مسلم لیگ نوازکی وفاقی اور پیپلزپارٹی کی سندھ حکومت سے گزشتہ پانچ سال کے دوران جو غلطیاں سرزد ہوئیں ہیں، ان کا وہ ایک ماہ کے اندر یعنی اسمبلیوں کی مدت ختم ہونے سے قبل ازالہ کرنا چاہتی ہیں۔ اگرچہ یہ ممکن نہیں ہے لیکن لگتا ہے کہ دونوں جماعتیں، اپنی اپنی حکومتوں کی کارکردگی دکھانے کے لیے جنگی اقدامات کرنے لگی ہیں۔ اس امید کے ساتھ کے وہ عوام کو ووٹ دینے کے لیے اپنی جانب راغب کرلیں گے۔
وفاقی حکومت کی طرف سے جمعہ کو بجٹ کے اعلان کے بعد سندھ حکومت نے بھی 5مئی کو صوبائی بجٹ پیش کرنے کا اعلان کردیا۔ حالاں کہ مسلم لیگ ن کی طرف سے 27 اپریل کو وفاقی بجٹ پیش کرنے پر پیپلز پارٹی کے چیئرمین بلاول زرداری نے خود اسے آئندہ منتخب ہونے والی حکومت کا حق چھننے کے مساوی قرار دیا تھا۔ وفاقی حکومت نے اپنی مدت ختم ہونے سے محض ایک ماہ قبل مالی سال 2018-19 کا متنازع بجٹ پیش کرکے ایک نئے باب کا اضافہ کیا ہے۔ اور سندھ کی پی پی پی کی حکومت کو بھی ایسا کرنے پر ’’مجبور‘‘ کیا۔ وفاقی بجٹ قومی اسمبلی کے اجلاس سے ایک گھنٹہ قبل وفاقی وزیر خزانہ کا قلم دان سنبھالنے والے مفتاح اسمٰعیل نے پیش کیا۔ اس لیے بھی بجٹ اس لحاظ سے متنازع ہے کہ اسے ایک ایسے غیر منتخب وفاقی وزیر خزانہ نے پیش کیا جو قومی اسمبلی یا سینیٹ کا منتخب رکن نہیں ہیں۔
وزیراعظم شاہد خاقان عباسی نے بجٹ اعلان سے قبل قومی اسمبلی میں تقریر کرتے ہوئے حالیہ بجٹ کو سب سے اچھا بجٹ قرار دیا۔ جس پر پیپلز پارٹی کے رہنما اور قومی اسمبلی میں اپوزیش لیڈر خورشید شاہ نے ’’سب سے اچھا بجٹ‘‘ کے الفاظ پر اعتراض کیا اور کہا کہ وزیراعظم خاقان عباسی، نوازشریف کا خیال کریں۔ انہوں نے وزیراعظم سے سوال کیا کہ نواز شریف کی حکومت کے باقی 5 بجٹ اچھے نہیں تھے؟ خورشید شاہ نے یہ بھی کہا کہ: ’’اس حکومت کو سال بھر کا بجٹ پیش کرکے اگلی حکومت کے بجٹ بنانے اور اس پیش کرنے کا حق نہیں چھینا چاہیے تھا‘‘۔ لیکن چند گھنٹے بعد ہی سندھ کے وزیراطلاعات و ٹرانسپورٹ ناصر حسین شاہ نے کہا ہے کہ ’’4مئی کو بجٹ ہم پیش کریں گے تاہم اسے خرچ آنے والی حکومت کرے گی‘‘۔ ادھر وزیراعظم شاہد خاقان عباسی قومی اسمبلی میں بجٹ اجلاس سے خطاب کرتے ہوئے واضح کیا ہے کہ بدقسمتی سے اگر اگلی حکومت کسی اپوزیشن جماعت کی آگئی تو وہ بے شک بجٹ میں ردوبدل کرسکتی ہے۔ انہوں نے کہا کہ ’’تاریخی ریلیف پر اپوزیشن کو تکلیف ہورہی ہے، 4ماہ بعد بھی ن لیگ کی حکومت ہی آئے گی، ملک کا نظام چلتا رہے اس لیے سال کا بجٹ پیش کیا جارہا ہے‘‘۔
بجٹ اجلاس سے خطاب کرتے ہوئے قومی اسمبلی میں قائد حزب اختلاف سید خورشید شاہ نے کہا ہے کہ حکومت کو کسی طور پر 4 ماہ سے زیادہ کا بجٹ پیش نہیں کرنا چاہیے، 4 مہینے کے بجٹ کے معاملے پر تمام اپوزیشن متفق ہے، حکومت ایک سال کا بجٹ پیش کر کے نئی روایت ڈال رہی ہے۔ اپوزیشن لیڈرنے مزید کہا کہ آئین کے آرٹیکل 91 کی غلط تشریح کر کے اس شخص کو وزارت کا حلف دلایا گیا جس کا پارلیمنٹ سے کوئی تعلق نہیں۔ انہوں نے کہا کہ مفتاح اسماعیل کو وزیر بناکر ووٹ کے تقدس کو پامال کیا گیا ہے۔
