اسلام آباد کے جدید ترین ائرپورٹ کا افتتاح

284

وزیراعظم شاہد خاقان عباسی نے وفاقی دارالحکومت اسلام آباد میں ملک کے نئے اور جدید ترین ائر پورٹ کا افتتاح کردیا ہے۔ اسلام آباد کے جدید ترین ائر پورٹ کا افتتاح تقریباً ایک برس کی تاخیر سے کیا گیا ہے۔ یہ ائر پورٹ 105 ارب روپے کی خطیر رقم سے تعمیر کیا گیا ہے۔ اس ائر پورٹ کے افتتاح کے لیے 20 اپریل کی تاریخ کا اعلان کیا گیا تھا لیکن عملی رکاوٹوں کی وجہ سے مزید تاخیر ہوئی اور منگل کو کراچی سے آنے والی پہلی پرواز سے باقاعدہ افتتاح کیا گیا۔ اسلام آباد میں جدید ائر پورٹ کی تعمیر کا منصوبہ تقریباً 35 سال قبل بنایا گیا تھا۔ اس کی تعمیر کا آغاز جنرل (ر) پرویز مشرف کے دور میں کیا گیا اور اس کی تکمیل مسلم لیگ (ن) کی حکومت کے دوران شاہد خاقان عباسی کی وزارت عظمیٰ میں ہوئی ہے۔ جدید ہوائی اڈے کی افتتاحی تقریب میں وزیراعظم کے ہمراہ صوبہ پنجاب اور خیبرپختونخوا کے گورنر صاحبان، مشیر ہوا بازی، وفاقی وزرا اور قومی ادارہ برائے شہری ہوا بازی اور پی آئی اے کے سربراہان موجود تھے۔ وزیراعظم نے تقریب سے خطاب کرتے ہوئے کہا کہ اس ائر پورٹ کا افتتاح میرے لیے اعزاز کی بات ہے، یہ منصوبہ ہمارے دور سے پہلے شروع ہوا تھا مگر ائر پورٹ ہماری پانچ سالہ کارکردگی کی مثال ہے۔ انہوں نے کہا کہ وقت کے ساتھ چلنا ہے تو جدید ٹیکنالوجی کو اپنانا ہوگا۔ اسلام آباد کا ہوائی اڈہ عالمی معیار کا ہوائی اڈہ ہے۔ پہلے گرین فیلڈ ائر پورٹ کا افتتاح کردیا ہے جو جمعرات سے باقاعدہ کام کرنا شروع کردے گا۔ اسلام آباد کا ائر پورٹ 19 مربع کلو میٹر پر محیط ہے جہاں 28 مسافر جہازوں کو خدمات فراہم کی جاسکتی ہیں۔ وائی کی شکل میں تیار کردہ اس ائرپورٹ پر دنیا کا سب سے بڑا جہاز 380 بھی اُتر سکتا ہے۔ ائر پورٹ پر مسافروں کے لیے تین شاپنگ مال، گالف کورس، بڑا اسپتال، کنویشن سینٹر، ڈیوٹی فری شاپ، ریسٹورنٹ اور سینما گھر بھی تعمیر کیے گئے ہیں۔ ائر پورٹ پر بین الاقوامی معیار کے مطابق سیلف چیک ان کاؤنٹر، لانگ ٹائم پارکنگ، 8 فائر کریش گاڑیاں، جدید ترین ائر فیلڈ طیاروں کو فنی سہولتیں فراہم کرنے کے لیے موجود ہیں۔ جدید ایم آر او سسٹم اور ایک کارگو ٹرمینل بھی بنایا گیا ہے۔ ہوائی اڈے کا تین کلو میٹر پر مشتمل رن وے پاکستان کا سب سے بڑا رن وے ہے۔ وفاقی دارالحکومت کا نیا اور جدید ترین ہوائی اڈہ اسلام آباد کے زیرو پوائنٹ سے 20 کلو میٹر اور راولپنڈی صدر سے 25 کلو میٹر کے فاصلے پر واقع ہے۔ اس ائر پورٹ کی تعمیر کے بعد دنیا بھر سے کاروباری اور صنعتی شخصیات اور اداروں کی آمد میں اضافہ ہوگا۔ ترقیاتی منصوبوں میں اضافہ ایک خوش آئند بات ہے، لیکن اس کے ساتھ یہ سوالات بھی پیدا ہوئے ہیں کہ مہنگے منصوبوں کی لاگت کہاں سے پوری ہوگی اور اس ترقی کی قیمت کون دے گا؟۔ اسلام آباد کے جدید ترین ائر پورٹ کی تکمیل کو وزیراعظم شاہد خاقان عباسی نے اپنی حکومت کا کارنامہ قرار دیا ہے، لیکن ان کے پاس اس سوال کا جواب نہیں ہے کہ قومی ائر لائن پی آئی اے کیوں تباہ ہوگئی ہے۔ یعنی ائرپورٹ کی تعمیر سے ہوا بازی کی صنعتی سرگرمیوں میں جو اضافہ ہوگا اس کے فوائد سے قومی ائر لائن محروم رہے گی۔ آخر کیا وجہ ہے کہ جب ملک کے پاس وسائل نہیں تھے تو ہم نے پی آئی اے جیسی ائر لائن کو عالمی مقابلے میں کامیاب کرکے دکھایا، لیکن اب جب کہ وسائل میں اضافہ ہوچکا ہے پی آئی اے ایک بوجھ بن گئی ہے۔ اسلام آباد کے جدید ترین ائرپورٹ کی تعمیر کی لاگت پر بھی سوالات اُٹھ گئے ہیں۔ پارلیمان کی پبلک اکاؤنٹس کمیٹی نے اس جدید ترین ہوائی اڈے کی تعمیر میں بدعنوانی کی تحقیقات کی ہدایت کی ہیں اور اعتراضات پارلیمان کے اراکین نے اُٹھایا ہے، جس کی روشنی میں نیب کے حکام نے ابتدائی تحقیقات کرلی ہیں۔ مشرف دور میں اس ہوائی اڈے کا منصوبہ 28 ارب روپے سے شروع کیا گیا تھا جو 109 ارب روپے سے مکمل ہوا ہے۔ ایک طرف ان مہنگے منصوبوں کا آغاز ترجیحات کے غلط تعین کا اشارہ کرتا ہے، دوسری طرف صرف ایک منصوبے کی لاگت میں 52 ارب روپے کی بدعنوانی کی جاتی ہے۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ قوم ترقی کی بہت زیادہ قیمت ادا کررہی ہے۔ ضرورت اس بات کی ہے کہ اس منصوبے کی حقیقی لاگت معلوم کرنے کے لیے مکمل آڈٹ کرایا جائے اور بدعنوانوں کا احتساب کیا جائے۔ محض بڑے بڑے منصوبے شروع کرنا کارنامہ نہیں ہے، اس کی قیمت کیا ایک غریب قوم ادا کرسکتی ہے؟۔