عوام کا شعور بلند کیا ہے یا فشارِ خون؟ 

361

دلیل کی طاقت ہاتھ سے جاتی رہے تو ’ہاتھ کی طاقت‘ کو دلیل بنالیا جاتا ہے۔ ’ہاتھا پائی‘ سے فریقِ مخالف کو قائل یا لاجواب کرنے کی کوشش کی جاتی ہے۔ یہ منظر آپ نے پارلیمانی مباحث میں بھی دیکھا ہوگا اور ’چینلی مناظر‘ میں بھی۔ مگر آج کل تو ہمارے پورے وطن میں بحث جیتنے کا بس ایک یہی (ثانی الذکر) ذریعہ رہ گیا ہے۔ جدھر دیکھیے اُدھر ’وقار کے تحفظ‘ کے لیے دھڑا دھڑ (اور ایک دوسرے کو تڑا تڑ) ہاتھ پاؤں مارے جارہے ہیں۔ گولیاں چل رہی ہیں۔۔۔ قولاً بھی اور عملاً بھی، عدداً بھی اور وزناً بھی اصالتاً بھی اور وکالتاً بھی الغرض ہر طرف ’ہاتھا‘ بھی ہورہی ہے اور ’پائی‘ بھی۔ ’وقار‘ بے چارے کا تو کچومر نکل گیا ہے۔ وہ چاروں جانب بھاگ بھاگ کر ’آن‘ کی جگہ ’جان‘ بچانے کی کوشش کر رہاہے اور کہہ رہا ہے:
’’بخشو صاحب، باز آئے ہم ۔۔۔ اچھی تم نے حفاظت کی‘‘۔
مثلاً جب لاپتا افراد کے لواحقین اسلام آبا د کے ’ڈی چوک‘ پر بس اتنا ہی پوچھنے آتے ہیں کہ اُن کے پیارے کہاں گئے؟ اور کسی ’صاحب اختیار، کسی ’صاحب اقتدار‘ کے پاس اس سوال کا کوئی معقول اور مدلل جواب نہیں تو’لاجوابوں‘ کی طرف سے پولیس اُن پر ہلّہ بول دیتی ہے۔ سب کے سب اپنا پوچھا ہوا سوال بھول بھال کر اس فکر میں پڑجاتے ہیں کہ ۔۔۔ ’’کھاؤں کدھر کی چوٹ؟ بچاؤں کدھر کی چوٹ؟‘‘ ’ہلّہ‘ بس محاورتاً ہی ’بولا‘ جاتا ہے۔ عملاً اس کا ’بول چال‘ سے کوئی تعلق نہیں، اور فعلاً یہ ’ہاتھا پائی‘ ہی کا سرکاری نام ہے۔ جسمانی تشدد، لاٹھی چارج اور آنسو گیس کی شیلنگ کے سوا،لوگوں کے کسی سوال کا کوئی جواب (اور خاص طور پر کوئی معقول جواب) ہماری حکومت کے پاس ہوتا ہے نہ ’’منتخب‘‘ پارلیمنٹ کے پاس۔ پھر مارپیٹ اور ہاتھا پائی کے بعد، جو مارپیٹ اور ہاتھا پائی کی انکوائری کا حکم دے دیا جاتاہے، اُس کا بھی جواب نہیں۔ بقول عامرؔ عثمانی:
میری تازہ لاش پہ عامرؔ دُنیا نے جب شور مچایا
وہ اِک سمت اِشارہ کر کے، خود بھی چیخے ’قاتل، قاتل‘
(کیا پولیس اور بالخصوص ’پولیسنیاں‘ اپنے طور پر، کسی قسم کے ’اوپر کے آرڈر‘ کے بغیر ہلّہ بول سکتی ہیں؟ آخر انکوائری میں وہ کیا کہیں گی؟ اور اپنے خلاف انکوائری کا حکم صادر کیے جانے پر کیا کہیں گی؟ یہی نا کہ ۔۔۔ ’وہ بھی ترا کہنا تھا، یہ بھی ترا فرمانا‘)