وفاقی حکومت نے بجٹ پیش کرکے اپنے دور کی تکمیل کا اسکور پورا کرنے کی کوشش کے ساتھ پانچ سالہ دور میں پانچ کے بجائے چھ بجٹ پیش کرنے کا بھی اعزاز حاصل کیا ہے۔ موجودہ حکومت اگرچہ مسلم لیگ نواز کی ہے لیکن نااہل و سابق وزیراعظم نے دو روز پہلے کہا تھا کہ ’’اب ملک میں جمہوریت نہیں بلکہ جوڈیشل مارشل لا ہے‘‘۔ خیال ہے کہ اگر کوئی بھی شخص اس بجٹ کے خلاف عدالت سے رجوع کرے گا تو اسے کالعدم بھی قراردیا جاسکتا ہے۔ ممکن ہے کہ اس بجٹ کو نگراں حکومت بھی اسے کالعدم قراردے سکتی ہے۔ ایسا لگتا ہے کہ حکومت کو یقین ہے کہ آئندہ بھی وہی اقتدار میں آئیں گے۔ مبصرین کا کہنا ہے کہ حکومت کی مدت ختم ہونے کے قریب بجٹ پیش کیا جانا دراصل دوبارہ منتخب ہونے کی خواہش رکھ کر نئے انتخابات میں کامیابی کے لیے ’’ہوم ورک‘‘ کرلینا ہے۔
اگر ہم غور کریں تو اندازہ ہوگا کہ یہ بجٹ قبل از وقت پیش کرنے کے پیچھے ’’آئی ایم ایف‘‘ ہے۔ یہ بات بہت یقین سے بھی کہی جاسکتی ہے۔ اس لیے کہ بجٹ پیش کرنے والے غیر منتخب مفتاح اسمٰعیل دراصل انٹر نیشنل مانیٹرنگ فنڈ (آئی ایم ایف) سے آئے ہیں۔ وہ 1990 سے 1993 تک اس ادارہ سے وابستہ رہے۔ 2011 میں مسلم لیگ نواز میں شمولیت اختیار کرکے سیاست میں آئے اور محض ایک سال بعد ہی پنجاب بورڈ آف انوسٹمنٹ اینڈ ٹریڈ کے وائس چیئرمین بن گئے اس عہدے پر وہ 2013 تک رہے۔ گزشتہ انتخابات کے موقع پر وہ مسلم لیگ کی انتخابی و حکمت عملی ٹیم کا حصہ رہے اور پنجاب اور اسلام آباد ہی میں رہے۔ انتخابات میں مسلم لیگ کی کامیابی کے بعد پاکستان انٹرنیشنل ائرلائن اور سوئی سدرن گیس کمپنی کے بورڈ آف ڈائریکٹرز کے رکن رہے۔ بیک وقت دو اہم ترین اداروں کے بورڈ میں شامل ہوکر وہ کیا کچھ کرتے رہے اس کا اندازہ دونوں اداروں کے مالی حالات سے لگایا جاسکتا ہے۔ 2014 میں مسلم لیگ کی حکومت نے فیڈرل بورڈ آف انوسٹمنٹ کا سربراہ بنادیا گیا۔ بورڈ میں انہوں نے جو کچھ کارکردگی دکھائی اس کے نتیجے میں انہیں دسمبر 2017 میں نئے وزیراعظم شاہد خاقان عباسی کا مشیر مالیات بنادیا گیا اور بجٹ پیش کرنے سے قبل انہیں وفاقی وزیر خزانہ کا قلم دان دے دیا گیا۔ مفتاح اسمٰعیل کراچی امریکن اسکول کے چیئرمین بورڈ بھی رہے۔ سمجھنے کی بات یہ ہے کہ مفتاح اسمٰعیل اصل میں ’’آدمی‘‘ کس کے ہیں۔ وزیراعظم شاہد خاقان عباسی یا آئی ایم ایف کے۔؟
مجھے نہیں لگتا کہ مفتاح اسمٰعیل کی خدمات کا سلسلہ جلد ختم ہوجائے گا۔ بلکہ یقین ہے کہ اگر عام انتخابات میں نواز شریف کی حکومت دوبارہ منتخب ہوکر آگئی تو یہ آئندہ کے ملک کے وزیر خزانہ یا وزیراعظم بھی ہوسکتے ہیں۔ ویسے مفتاح اسمٰعیل کو مشورہ ہے کہ وہ کراچی کی نشست کے ساتھ اسلام آباد یا لاہور کی کسی پکی سیٹ سے بھی انتخاب لڑیں کیوں کہ کراچی سے ان کی کامیابی تھوڑی مشکل نظر آرہی ہے۔