اُردو ادب کے بے بدل نقاد مشفق خواجہ کا قول ہے کہ آپ بیتی لکھنا آسان بھی ہے اور مشکل بھی۔ آسان اس لیے کہ جھوٹ بولنا بعض لوگوں کے بائیں ہاتھ کا کام ہوتا ہے مشکل اس لیے کہ سچ بولنا اور وہ بھی اپنے بارے میں دنیا کا مشکل ترین کام ہے۔ جسٹس سید منظور حسین گیلانی کی خود نوشت ’’میزانِ زیست‘‘ کو اس اصول پر پرکھیں تو چند اوراق کا مطالعہ ہی قاری کو اس نتیجہ پر پہنچاتا ہے کہ منظور حسین گیلانی نے آپ بیتی لکھتے ہوئے مشکل ترین کام کیا ہے۔ صرف اپنی زندگی کی مشکلات اور راہِ زیست کی کٹھنائیوں کے بارے میں ہی نہیں اپنے ہم عصروں، تعلق داروں، ریاست کے دیدہ ونادیدہ کارپردازوں، پالیسی سازوں، وقت کے حکمرانوں کے معاملے میں بھی جو سچ جاننا بلا کم وکاست اور کسی جبیں پر شکن کا لحاظ وپاس کیے بغیر بیان کیا حالاں کہ کسی بھی انسان کے لیے اپنے سماج میں زندہ رہنے کے لیے مصلحت اور مصالحت کے بغیر چارہ نہیں رہتا مگر صاحب کتاب نے اس مجبور ی کو پاؤں بلکہ قلم کی زنجیر بننے نہیں دیا۔ ایک نقاد نے یہ بھی کہا تھا کہ بہت سے لوگ کتابوں کی اشاعت سے تعلقات عامہ کا کام لیتے ہیں اور پھر اپنی کتاب کو وزیٹنگ کارڈ کی طرح بانٹتے پھرتے ہیں لیکن مجھے یقین ہے کہ میزان زیست کے کڑوے سچ اور کڑے تجزیے نے صاحب کتاب کے تعلقات کا دائرہ وسیع کرنے کے بجائے اسے کچھ مزید محدود کرکے اس پر منفی اثر ہی ڈالا ہوگا۔ کچھ عجب نہیں کہ کسی روز کوئی مہربان قدر کبیدہ خاطر ہوکر کتاب پر پابندی عائد کر بیٹھے۔
جسٹس منظور حسین گیلانی آزادکشمیر کی عدلیہ اور سیاست سے وابستہ شخصیت کا نام ہے جو اکثر ہنگاموں اور گردابوں کی زد میں رہے۔ آزاد کشمیر کے ایڈووکیٹ جنرل، ہائی کورٹ کے جج، سپریم کورٹ کے جج اور چیف جسٹس اور آزادجموں وکشمیر یونیورسٹی کے وائس چانسلر کے طور پر بھی اپنا کردار ادا کرتے رہے۔ اس وقت پاکستان اسلامی نظریاتی کونسل کے رکن ہیں۔ قانونی اور آئینی امور سے متعلق کئی کتابوں کے مصنف بھی ہیں۔ جسٹس منظور حسین گیلانی کی زندگی دو خانوں میں تقسیم ہے۔ ان کی زندگی کا ایک اہم دور کنٹرول لائن کے اُس پار وادی کشمیر میں اس عالم میں گزرا کہ ان کے والدین آزادکشمیر ہجرت کر آئے تھے۔ والدین سے ملاقات کی غرض سے انہوں نے ستر کی دہائی کے وسط میں آزاد کشمیر کا دورہ کیا تو حالات اور رشتے قدموں کی زنجیر بن گئے اور وہ یہیں کے ہو کر رہ گئے۔ اس طرح انہوں نے پورے شعور کے ساتھ کشمیر کے دونوں خطوں کو دیکھا اور برتا۔ چوں کہ ان کا بچپن اور جوانی وادی کشمیر میں گزری اور ان کے ابتدائی ساتھی، ہمدم اور ہم جولی اور محسن ومربی وہیں تھے اس لیے ان میں وادی سے تعلق کا احساس برتری کہیں کہیں جھلکتا ہے۔ ان کا آبائی گاؤں کنٹرول لائن سے تھوڑی دوری پر ٹیٹوال کے مشہور زمانہ قصبے سے قریب درنگلہ کرناہ ہے۔ وہ اپنے قاری کو کرناہ کے ہرے بھرے دھان کے کھیتوں کے کناروں پر بنی پگڈنڈیوں پر ساتھ چلاتے ہیں۔ آپریشن جبرالٹر کے بعد پینسٹھ کی پاک بھارت جنگ چھڑ جائے تو مصنف اپنے قاری کو وادی کشمیر کے اسی ماحول میں پہنچا دیتے ہیں۔ سقوط ڈھاکا کی منظر کشی کچھ اس انداز سے کرتے ہیں کہ جیسے یہ سانحہ ابھی روح کو چھید ہوا رونما ہور ہا ہے۔ ایک کامیاب اور اچھے لکھاری کی طرح وہ قاری کو قدم بہ قدم، ورق بہ ورق بلکہ سطر بہ سطر اپنے ساتھ لے کر چلتے ہیں۔ کوئی واقعہ بیان کرتے ہوئے قاری کو اسی ماحول اور کیفیت میں پہنچانا کہ وہ چشم تصور سے وہ سب کچھ دیکھنے لگے ایک فن اور خدا کی ودیعت کردہ صلاحیت ہے۔ جسٹس گیلانی کو یہ فن قدرت نے بہ درجہ اتم عطا کیا ہے۔ انہوں نے اپنے عہد کے سیاسی واقعات پر ایک غیر جانبدار مورخ کے طور پرتبصرہ کیا ہے۔ ایسا کرتے ہوئے انہوں اپنی پسند ونا پسند اور ذات کی نفی کرنے کی بھرپور کوشش کی ہے۔ ان کے آبائی علاقے کرناہ کے بعد جو دور ان کے ذہن پر نقش معلوم ہوتا ہے وہ علی گڑھ مسلم یونیورسٹی میں بیتے ماہ وسال ہیں جنہیں خود انہوں نے اپنی زندگی کا سنہری دور لکھا ہے۔
علی گڑھ سے انہوں نے قانون کی ڈگری ہی نہیں زندگی گزارنے کا ڈھب اور انداز بھی سیکھا اور اسے ہمیشہ کے لیے پلو میں باندھ لیا۔ ’’علی گڑھ سے فراغت کا ڈنر‘‘ کے عنوان سے وہ اس کہانی کو یوں بیان کرتے ہیں ’’جولائی 1970میں یونیورسٹی سے فارغ ہونے سے قبل لا فیکلٹی کے سالانہ ڈنر میں ہم لوگوں کو باضابطہ الوداع کیا گیا۔ مجھے پروفسیر رتن لال ریکھی جو ہمیں ایڈمنسٹریٹو لا پڑھاتے تھے، کی ایک منٹ کی تقریر اب بھی یاد ہے جو میری زندگی کا حاصل ہے۔ انہوں نے انگریزی میں کچھ اس طرح کہا Gentleman you are now leaving this institution to govern the conutry. At times you may be confronted with a situation where you have to say no. and if situation so arises ,you have the courage to say no. But if you say yes , you must mean it at the cost of your life. جسٹس گیلانی اس کی وضاحت میں رقم طراز ہیں ’’میں سمجھتا ہوں کہ ایڈمنسٹریشن کا حاصل دو ہی کلمات ہیں ہاں یا نہیں۔ دنیا فی الواقعی نفی واثبات کا مرکب ہے۔ ہمارا المیہ ہے کہ ہم لوگ ہاں کہہ کر بھی بے ایمانی کرتے ہیں اور نہ کہنے کی جرات بھی نہیں کرتے۔ ان کے نانا چوں کہ عربی اور فارسی کے ٹیچر تھے اور اس دور کے ٹیچر کا مطلب محض دو اور دوچار پڑھانے والا شخص نہیں بلکہ ایک اسکالر ہوتا تھا اس لیے جسٹس گیلانی کی شخصیت کی تراش خراش میں اور ان کی سمت متعین کرنے میں ان کے نانا کا کردار نمایاں ہے اور یہی اثرات پوری زندگی ان پر قائم رہے اور اس کے بعد برصغیر کی مشہور زمانہ مادر علمی علی گڑھ کی چھاپ ان کی شخصیت پر گہری ہے۔
