مریض کی عیادت

1553

ڈاکٹر خالد غزنوی

نیویارک کے اسپتالوں میں ایک عجیب مشاہدہ کیا گیا۔ وہ مریض جو اسپتالوں میں تنہا پڑے تھے، ان کو بہترین علاج اور نگہداشت کے باوجود پوری طرح فائدہ نہیں ہورہا تھا۔ جن مریضوں کو ملنے والے اور بیمار پرسی کرنے والے آتے رہتے تھے ان میں تندرستی کی رفتار دوسروں سے بہتر پائی گئی۔
ان مشاہدات کے بعد نیویارک کے پادریوں نے اسپتالوں میں جانا شروع کیا۔ وہ مریضوں سے ملتے، ان کی بیماریوں کے بارے میں گفتگو کرتے اور آخر میں ان کے ساتھ مل کر ان کی صحت یابی کے لیے دعا کرتے رہے۔ پادریوں سے توجہ پانے والے اکثر لاعلاج مریض بھی شفا یاب ہونے لگے۔ امریکی رسالے ’’Reader’s Digest‘‘ نے اس مسئلے کو روحانیت سے تعبیر کیا اور اس کا کہنا تھا کہ دعا کرنے سے ان کو فائدہ ہوا۔
حقیقت یہ ہے کہ مریض کا ذہن پریشان ہوتا ہے۔ وہ اپنی بیماری کے تفکرات کی وجہ سے کسی بھی ترکیب کو آزمانے کو تیار ہوتا ہے۔ اخباروں میں روز ایسے واقعات آتے ہیں جہاں بے اولاد عورتیں رات کے اندھیروں میں قبرستانوں میں جا کر مردوں کی ہڈیاں نکال کر ان پر غسل کرتی بیان کی جاتی ہیں یا ہمسایوں کے کسی کمسن بچے کو قتل کرکے اس کی لاش پر بیہودہ الفاظ کے وظیفے پڑھتی ہیں۔
اپنی بے اولادی یا بیماری کی اذیت کو ختم کرنے کے لیے وہ ہر بیہودہ اور خلاف شرع کام کرنے کو تیار ہوتی ہیں۔
اسلام نے مریض کی ذہنی کیفیت کو سب سے پہلے محسوس کیا اور اس بارے میں ایسے مفید مشورے دیے جن سے مریض کے ذہن کو اطمینان اور سکون میسر آجاتا ہے۔
حضرت ابوہریرہؓ روایت فرماتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا۔
ترجمہ:۔ مسلمان کے مسلمان پر پانچ حقوق ہیں۔ سلام کا جواب دینا، مریض کی عیادت کرنا، جنازوں کے ساتھ جانا، دعوت کا قبول کرنا، چھینک لینے والے کا جواب دینا۔
(بخاری، مسلم)
امام مسلمؓ نے انہی سے ایک روایت میں حقوق کی تعداد 6 گنوائی ہے۔ چھٹا حق اپنے مسلمان بھائی کی خیرخواہی کرنا ہے۔
حضرت ابوموسیٰؑ روایت کرتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا۔
ترجمہ:۔ بھوکے کو کھانا کھلائو، مریض کی عیادت کرو اور قیدی کو رہائی دلوائو۔ (بخاری)
اسی مسئلہ میں براء بن عاذبؓ یوں روایت کرتے ہیں۔
ترجمہ:۔ ہمیں حکم دیا گیا کہ مریض کی عیادت کریں اور جنازے کے ساتھ جائیں۔ (بخاری، مسلم)
عیادت کے فوائد کا تذکرہ کرتے ہوئے ثوبانؓ روایت فرماتے ہیں کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے مژدہ سنایا۔
(جب کوئی مسلمان اپنے کسی مسلمان بھائی کی عیادت کو جاتا ہے تو وہ لوٹتے وقت تک جنت کے باغات سے میوہ خوری میں رہتا ہے)
حضرت ابوہریرہؓ عیادت مریض کے اہم فرض کی وضاحت میں جناب طبیب اعظم صلی اللہ علیہ وسلم سے روایت کرتے ہیں۔
اللہ تعالیٰ قیامت کے دن فرمائے گا کہ اے ابن آدم میں بیمار ہوا۔ تو میری عیادت کو نہ آیا۔ وہ کہے گا کہ اے اللہ تو ربّ العالمین ہے۔
