساحل پر ایشیا کا سب سے بڑا جوا خانہ + قحبہ خانہ Casino = تعمیر کیا جانے لگا۔
جمہوری آزادیوں کا یہ حال تھا کہ بقول پروفیسر غفور احمد مرحوم حکمراں پیپلز پارٹی سمیت کسی سیاسی جماعت کو جمہوری سرگرمیوں کی اجازت نہ تھی۔ جلوس نکالنے کی آزادی تھی، نہ جلسہ کرنے کی۔ یہ تمام جمہوری حقوق صرف بحقِ ’’وزیرِ اعظم‘‘ محفوظ تھے۔ پارٹی کے نہیں صرف پرائم منسٹر کے جلسے ہوتے تھے۔ باقی سب کے، سب حقوق معطل تھے۔
تنگ آکر طالبِ علم نے شاعری کرنے کا حق استعمال کرنا شروع کر دیا۔ ’’عوامی حکومت‘‘ کی ہوسِ اقتدار سے جنم لینے والے ’’نئے پاکستان‘‘ کے ’’عہدِنو‘‘ کی شان میں قصیدے لکھنے لگا۔ یہ نظمیں جمعیت کے اجتماعات میں پڑھی گئیں‘ اور جمعیت کے جرائد میں شائع ہوئیں: ’’یہ حبس کیسا ہے جسم وجاں پر؟ یہ بندشیں آہ پر، فغاں پر، جوان فکروں پہ قید طاری، یہ ظلم سے تپتا سرخ سایہ، تڑپ، کسک، گریہ، آہ وزاری، یہی تو اِس’عہدِ نو‘ سے پایا ۔۔۔‘‘ وغیرہ وغیرہ! مگر ظلم و جبر کے گھپ اندھیاروں میں جوان فکروں کو مولانا سید ابوالاعلیٰ مودودیؒ کی فکری رہنمائی کی قندیل میسر آگئی۔ کراچی سے خیبر تک تمام تعلیمی اِدارے جمعیت کے نُور سے جگمگا اُٹھے۔ جب پورے ملک کی ۔۔۔ ’’فضا میں پھیل چلی میری بات کی خُوشبو‘‘ ۔۔۔ تو حکمران چونکے اور اسلامی جمعیت طلبہ کی سرگرمیاں جو مدارس میں، کلیات میں، جامعات میں، مساجد میں، محلّوں میں اور گھروں میں جاری وساری تھیں ۔۔۔ اُن کو روکنے کو دوڑ پڑے۔ (آج بھی روکی جاتی ہیں)۔ سکھر میں ہونے والی صوبائی تربیتی کا نفرنس پر پولیس نے اُس وقت دھاوا بول دیا، جب صوبے بھر سے آئے ہوئے سیکڑوں نوجوان بڑے نظم و ضبط کے ساتھ اجتماع گاہ میں بیٹھے افتتاحی پروگرام،یعنیدرسِ قرآن سُن رہے تھے۔ ڈائری میں لیے ہوئے نوٹس کے مطابق اُن سے کہا جا رہا تھا:
’’موت دراصل ایک دروازہ ہے جس سے گزر کر ہم اگلی دُنیا میں قدم رکھتے ہیں۔ موت فنا کا نام نہیں۔ موت کا مطلب مِٹ جانا نہیں۔ در حقیقت ابدی زندگی کا ایک ہی دروازہ ہے: ’’موت‘‘۔ اس سے گزرے بغیر چارہ نہیں‘‘۔
بے چارے حکمرانوں کو اُس وقت تک شاید اس دروازے کی موجودگی کا احساس ہی نہیں تھا، جس سے گزرے بغیر چارہ نہیں۔ اور جس سے وہ بہر حال گزر کر رہے۔ سو، یہ صوبائی تربیتی کانفرنس بزورِ طاقت اُلٹ دی گئی۔
اُس افتتاحی پروگرام کے مُدرّسِ قرآن اور اسلامی جمعیت طلبہ پاکستان کے سابق ناظمِ اعلیٰ شیخ محبوب علی مرحوم نے، سب کچھ دیکھتے ہی دیکھتے تلپٹ ہوجانے کے بعد اُس روز اپنے دِل گرفتہ کارکن کی ڈائری میں، 6فروری 1976ء کے صفحہ پر ایک نصیحت بھری بشارت لکھ کر اپنے دستخط ثبت کردیے: ’’صبر کامیابی کی کلید ہے‘‘۔
سو ہم نے مضبوطی کے ساتھ ’’کامیابی کی کلید‘‘ کو تھام لیا اور کسی قسم کا کوئی احتجاج کیے بغیر اپنے اپنے گھروں کو روانہ ہوگئے۔ اپنے اپنے مقام پر پہنچ کر پھر سے اللہ اور اُس کے رسول (صلی اللہ علیہ وسلم) کے بتائے ہوئے طریقوں کے مطابق انسانی زندگی کی تعمیر کے ذریعہ سے رضائے الٰہی کے حصول کی کوششوں میں منہمک ہوگئے۔۔۔ یہ داستان تو بہت لمبی ہے۔ مگر کون سنے اور کس کو سنائیں؟