علی گڑھ ہی میں ان کی ملاقات سرخ پوش تحریک کے بانی خان عبدالغفار خان جو خود بھی علیگ تھے، ساٹھ کی دہائی میں ہوئی۔ 1969 میں عبدالغفار خان بھارت کے دورے کے دوران اپنی مادر علمی کی یادیں تازہ کرنے پہنچے۔ جسٹس گیلانی نے طلبہ کی خان عبدالغفار خان کے ساتھ ہونے والی دلچسپ جملہ بازی کو خوبصورت پیرائے میں بیان کیا ہے۔ غفار خان کہہ رہے تھے کہ ہم بھی پرانے علیگ ہیں اور منٹو سرکل میں پڑھتے تھے ہم لوگ بہت شیطان ہوا کرتے تھے۔ جس پر ہال میں پیچھے سے ایک آواز آئی کہ بابا آپ کو اب بھی کوئی فرق نہیں پڑا ہے۔ جس پر باچا خان نے برجستہ کہا کہ بیٹا تم رام پور کے پٹھان لگتے ہو۔ جسٹس گیلانی لکھتے ہیں کہ ظہیر نام کا وہ لڑکا واقعی رام پور کا پٹھان تھا۔ جسٹس گیلانی نے کشمیر کے دونوں حصوں میں گزرے لمحات اور پیش آنے والے تجربات ہی کو بیان نہیں کیا بلکہ ان علاقوں کی سوشیو پولیٹکل زندگی محلاتی سازشوں کو بھی دلچسپ انداز میں بیان کیا۔ ان کے اساتذہ میں حریت کانفرنس کی معروف شخصیت پروفیسر عبدالغنی بٹ بھی شامل ہیں۔ جسٹس گیلانی کی اس بات سے اتفاق اور اختلاف کی گنجائش موجود ہے مگر وہ تاریخ کے حوالے سے ایک مقام پر اپنا تجریہ یوں بیان کرتے ہیں۔ ’’اگر مسلم لیگ کی قیادت نے مہاراجا ہری سنگھ کے بجائے شیخ عبداللہ کو اپنایا ہوتا اور چودھری غلام عباس کو ان کا ساتھ دینے کو کہا ہوتا تو کشمیر کا قضیہ پیدا ہی نہ ہوتا۔ وادی کشمیر اور جموں صوبے کے کشمیری بولنے والے لوگ ان کے ساتھ تھے مہاراجا بھی گومگو کا شکار تھا۔ بالمقابل مسلم کانفرنس کی لیڈشپ کا کردار اور حیثیت قائد اعظم کی مرہونِ منت تھی۔ تقسیم ہند کے فوراً بعد یہ سارے لوگ پاکستان ہجرت کر آئے جس کی وجہ سے جموں کے مسلمانوں کو گاجر مولی کی طرح کاٹا گیا۔ شیخ صاحب کو ایسا فیصلہ کرنا چاہیے تھا یا نہیں یہ ایک سوالیہ نشان ہے لیکن ان کو نظر انداز کرنا بھی بہت بڑا سوالیہ نشان ہے‘‘۔ 755 صفحات پر مشتمل جمہوری پبلیکیشنز لاہور کی شائع کردہ یہ خود نوشت کشمیر اور کشمیر سے جڑے برصغیر کے حالات وواقعات کی چشم دید گواہی بھی ہے اور حالات کابے لاگ تجزیہ بھی۔ تاریخ اور سیاسیات کے طالب علموں کے لیے جسٹس گیلانی کی کتاب بہت معلومات افزا اور دلچسپی سے بھرپور ہے۔ جسے پڑھ کر اندازہ ہوتا ہے کہ مصنف کو قدرت نے فہم ودانش کے ساتھ ساتھ زبان وقلم کی یکساں صلاحیتوں سے نوازا ہے۔