اللہ تعالیٰ فرمائے گا کہ تجھے علم نہیں تھا کہ میرا فلاں بندہ بیمار ہوا ہے۔ تونے اس کی عیادت نہ کی۔ کیا تجھے علم نہ تھا کہ اگر تو اس کی عیادت کرتا تو مجھ کو اس کے نزدیک پاتا۔ (مسلم)
بیمار کی عیادت کو اتنا اہم قرار دیا گیا ہے کہ روز حشر نامہ اعمال میں اس کے بارے میں سوال ہوں گے۔ اللہ تعالیٰ عیادت کرنے والوں کی حوصلہ افزائی کرتے ہوئے وہاں پر اپنی موجودگی کا اظہار کرتا ہے۔
حضرت زید بن ارقمؓ کو آشوب چشم کی شکایت ہوئی تو نبی صلی اللہ علیہ وسلم ان کی عیادت کے لیے گئے۔ (احمد۔ ابودائود)
حضرت جابر بن عبداللہؓ روایت کرتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا۔
ترجمہ:۔ جب کوئی شخص مریض کی عیادت کے لیے جاتا ہے تو وہاں پر دریائے رحمت میں اس وقت تک بیٹھا رہتا ہے جب تک کہ وہ وہاں رہا بلکہ وہ اس دوران دریا میں ڈبکیاں لگاتا ہے۔ (مالک۔ احمد)
مریض کی عیادت ایک لحاظ سے اس کو اطمینان دلانے اور حوصلہ دینے والی بات ہے۔ بیماری اس کے گناہوں کو کم کرتی ہے۔ اور اس کی دعا کو دوسروں کی نسبت زیادہ قبولیت حاصل ہوتی ہے۔
حضرت عمر بن خطابؓ روایت کرتے ہیں۔
ترجمہ:۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ جب تو مریض کی عیادت کے لیے جائے تو اس سے اپنے لیے دعا کروا۔ (ابن ماجہ)
کیونکہ اس کی دعا فرشتوں کی دعا ہے۔
حضرت عبداللہ بن عباسؓ عیادت کا عجب واقعہ بیان کرتے ہیں۔
ترجمہ:۔ نبی صلی اللہ علیہ وسلم ایک اعرابی کی عیادت کو گئے۔ آپ کا دستور تھا کہ جب کسی مریض کی عیادت کے لیے جاتے تو ہمیشہ فرماتے لاباس طہور (کوئی حرج نہیں۔ تم ان شاء اللہ پاک ہوجائو گے) اس نے کہا کہ ہرگز نہیں۔ بلکہ تپ جوش مار رہا ہے اور ایک بوڑھے پر یہ تپ اس کو قبروں سے ملادے گا۔ آپ نے فرمایا۔ ہاں! اسی طرح ہوگا۔ (بخاری)
یہ شخص وفات پا گیا۔ اس نے خدا کی رحمت سے مایوسی کا اظہار کیا اور بالواسطہ موت کی تمنا کرتے ہوئے رحمت عالم کو مجبور کیا کہ وہ بھی اس کی خواہش سے اتفاق کریں۔
(جاری ہے)

اسلام میں بیماریوں کے علاج کا اصول
حضرت ابراہیم علیہ السلام سب سے پہلے مسلمان تھے۔ ان کے گھر والے بت پرست ہی نہیں بلکہ بت فروش تھے۔ ان کے والد گرامی سب سے بڑے بت خانہ کے پروہت تھے۔ حضرت ابراہیم علیہ السلام نے ان لوگوں کو اسلام کی تبلیغ کرتے ہوئے اپنے ربّ کی صفات گنوائیں۔
ترجمہ:۔ میرا ربّ وہ ہے جس نے مجھے تخلیق کیا اور وہ مجھے ہدایت دیتا ہے اور سیدھا راستہ دکھاتا ہے۔ اور وہ مجھے کھلاتا اور پلاتا ہے۔ اور جب میں بیمار ہوتا ہوں تو مجھے شفا کی راہ دکھلاتا ہے۔ وہ سب کو مارے گا تو پھر زندہ کرے گا۔ اور میں اس سے توقع رکھتا ہوں کہ وہ فیصلے والے دن میرے گناہوں اور غلطیوں کو معاف کرتے ہوئے میری بخشش کرے گا۔ (الشعراء: 82,78)
وَاذامرضت فھویشفین
انہوں نے واضح فرمایا کہ بیماریاں میری اپنی غلطی سے ہوتی ہیں۔ اور میرا خدا وہ ہے جو اس آڑے وقت میں مجھے شفا دیتا یا شفا کا راستہ دکھلاتا ہے۔
احادیث میں حضرت ابراہیمؑ ہی سے منسوب ایک واقعہ ملتا ہے۔
انہوں نے ایک مرتبہ اپنے ربّ سے سوال کیا کہ بیماری کہاں سے آتی ہے؟ تو انہیں جواب ملا کہ میری طرف سے۔
