معیشت کا گھوڑا

338

اپنے چچا چودھری چراغ دین چکڑالوی صبح صبح چوکڑیاں بھرتے ہوئے آتے نظر آئے تو ہم نے اُن کا ’شاندار خیرمقدم‘ کیااور پوچھا: ’’چچا! کیا بات ہے؟ آج تو ماشاء اللہ آپ چوکڑیاں بھرتے ہوئے تشریف لارہے ہیں‘‘۔
چچا ساری چوکڑی بھول گئے۔ کہنے لگے:
’’میاں صاحب زادے! اپنی اُردو ٹھیک کرو۔ ہم چوکڑیاں بھرتے ہوئے نہیں آ رہے ہیں، زقند لگاتے ہوئے آرہے ہیں‘‘۔
ہم نے عرض کیا:
’’چچا! جس قوم کی معیشت ہی ٹھیک نہ ہو، وہ اپنی اُردو کیسے ٹھیک کر سکتی ہے؟ ۔۔۔ ویسے ٹھیک تو اِس قوم کی انگلش بھی نہیں‘‘۔
چچا چیخ پڑے: ’’ٹھیک یہی بات کہنے کے لیے تو میں بھاگا بھاگا آرہا تھا۔ مگر تم پڑگئے چوکڑیوں کے چکر میں!‘‘
ہمیں بڑا تعجب ہوا۔ سو، تعجب سے پوچھا: ’’چچا! کیا آپ بھی یہی بات کہنے آرہے تھے کہ اس قوم کی انگلش خراب ہے؟‘‘
چچا نے (اپنا ہی) ماتھا پیٹا اور کہا:
’’بھئی! یہ بات کہنے آرہا تھا کہ یہ جو اس قوم کی معیشت خراب ہے تو معیشت خراب ہونے کی اصل وجہ یہ ہے کہ اس قوم میں اب غیرت و خود داری نہیں رہی۔ سچ جانو! یہی خرابی ساری خرابیوں کی جڑ ہے‘‘۔
ہم نے حیرت سے پوچھا: ’’چچا!یہ غیرت اور خود داری کیا چیز ہوتی ہے؟‘‘
اب چچا نے لہک لہک کر (اقبالؔ کے بجائے خود) ’بڈھے بلوچ کی نصیحت بیٹے کو‘ یعنی ہمیں ۔۔۔ (’پتر پتر‘ کہہ کر) ۔۔۔ سنانے لگے۔ میاں!:
غیرت ہے بڑی چیز جہانِ تگ و دَو میں
پہناتی ہے درویش کو تاجِ سرِ دارا
حاصل کسی کامل سے یہ پوشیدہ ہنر کر
کہتے ہیں کہ شیشے کو بنا سکتے ہیں خارا
افراد کے ہاتھوں میں اقوام کی تقدیر
ہر فرد ہے ملّت کے مقدر کا ستارا
آخر میں چچا نے ۔۔۔ اِلَخ ۔۔۔ کہہ کر بریک لگایا اور ہم جیسے ’عربی نادانوں‘ کو سمجھایا کہ اس کا مطلب ہے ۔۔۔ اِلیٰ آخرہٖ ۔۔۔ یعنی آخر تک۔ گویا چچا خود تین شعر پڑھ کر شارٹ ہینڈ میں پوری نظم سنا گئے۔ ہم نے عرض کیا:
’’چچا اگر ہماری سست رفتار معیشت کی رفتار تیز ہو جائے تو ہم بے شک غیرت (وغیرہ) کا مظاہرہ کریں۔ مگر یہاں تو ہمارا یہ حال ہے کہ ۔۔۔ ’گھر میں نہیں چھدام مگر شوق بے شمار ۔۔۔ مضراب بھی اُدھار ہے تلوار بھی اُدھار‘ ۔۔۔ چچا! معیشت کی رفتارکچھ تیزتو ہو لینے دیں‘‘۔
یہ سن کر چچا تمسخر پر اُتر آئے۔ اپنے بچپن کی سنی ہوئی ایک حکایت سنانے لگے۔ کہنے لگے کہ:
