دینی قوتیں ایجنسیوں کی نہ مانیں

303

متحدہ مجلس عمل کے ورکرز کنونشن میں دو اہم اعلانات کیے گئے ایک تو 13 مئی کو پاکستان کی تاریخ کے سب سے بڑے جلسے کا اعلان کیاگیا دوسرے دینی قوتوں کو مشورہ دیاگیا کہ وہ ایجنسیوں کی نہ مانیں انتخابات میں عالمی اسٹیبلشمنٹ سے مقابلہ ہے اسے شکست دی جائے گی۔ دوسری جانب سے آصف زرداری، عمران خان، نواز شریف سب اسٹیبلشمنٹ کی شکایت کرتے نظر آرہے ہیں تو ایسا کون سا گروہ ہے جو یہ کہہ رہا ہے کہ ہم اسٹیبلشمنٹ کے حامی ہیں اس سے ہاتھ ملارہے ہیں بات دراصل یہ ہے کہ اسٹیبلشمنٹ کی کامیابی یہی ہے کہ سارا ملک ایک نادیدہ اسٹیبلشمنٹ کو برا بھلا کہہ رہا ہے لیکن اس کے کرداروں اس کے بنائے ہوئے سیاسی گروہوں اور اقدامات کو سمجھنے سے قاصر ہے۔ یہ درست ہے کہ ملک کی اسٹیبلشمنٹ جو فوجی بھی ہے، بیورو کریٹ بھی ہے اور سیاسی بھی ہے ایک لفظ اسٹیبلشمنٹ کے پیچھے چھپی ہوئی ہے بلاشبہ اس کے پاس بے بہا وسائل ہیں اس کے پاس طاقت کے مراکز ہیں لیکن یہ بات بھی یاد رکھنے کی ہے کہ یہ سارے وسائل یہ ساری قوتیں انسان بھی استعمال کررہے ہیں۔ انسانی عقل کی جتنی بساط ہوتی ہے وہ اتنی ہی کام کرسکتی ہے۔ متحدہ مجلس عمل کے رہنماؤں نے جو اشارہ دیا ہے اس کو سمجھنے کے لیے ملک کے سیاسی منظر نامے پر نگاہ ڈالنا ضروری ہے۔ کیا ہونے جارہا ہے دینی قوتوں کے راستے میں کیا رکاوٹیں کی کھڑی کی جارہی ہیں خاص طور پر دینی قوتوں کو مخاطب کیاگیا ہے کہ وہ ایجنسیوں کی نہ مانیں اس کا مطلب ہے کہ کچھ ایجنسیاں دینی قوتوں کو جھانسا دے کر اصل دینی قوت کو نقصان پہنچانا چاہتی ہیں۔ اگر مجلس عمل کی جانب سے دینی قوتوں کو تنقید کا نشانہ بنایا جاتا تو کوئی ردعمل ہوسکتا تھا لیکن ان قوتوں کو ایک جانب مشورہ دیاگیا ہے کہ ایجنسیوں کی باتوں میں نہ آئیں۔دوسری جانب اسٹیبلشمنٹ سے مقابلے کا اعلان بھی کیا گیا۔ ویسے بھی مجلس عمل کا راستہ روکنے کے لیے جو کام کیا جارہا ہے وہ کے پی کے ، بلوچستان اور سندھ میں کوئی قابل ذکر اثر نہیں ڈال سکتا صرف پنجاب میں اس کے اثرات ہوسکتے ہیں گویا نشانہ مجلس عمل نہیں بلکہ ن لیگ ہے۔ ہاں اس کے اثرات مجلس عمل پر بھی پڑ سکتے ہیں۔ ایجنسیاں اپنا کام کرتی ہیں اپنی چالیں چلتی ہیں تو دوسری طرف سے بھی چالیں چلی جاسکتی ہیں۔ سیاست کے بارے میں کہا جاتا ہے کہ کوئی چیز حرف آخر نہیں ہوتی۔ اب تک متحدہ مجلس عمل کے غیر فعال ہونے کے سبب یہ سمجھا اور کہا جارہا تھا کہ اس کی بحالی کی ضرورت نہیں۔ اس کے حق میں اور خلاف بہت سے دلائل دیے جارہے تھے لیکن اب جبکہ یہ اتحاد وجود میں آگیا ہے اور اس نے اپنے قدم میدان میں بڑھادیے ہیں اب بحثیں بھی نہیں ہونی چاہئیں اور تنقید کے تیر چلانے سے بھی کوئی فائدہ نہیں اب تو اس اتحاد کو مضبوط و مستحکم کرنے کی ضرورت ہے۔ جو قائدین اور سیاسی جماعتیں مجلس عمل کے مقابل مجتمع ہورہی ہیں ان کو بھی اندازہ ہے کہ یہ کام صرف دینی قوتوں کو نقصان پہنچائے گا لیکن بہر حال یہ سیاست ہے، ہر ایک کو اپنے فیصلے کرنے کا حق ہے مگر حکومتوں کے رویوں میں کیوں تضاد رہتا ہے۔ ایک جانب اپنے سب سے بڑے دشمن یا مخالف پی ٹی آئی کو مینار پاکستان پر جلسہ کرنے کی اجازت دینا اور بیس بائیس ہزار کرسیوں پر دس لاکھ کے مجمع کا ریکارڈ بنانے کا موقع دینا لاہور انتظامیہ کا ہی کارنامہ ہے لیکن جب متحدہ مجلس عمل نے مینار پاکستان پر جلسے کی اجازت کے لیے درخواست کی تو کمشنر لاہور نے اجازت دینے سے انکار کردیا۔ کمشنر لاہور کے اس متضاد رویے پر وزیراعلیٰ پنجاب جو اب مسلم لیگ کے سربراہ بھی ہیں کو نوٹس لینا چاہیے۔ ویسے بھی وہ پی ٹی آئی یا عمران خان کے مقابلے میں مجلس عمل سے انتخابی تعاون کی بات کرچکے ہیں تو پھر یہ تضاد کیوں۔ اگر مجلس عمل لاہور میں بڑا جلسہ کرلیتی ہے تو پنجاب حکومت میں اتنا حوصلہ ہونا چاہیے کہ اسے برداشت کرے مثبت سیاسی پیش رفت اور سرگرمیاں خود حکومت کے لیے بھی مفید ہوں گی۔ اگر رکاوٹیں ڈالی گئیں تو جلد بہر صورت ہوگا لیکن سیاسی فضا مکدر ہوجائے گی۔ حکمرانوں اور خاص طور پر مسلم لیگ ن کو یہ معلوم ہونا چاہیے کہ مثبت سیاسی سرگرمیاں اور سب کے لیے مساوی مواقع خود ان کے لیے فائدہ مند ہیں۔ گزشتہ دنوں صحافیوں کے وفد نے بھی انہیں یہی مشورہ دیا کہ وہ سب کے لیے یکساں مواقع فراہم کریں اگر سیاسی جماعتیں اور گروہ بشمول وہ دینی جماعتیں جن کی جانب مجلس عمل کے قائدین نے اشارہ کیا ہے کہ اسٹیبلشمنٹ اور ایجنسیوں سے فاصلہ رکھیں تو اس میں سیاسی عمل کو قوت ملے گی، جمہوریت مستحکم ہوگی۔ یاد رکھیں اقتدار ہی سب کچھ نہیں ہوتا۔