پھر پوچھا کہ اس سے شفا کون دیتا ہے تو اللہ تعالیٰ نے فرمایا کہ ’’میں‘‘
حضرت ابراہیمؑ نے فرمایا کہ جب بیماری تو لاتا اور خود ہی شفا بھی دیتا ہے تو اس عمل میں طبیب کی کیا حیثیت ہے؟ اللہ تعالیٰ نے جواب دیا کہ طبیب وہ شخص ہے کہ میں جس کے ذریعے شفا ارسال کرتا ہوں۔
اس مسئلے پر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے بڑی توجہ عطا فرمائی ہے۔ حضرت ابی رمثہؓ روایت کرتے ہیں کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا۔
اللہ الطبیب
(طبیب اللہ خود ہے)
یہی بزرگوار اسی مسئلے پر ایک دوسرے واسطہ سے یوں ارشاد نبویؐ سے مطلع فرماتے ہیں۔
انت الرفیق۔ واللہ الطبیب (مسند احمد)
(تمہارا کام) مریض کو اطمینان دلانا ہے۔ طبیب اللہ خود ہے (مسند احمد)
حضرت اسامہ بن شریکؓ روایت کرتے ہیں کہ طبیب اعظمؐ نے فرمایا
ترجمہ:۔ اے اللہ کے بندو علاج کیا کرو۔ کیونکہ اللہ تعالیٰ نے ایسی کوئی بیماری نہیں اتاری جس کا ساتھ ہی علاج نہ اتارا ہو۔ اور وہ ایک جس کا علاج نہیں وہ بڑھاپا ہے۔ (احمد، سنن، مستدرک)
یہی بات متعدد دوسرے صحابہ کرام سے بار بار روایت کی گئی ہے۔
حضرت ابی سعیدؓ روایت کرتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا۔
ترجمہ:۔ اللہ تعالیٰ نے ایسی کوئی بیماری نہیں اتاری جس کے ساتھ اس کی شفا بھی اتاری نہ گئی ہو۔ یہ بات جس نے سمجھ لی وہ جان گیا اور جس نے نہ سمجھی وہ جاہل رہا۔ لیکن ایک بیماری یعنی موت کی دوا نہیں ہے۔ (ابودائود)
یہ ایک اہم حقیقت کا اظہار ہے۔ لاعلاج کوئی بیماری نہیں۔ علاج کی تلاش میں جائو گے تو مایوسی نہ ہوگی۔ یہ ارشاد گرامی انسانی جدوجہد اور بیماریوں کے علاج کو تلاش کرنے میں مہمیز کا کام دیتا ہے۔
حضرت ام الدرداءؓ بیان فرماتی ہیں کہ حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا۔
ترجمہ:۔ اللہ تعالیٰ نے بیماریاں نازل فرماتے ہوئے ان کا علاج بھی نازل کیا ہے۔ اس لیے علاج کرتے رہنا چاہیے۔ البتہ حرام چیزوں سے علاج نہ کیا جائے۔ (طبرانی)
طارق بن سویدؓ الخصرمی اور دوسرے اطبا نے علاج کے لیے انگور کی شراب کے بارے میں دریافت کیا تو نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا۔
لاشفاء فی الحرام
(حرام چیزوں میں شفا نہیں ہوتی)
حرام جانوروں کے گوشت، خون، شراب، منشیات اور زہریلی ادویہ میں شفا نہیں ہے۔ چند سال پہلے تک ڈاکٹر نمونیہ کے مریضوں کو برانڈی پلاتے تھے۔ مگر اب یہ بات ثابت ہوگئی ہے برانڈی جسم کی قوت مدافعت کو ختم کرکے مریض کی ہلاکت کا سبب بن جاتی ہے۔ اس لیے اب غیر مسلم ڈاکٹر بھی برانڈی کو ترک کرچکے ہیں۔ سور کے لبلبہ سے بننے والی انسولین ذیابیطس کے مریضوں کے لیے شفا کا باعث نہ بن سکی اور اب متروک ہوگئی ہے۔
حضرت عبداللہ بن عباسؓ روایت کرتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا۔
ترجمہ:۔ علاج انسان کے مقدر کا حصہ ہے۔ اور اس سے اللہ تعالیٰ کے حکم کے بعد فائدہ ہوتا ہے۔ (ابونعیم۔ طبرانی)