حقیقی خوشی دولت سے نہیں ملتی

160

دیر سے جاگنے والوں کے لیے انتباہ
ایک نئی تحقیق سے پتا چلا ہے کہ جو لوگ رات کو دیر سے سوتے اور صبح دیر سے اٹھتے ہیں ان کے قبل از وقت مرنے کے امکانات زیادہ ہوتے ہیں۔ 4 لاکھ 33 ہزار لوگوں پر کی جانے والی تحقیق سے پتا چلا کہ صبح جلد اٹھنے والوں کی نسبت رات کو دیر تک جاگنے والوں میں مرنے کا امکان 10فیصد زیادہ ہوتا ہے۔اس کے علاوہ یہ بھی معلوم ہوا کہ دیر سے اٹھنے والے کئی قسم کے دماغی اور جسمانی امراض میں زیادہ آسانی سے مبتلا ہو جاتے ہیں۔سائنس دانوں نے تحقیق میں حصہ لینے والوں سے، جن کی عمریں 38 اور 73 سال کے درمیان تھیں، پوچھا کہ کیا وہ ’’سخت سحر خیز‘‘ (جلد اٹھنے والے) ہیں، ’’معتدل سحر خیز‘‘ ہیں، ’’معتدل دیر خیز‘‘ ہیں یا پھر ’’سخت دیر خیز‘‘ ہیں۔اس کے بعد سائنس دانوں نے ان شرکا کا ساڑھے 6 سال تک مشاہدہ کیا۔عمر، جنس، قومیت، تمباکو نوشی کی عادت، وزن اور معاشی حالت جیسے عناصر کو مدِنظر رکھتے ہوئے سائنس دانوں نے معلوم کیا کہ سخت سحر خیزوں میں قبل از وقت موت کے امکانات سب سے کم تھے، اور وہ جتنی دیر سے جاگتے تھے، ان کے مرنے کا خطرہ بھی اسی تناسب سے بڑھ جاتا تھا۔دوسری طرف رات کو تادیر جاگنے والوں میں نفسیاتی مسائل کا شکار ہونے کے امکانات بھی 90 فیصد زیادہ تھے، جب کہ ذیابیطس کا امکان 30 فیصد زیادہ تھا۔ علاوہ ازیںرات کے اندھیرے میں تادیر جاگتے رہنے سے متعدد قسم کے غیر صحت مندرانہ رویے جنم لیتے ہیں۔
ؕ
نوجوانوں میں تنہائی کا احساس زیادہ ہوتا ہے

برطانیہ میں ادارہ برائے شماریات کی تحقیق کے مطابق نوجوان افراد بڑی عمر کے افراد کے مقابلے میں زیادہ اکیلا پن محسوس کرتے ہیں۔اس تحقیق میں سامنے آنے والے اعداد شمار کے مطابق 16 سے 24 برس کی عمر کے افراد میں 10 فیصد افراد خود کو ‘ہمیشہ یا ‘اکثر و بیشتر اکیلا محسوس کرتے ہیں اور 65 برس یا اس سے زائد عمر کے افراد کے مقابلے میں یہ تین گنا زیادہ تناسب ہے۔ تحقیق کاروں کے مطابق اس سے یہ ظاہر ہوتا ہے کہ بڑی عمر کے لوگوں میں اکیلے پن میں ثابت قدمی سے رہنے کی زیادہ صلاحیت ہوتی ہے۔
او این ایس نامی تحقیقی کمپنی کی جانب سے کیے گئے سروے میں 10000 سے زائد بالغ افراد سے معلومات لی گئیں جس سے یہ معلوم ہوا کہ ہر 20 میں سے ایک شخص اکیلا پن محسوس کرتا ہے۔مینٹل ہیلتھ فاؤنڈیشن کے کال سٹروڈ نے کہا کہ نوجوانوں میں اکیلے پن کا احساس سوشل میڈیا اور ڈیجیٹل دنیا کی وجہ سے بڑھ رہا ہے۔کم عمر لوگ آن لائن ہزاروں دوست بنا لیتے ہیں لیکن حقیقی زندگی میں وہ تنہائی کا شکار ہوتے ہیں۔دوسری جانب اسی تحقیق میں یہ بات سامنے آئی ہے کے خواتین اکیلے پن کا زیادہ احساس محسوس کرتی ہیں اور اس بات کا ذکر کرتیں ہیں لیکن مرد اپنے اکیلے پن کو چھپاتے ہیں۔

ایک نئی تحقیق سے معلوم ہوا ہے کہ آمدن دگنی ہونے کی نسبت اچھی صحت اور اچھا شریکِ زندگی لوگوں کی زندگیوں کو زیادہ خوش و خرم بناتا ہے۔ لندن اسکول آف اکنامکس کی اس تحقیق میں 2 لاکھ لوگوں کی زندگیوں پر مرتب ہونے والے مختلف حالات کا جائزہ لیا گیا۔ اس سے پتا چلا کہ ڈپریشن یا بے چینی کی بیماری لوگوں کی خوشی پر سب سے زیادہ اثرانداز ہوتی ہے، جب اچھے شریکِ حیات کی وجہ سے سب سے زیادہ خوشی نصیب ہوتی ہے۔سائنس دانوں نے معلوم کیا کہ آمدن دگنی ہو جانے سے ایک سے لے کر دس تک کے پیمانے میں خوشی صرف 0.2 درجے کے قریب بلند ہوئی۔تحقیق کے مطابق اس کی وجہ یہ ہے کہ لوگ اپنی آمدن کے خود پر پڑنے والے اثر کی بجائے دوسروں سے اپنی آمدن کے تقابل کا زیادہ احساس کرتے ہیں۔تاہم اچھا شریکِ حیات مل جانے سے خوشی میں 0.6 درجے اضافہ ہو جاتا ہے، جب کہ شریکِ حیات کی موت یا علیحدگی سے اسی قدر کمی واقع ہوتی ہے۔تاہم اس پیمانے پر سب سے زیادہ منفی اثر ڈپریشن اور بے چینی کی بیماری سے پڑتا ہے، جس سے خوشی 0.7 درجے گر جاتی ہے۔ اسی طرح بیروزگاری سے بھی اسی قدر کمی واقع ہوتی ہے۔تحقیق کار کا کہنا ہے کہ جو چیزیں ہماری خوشی اور دکھ میں سب سے زیادہ کردار ادا کرتی ہیں وہ ہمارے سماجی تعلقات اور ہماری ذہنی اور جسمانی صحت ہیں۔