’’ایک صاحب کا گھوڑا ہماری ملکی معیشت کی طرح سست تھا۔ ہماری قومی ترقی کی طرح کاہل تھا، اور ہمارے سیاست کی طرح اَڑیل تھا۔ جہاں اَڑ گیا، تہاں اَڑ گیا ۔۔۔ حضرتِ داغؔ جہاں بیٹھ گئے، بیٹھ گئے ۔۔۔ لاکھ جوتے بھی پڑے، اُٹھ نہ سکے، لیٹ گئے ۔۔۔ لوگوں کے مشورے پر سست رفتار گھوڑے والے صاحب ایک ہُشیار، مکار اور چالاک اَتائی کے پاس جا پہنچے۔ اُس سے اپنے گھوڑے کی ’ بد‘ معاشی کا ذکر کیا اور (معاشی) مدد چاہی۔ اتائی نے دیکھا کہ گھوڑا کماؤ ہے۔ مگر اَتائی خود جو ’بد‘ معاش تھا۔ کماؤ گھوڑوں سے پورا اصطبل بھر رکھا تھا۔ اصطبل کے سارے گھوڑے اُس نے اسی طرح جمع کیے گئے تھے۔ اُس نے دیکھا کہ صاحب کا گھوڑا بھی بہت قیمتی ہے۔ عربی النسل ہے۔ مگر ’بے چارہ‘ ہے۔ یعنی بچارے کو کھانے کو کچھ ملے گا تو دوڑے گانا۔ جب دوڑ لگائے گا تو کما کر لائے گا۔ اَتائی کو معلوم تھا کہ صاحبِ عالم عربی گھوڑا ضرور رکھتے ہیں، لیکن خود اچھے خاصے گدھے ہیں۔ اُس کو اُن کی ساری ہسٹری شیٹ ازبر تھی کہ معیشت کے سست رفتار گھوڑے کے علاج کے نام پر: ’اِن کے تمام چارہ گر ۔۔۔ گھر میں جو کچھ تھا چرگئے‘۔ سو اُس نے بھی بصرفِ زرِ کثیر یعنی بشرطِ شرائطِ خطیر صاحبِ موصوف کو سُرخ سفوف کی ایک چھوٹی سی ڈبیا اُدھار دی۔ ڈبیا پر جلی حروف میں لکھا تھا: ’معاشی امداد‘۔
صاحب نے ڈبیا کھول کر دیکھی تو اُس میں سے سُرخ مرچوں کی ’جھار‘ آئی۔چھینکتے چھینکتے بُرا حال ہوگیا۔ خیر چھینکتے چھینکتے ہی پوچھا:
’’اِس کا کیا کروں؟‘‘
امداد دینے والے اَتائی نے کہا: ’’اِسے معیشت کے سست رفتار گھوڑے پر، ٹیکس کے طور پر، لگا دو‘‘۔
اُنہوں نے حیرت سے پوچھا: ’’ٹیکس کے طور پر کیسے؟‘‘
اتائی بولا: ’’اے شہِ نادان! گھوڑے کی دُم اُٹھا۔ اور بس چٹکی بھر لگا۔ پھردیکھ تماشا گھوڑے کا۔ مطلب یہ کہ پھر دیکھنا تمہاری معیشت کا گھوڑا کتنا تیز بھاگتا ہے‘‘۔
یہ خوش خوش گھر آئے۔ سب سے پہلے خود گھوڑے کو خوش خبری سُنائی: ’’تیرے لیے ’معاشی امداد‘ کی پُڑیا لے کر آیا ہوں‘‘۔
پھر اُسے بہلا پھسلا کر کھڑا کرنے کی کوشش کی اور بھرپور کوشش کی، مگربے سود۔ آخر ’معاشی امداد‘ کے پیکیج میں اُنگلی ڈال کر چٹکی بھر سفوف نکالا اور بیٹھے ہوئے گھوڑے کی دُم اُٹھا کر پیچھے لگا دیا۔ سفوف لگنا تھا کہ گھوڑا بِلبِلا کر اُٹھ کھڑا ہوا اور بِھنا کر جو سرپٹ بھاگا ہے تو اتائی کے اصطبل ہی کی سیدھ لی۔ یہ منظر دیکھا تو گھر والوں نے شور مچادیا:
’’ہائے! ہائے! ہمارا رہا سہا ذریعۂ معاش بھی تم نے دوڑا دیا۔ اچھی معاشی امداد لائے‘‘۔
ہنگامہ زیادہ بڑھا تو مارے بوکھلاہٹ کے اُسی ڈبیا میں سے تھوڑا سا سفوف خود اپنے پیچھے بھی لگا لیا۔ سفوف کا لگنا تھا کہ بلبلا اُٹھے۔ ’بھاؤں قاؤں‘ کرتے ہوئے جو سرپٹ بھاگے ہیں تو اپنی تیز رفتاری کی جھونک میں (قومی معیشت کے) گھوڑے کو بھی اوورٹیک کرگئے اور اُس سے بھی پہلے خود اَتائی کی چراگاہوں تک پہنچ گئے۔ سنا ہے کہ ایسے کئی لوگ وہیں پناہ لیے ہوئے ہیں اور اپنے ’قرضئی‘ کارناموں کے عوض اَتائی کے گھوڑوں کی مالش کرنے کے کام پر نوکر ہو گئے ہیں۔