چلو بھائی ایمان والو…..

390

جب کوئی چھتیس برس قبل جسارت میں قدم رکھا تو جن لوگوں نے اپنی شخصیت کا اثر ڈالا ان میں صحافتی شخصیات صلاح الدین صاحب، کشش صدیقی صاحب، عرفان غازی، آفتاب سید، اطہر ہاشمی صاحبان کے علاوہ ایک شخصیت امام سعید کی بھی تھی۔ وہ نائب قاصد تھے لیکن اپنی عمر اور انداز کی وجہ سے سب کے ابا لگتے تھے بلکہ وہ رویہ بھی یہی اپناتے تھے۔ دفتر جسارت قلبی طور پر وسیع لیکن پیمائش کے اعتبار سے وسیع نہ تھا اس لیے تنگ سی لائبریری میں سب کھڑے ہو کر کھانا کھارہے تھے کہ ایک آواز آئی…. چلو بھئی ایمان والا…. نماز کا وقت ہوگیا ہے۔ پھر رُکے اور کہا کہ یہ کھڑے ہو کر کھانا کیوں کھاتے ہو۔ ایسا تو جانور کرتے ہیں۔ ہم نے پوچھا یہ کون ہیں تو بتایا گیا کہ یہ امام سعید ہیں نماز کے وقت پورے دفتر میں آواز لگاتے ہیں کہ چلو بھئی ایمان والو…. نماز پڑھنے چلو۔ ہماری حس مزاح کہہ لیں یا طبیعت، اگلے دن یہ آواز سنتے ہی ہم نے ٹوک دیا۔ بھائی امام سعید صاحب یہ بے ایمان والوں کو کیوں بلاتے ہیں پہلے تو ذرا گرم ہوتے۔ پھر مسکرائے!! آپ نئے آئے ہیں۔ ہم پٹھان ہیں ہمارا لہجہ ایسا ہی ہے میں پکارتا ہوں۔ چلو بھائی ایمان والو۔ اب آواز ایسا نکلتا ہے۔ آپ ایمان والے لگتے ہو۔ آپ اُٹھا کرو، نماز کے لیے (نائٹ) ڈیسک والے نہیں اُٹھتے۔ ان کی نشاندہی سے اندازہ ہوا کہ واقعہ یہی ہے۔ چناں چہ ہم نے ڈیسک پر موجود نمازی افراد سے کہا کہ بھائی جب امام سعید آواز لگائیں تو ذرا زور سے اچھا آرہے ہیں کہہ کر اُٹھ جانا۔ لوگ نیوز ایڈیٹر آفتاب سید کے ڈسپلن اور جم کر بیٹھے رہنے اور ان کے غصیلے انداز سے خوفزدہ تھے۔ چناں چہ اگلے دن امام سعید کی آواز سنتے ہی ہم آفتاب سید صاحب کی پشت کی طرف سے…. آیا بھائی کہہ کر نکلے اور ان کے کندھوں پر ہاتھ رکھ کر کہا…. چلیں…. نماز کے لیے۔ آفتاب سید صاحب نے کہا، آپ لوگ جائیں اور کوئی بھی جانا چاہے تو ضرور جائے، میں کسی کو روک کر گناہ گار نہیں ہونا چاہتا۔ بس یہ یاد رکھنا مغرب میں سات رکعت ہوتی ہیں اور آپ لوگ پانچ ہی پڑھتے ہیں۔ یہ وقفہ برائے نماز ہے۔ اسے نماز برائے وقفہ نہ بنانا۔ بہرحال، بلاوجہ میں ہم اپنے کمزور ایمان کا الزام آفتاب سید پر ڈال کر بیٹھے رہتے تھے۔
اب معمول ہوگیا تھا امام سعید کی آواز آتی اور ہم لوگ کام چھوڑ کر نماز کے لیے چل پڑتے۔ اسی طرح ماہ و سال گزر گئے ان کی آواز نہیں بھی آتی تو بھی نمازی نماز کے لیے اُٹھ ہی جاتے۔ آفتاب سید چلے گئے ان کی جگہ ہم بیٹھے اب ایڈیٹر بن گئے لیکن امام سعید نے آٹو میٹک گیئر میں ڈال دیا۔ جسارت آنے سے پہلے بھی ہم نماز پڑھتے تھے لیکن کام کو نماز پر غالب آنے سے روکنے کا کام امام سعید ہینے کیا تھا۔ یہ عام بیماری ہے لوگ کہتے ہیں کہ ذرا یہ کام کرلیں پھر اُٹھیں گے، اور اتنی دیر میں نماز نکل گئی۔ یہ اسٹیکر تو برسوں بعد سامنے آئے کہ ’’نماز سے مت کہو کہ مجھے کام ہے…. کام سے کہو کہ مجھے نماز پڑھنی ہے‘‘۔ امام سعید یہ درس برسوں قبل دے گئے۔ پھر ایک دن ہم بھی جسارت سے اردو نیوز چلے گئے، چھ سال بعد اسلام آباد جسارت آگئے، ایک سال بعد کراچی واپس آئے تو امام سعید کی وہی آواز، وہی صدا جاری تھی۔ چلو بھائی ایمان والو۔ اسی طرح کھڑے ہو کر کھانے پینے کو منع کرتے تھے۔ اس تنگ لائبریری میں کھانے کے وقت کرسیاں ٹھونس دی جاتی تھیں، افطار میں بھی کھڑے ہونے پر وہ سختی سے ٹوکتے تھے، پھر دفتر بدل گیا، چھت مل گئی، افطار چھت پر ہونے لگا، دستر خوان بچھ گیا، امام سعید کو بھی سکون ملا اور جسارت میں کام کرنے والے بھی غلط کام سے بچ گئے۔ ایک مرتبہ پھر ہم جسارت سے چلے گئے، 9 سال تک جسارت سے باہر رہے پھر واپس آئے، جسارت کے برابر والی اللہ والی مسجد کے موذن، خادم، امام، منتظم غرض ہر چیز امام سعید تھے۔ آواز اب بھی لگاتے تھے لیکن کم کم۔ شاید برابر میں مسجد تھی اور اذان سب سنتے تھے یا پھر کچھ کمزوری آگئی تھی۔ ایمان میں نہیں، جسم میں۔ ایک دن دروازے پر روک کر کہا کہ منتظم اعلیٰ سے کہیں کہ میرا حساب کردیں مجھے گھر جانا ہے۔ گاؤں میں کچھ کام ہیں پورے کرنے ہیں۔ مسلم پرویز منتظم اعلیٰ تھے، وہ کسی مناسب موقع کی تلاش میں تھے کہ امام سعید کو ان کے شایان شان رخصت کیا جائے۔ لیکن وہ کہہ رہے تھے کہ امام سعید کے انداز سے لگ رہا تھا کہ گھر نہیں کہیں اور جانے کی تیاری ہے۔ ایسے لوگوں کو پہلے سے بہت کچھ معلوم ہوجاتا ہے۔ پھر یوں ہوا کہ منتظم اعلیٰ بھی بدل گئے، پھر یہ دفتر بھی بدل گیا۔ امام سعید نے اور ان کے بیٹے احمد نے مسجد کو نہیں چھوڑا۔ ان کے لیے پیشکش تھی کہ جمعیت الفلاح آجاؤ۔ لیکن اس میں مسجد چھوٹ رہی تھی۔ وہ مسجد سے منسلک رہے۔ اب جسارت میں کئی مرتبہ ایسا ہوا کہ امام سعید کی آواز نہیں آتی اور جماعت نکل گئی۔ ہم نے گویا بڑبڑا کر شکوہ کیا۔ کوئی تو امام سعید ہوتا۔ جو ہمیں اور سب کو اُٹھاتا۔ کبھی کبھی ہم بھی یہ آواز لگاتے ہیں کہ چلو بھائی ایمان والو۔ 30 اپریل کو ہم دفتر میں تھے صبح کو سفر پر روانگی تھی، اداریہ لکھ رہے تھے کہ محمد امین میمن نے بتایا کہ آج اوپر سے آواز آئی ’’چلو بھائی ایمان والو‘‘…. یعنی اے نفس مطمئن، چل اپنے رب کی طرف، اسی حال میں کہ تو (اپنے انجام نیک سے) (اور اپنے رب کے نزدیک) پسندیدہ ہے، شامل ہوجا میرے (نیک) بندوں میں اور داخل ہوجا میری جنت میں۔ سورۃ الفجر (27 تا 30)
یعنی اللہ نے تمام عمر ایمان والوں کو نماز کے لیے پکارنے والے کے لیے اس کے مقررہ وقت پر پکار دے دی۔ اللہ امام سعید کی مساعی کو قبول فرمائے ان کی وجہ سے ہم سے جو بھی اچھے کام ہوئے ہوں ان کا ثواب بھی ان کی روح اور ذریت کو پہنچادے۔ امام سعید نے چلو بھائی ایمان والو کی پکار پر لمحہ بھر تاخیر نہیں کی۔ پہلے سے تیار جو تھے۔ ہم نے کتنی تیاری کی ہے؟؟۔