ٹرکوں کے تصادُم کی طرح اداروں کے تصادُم کا تماشا کرنے کے لیے بھی ٹھٹ کے ٹھٹ لگ گئے ہیں۔ اب اس قسم کا تصادُم ذاتیات کاتصادُم (Personality Clash) نہیں رہا۔ کس واسطے؟ اس واسطے کہ اداروں میں تصادُم کروانے کے لیے اب ’تصادُم کے ادارے‘ تشکیل دے دیے گئے ہیں۔ دلیل وَلیل کسی کے پاس کچھ نہیں رہی۔ اب ہر فریق کے پاس ’ہاتھا‘ ہے اور ’پائی‘ ہے۔ ایک دوسرے کو للکار للکار کر رجز پڑھے جارہے ہیں اور دعویٰ کیا جا رہا ہے کہ ۔۔۔ ’جس دیے میں جان ہوگی، وہ دیا رہ جائے گا‘ ۔۔۔ لیکن اگر فیصلہ ’جان‘ لے کر یا ’جان‘ دے کر ہی کرنا ہے ۔۔۔ ’تو پھر قاعدہ کیا ہے؟ دستور کیا ہے؟‘ ۔۔۔ انارکی اور انتشار اس کو نہیں تو کس کو کہتے ہیں؟
تصادُم کی فضا ہر جگہ بن گئی ہے۔ وہ گاؤں کے چوپال کہ شہروں کے کلب ہوں۔ جہاں بھی دو چار لوگ باہم بیٹھ کر ’حالاتِ حاضرہ‘ اور اس کے ساتھ ہی ’حالاتِ غیر حاضرہ‘ پر گفتگو شروع کرتے ہیں، تھوڑی ہی دیر میں وہاں ’ٹاک شو‘ شروع ہوجاتا ہے اور نوبت سرپھٹول تک پہنچ جاتی ہے۔ سب نے اپنا کلمۂ امتیاز یہی بنا لیا ہے کہ ۔۔۔ آپس میں لڑ کر جیو۔
ایک محفل میں ایک شخص نے کسی قسم کی تحقیق، کسی قسم کے ثبوت اور کسی قسم کی دلیل پیش کیے بغیر یہ تجویز پیش کردی:
’’جیو کو بند کر دینا چاہیے‘‘۔
اُسی محفل میں کوئی ’جیو دوست‘ بھی بیٹھا ہوا تھا۔ بدک کر کہنے لگا: ’’جیو کو نہیں، اے آر وائی کو بند کر دینا چاہیے‘‘۔
اُس محفل میں مذکورہ بالا دونوں اداروں کا تصادُم ہاتھا پائی کی نوبتوں تک پہنچنے ہی والا تھا کہ ایک تیسرے صاحب امن کا سفید پرچم لہراتے ہوئے اس میدان جنگ میں کودے اور ’ثالث بالخیر‘ بن کر یہ فیصلہ سنادیا کہ: ’’جیو اور اے آر وائی دونوں کو بند کر دینا چاہیے‘‘۔
اس پر تو وہ چاؤں چاؤں مچی کہ ہمارے چچا چودھری چراغ دین چکڑالوی کی گرج دار (اور کان پڑی) آواز بھی سنائی نہ دی۔ چچا کا فیصلہ یہ تھا کہ: ’’ایک دو کو نہیں، تمام چینلوں کو بند کر دینا چاہیے تاکہ تمام اہل پاکستان شب کو آرام کی نیند سوئیں اور دن کو کام کرنے کے قابل رہیں۔ ورنہ لوگ رات بھر چینل دیکھتے رہتے ہیں اور دن بھر دفتروں میں اپنے رات کے مشاہدات کی (چیوِنگ گم کی طرح چبا چبا کر) جگالی کرتے رہتے ہیں۔ یقین مانو! سب چینل بند ہو جائیں تو ’صدائی آلودگی‘ (Noise Pollution) میں کمی ہوجانے کے سبب بڑا سکون ہو جائے‘‘۔ اس پر تو ’آزاد�ئ اظہار‘ کا وہ طوفان کھڑا ہوا کہ خود چچا کو خاصی دیر تک اظہار کی آزادی نہ مل سکی۔ جب ملی تو پوچھنے لگے:
’’تمہاری اس آزاد�ئ اظہار سے اب تک قوم کو کون کون سی نعمتیں میسر آچکی ہیں؟ خدا لگتی کہو کہ ٹی وی چینلوں کی وجہ سے شرحِ خواندگی میں اضافہ ہوا ہے یا شرحِ ناخواندگی میں؟ لوگوں نے تو اخبار پڑھنا بھی کم کر دیا ہے۔ کیا ٹی وی چینلوں کی برکت سے لوگوں میں دین سے رغبت بڑھ گئی؟ کیا کرپشن کا خاتمہ ہوگیا؟ کیا طاقت و طالع آزمائی کرنے والوں کی آمد کا راستہ رُک گیا۔ کیا سیاسی جاگیر داروں، نوکر شاہوں اور وڈیرہ شاہوں کے مفاداتی اختیار و اقتدار میں کچھ کمی آگئی؟ کیا عورتوں پر ہونے والے مظالم اور اُن کے ساتھ کیے جانے والے جرائم کے دروازے بند ہوسکے؟ ارے بھائی! اُلٹا یہ ہوا ہے کہ تم نے سارے دروازے چوپٹ کھول دیے۔ اب تو خود صحافیوں میں کرپشن گھس آئی ہے۔ ایک نہیں تو ’طاقت‘ کے دوسرے سرچشمے کے ایجنٹ صحافت کی صفوں میں گھس کر بالمعاوضہ کام کر رہے ہیں۔ ’عورت فروشی‘ ٹی وی چینلوں سے زیادہ بھلا اور کون کر رہا ہے؟ ارے بھاڑ میں گئی تمہاری آزاد�ئ اظہار!!‘‘
بھاڑ کا تصور کرکے لوگوں کا لہجہ کچھ نرم پڑا اور کچھ لوگوں نے سیاسی شعور، قومی آگاہی، بین الاقوامی آگاہی، جمہوری شعور وغیرہ وغیرہ سب کی بات کی۔ مگر چچا ان تمام ’شعوروں‘ کا اچار ڈالنے کو بھی تیار نہیں ہوئے۔ کہنے لگے:
’’عوام کو شعور دے کر کیا دے دیا ہے؟ کیا اس شعور کے نتیجے میں انتخابات میں اُن کے اعتماد کے نمائندے منتخب ہوگئے؟ کیا حکومت میں (امریکا اور آئی ایم ایف کے بجائے) قوم کے مفادات کا تحفظ کرنے والے آگئے؟ ارے بھائیو! تم نے عوام کا شعور بلندکیا ہے یا اُن کا فشارِ خون؟ تم نے تو عوام میں مایوسی کی فی مربع میل پیداواری شرح بڑھادی ہے۔ لوگوں کو ملک کے مستقبل سے مایوس کیا ہے۔ ڈیپریشن کے مریضوں میں اضافہ کیا ہے اور اُمیدوں میں کمی۔ اس ’تصادُمی آزاد�ئ اظہار‘ کا کوئی ایک بھی عملی فائدہ قوم کو پہنچا ہو تو بتاؤ۔ میاں ہم نے تو اب ٹی وی دیکھنا چھوڑ ہی دیا ہے۔ آخر وقت ضائع کرنے کے ایسے طریقے بھی تو ہیں جن کو اختیار کرنے سے بلڈ پریشر میں اضافہ نہیں ہوتا، ڈیپریشن کا اٹیک نہیں ہوتا اور ذہن ماؤف نہیں ہوتا۔ بلکہ انسان اُن مشاغلِ تضیعِ اوقات کو اختیار کرکے خاصی تر و تازگی اور فرحت محسوس کرتا ہے‘‘۔