منا بھائی لگے رہو!

261

بزرگ سیاستدان مخدوم جاوید ہاشمی نے عمران خان کی اقتدارِ ہوس سے اُکتا کر تحریک انصاف کو خدا حافظ کہہ دیا تھا مگر شیخ رشید عمران خان کی باتوں پر ایمان لے آئے۔ وہ سمجھتے ہیں وزارتِ عظمیٰ عمران خان کی جیب میں پڑی ہے، اب یہ ایک موضوع ہے کہ جب سے شیخ رشید عمران خان کے دست راست بنے ہیں راستی سے دور ہوتے جارہے ہیں، مغل شہزادہ شیخو بابا کو انار کلی کے سوا کچھ دکھائی نہیں دیتا تھا۔ شیخ رشید جب سے شیخو بابا بنے ہیں انہیں تحریک انصاف کے سوا کچھ نظر نہیں آتا۔ شیخ رشید مسلم لیگ نواز سے کیا نکالے گئے ان کی اخلاقیات کا جنازہ ہی نکل گیا ہے۔ کوئی حادثہ ہو، کوئی واقعہ ہو شیخ رشید شریف خاندان پر تبرّا کرنا نہیں بھولتے۔ کوئی بھی موضوع ہو، تان شریف فیملی ہی پر ٹوٹتی ہے، اب یہ ایک الگ بات ہے کہ وہ خود بھی ٹوٹتے جارہے ہیں، ان کی باتیں، ان کی ٹاک شوز اور انٹرویوز بڑے شوق سے سنے جاتے تھے مگر اب انہیں ایسا سیاسی پنڈت سمجھا جانے لگا ہے جس کا ’’پرشاد‘‘ بے مزا اور بے فیض ہوتا ہے۔
گزشتہ محترم جسٹس اعجاز الاحسن کی رہائش گاہ پر ہونے والی فائرنگ موضوع سخن بنی رہی۔ شیخ رشید نے من و سلویٰ سمجھ کر اپنی جھولی بھرلی وہ ہر شخص کو یہ باور کرانے کی تگ و دو میں جتے ہوئے ہیں کہ جسٹس صاحب کی رہائش گاہ پر ہونے والی فائرنگ میں شریف فیملی کا ہاتھ ہے مگر وہ اپنا ہاتھ بھول رہے ہیں، ہاتھ تو ہاتھ ہوتا ہے، کسی کا بھی ہوسکتا ہے۔ فائرنگ کا مذکورہ واقعہ شریف خاندان کے خلاف سازش بھی تو ہوسکتا ہے، سیاست امکانات کا کھیل ہے اور کھیل میں فاؤل تو ہوتا ہی رہتا ہے۔ شیخ صاحب کا کہنا ہے کہ مسٹر جسٹس اعجاز الاحسن کی رہائش گاہ کے قریب ہی حمزہ شہباز کی بھی رہائش گاہ ہے ان کے سیکورٹی گارڈز نے فائرنگ کی آواز کیوں نہیں سنی؟۔ یہ سوال اس قدر احمقانہ ہے کہ اس کا جواب بھی حماقت ہی کہلائے گا مگر قوم کو گمراہی سے بچانے کے لیے اس حماقت کا مرتکب ہونا ہی پڑے گا۔ حمزہ شہباز کی رہائش گاہ جسٹس صاحب کی رہائش گاہ سے دور ہے اگر یہ تسلیم بھی کرلیا جائے کہ قریب ہے تو بھی اس کا حوالہ حماقت ہے کیوں کہ سیکورٹی گارڈز اپنی جگہ نہیں چھوڑتے ان کی ذمے داری ڈیوٹی پر موجود رہنا اور وہاں پر ہونے والی کسی بھی گڑ بڑ سے نبرد آزمائی ہے سو، حمزہ شہباز کی جانب انگلی اٹھانا امپائر کی انگلی کو متحرک کرنے کی لاحاصل مشق کے سوا کچھ بھی نہیں۔
مشق اور تجربے میں ایک قدر مشترک یہی ہے کہ کامیاب ہونا ضروری نہیں ہوتا، بس ’’منا بھائی‘‘ کی طرح لگے رہنا ضروری ہوتا ہے۔
ہمارے ہاں الیکٹرونک میڈیا پر جس بے رحمی سے مخالفین کی کردار کشی کی جارہی ہے، مہذب ممالک میں اس کا تصور بھی نہیں کیا جاسکتا۔ برطانیہ کے ایک اخبار نے پاکستانی نژاد سعیدہ وارثی پر داعش کی حمایت اور فنڈنگ کا الزام لگایا، انہوں نے اخبار پر مقدمہ دائر کردیا، اخبار اپنے الزام کا دفاع نہ کرسکا۔ اس کے پاس اپنے الزام کا کوئی ثبوت نہیں تھا، عدالتی فیصلے کے مطابق اخبار نے اپنے الزام پر معافی مانگی اور لگ بھگ بیس ہزار ڈالرز جرمانے کے طور پر ادا کیے اور نہ صرف اپنے الزام کی تحریری معافی مانگی بلکہ اس معافی نامے کو صفحہ اول پر شائع بھی کیا۔ ہمارے ہاں کیا ہورہا ہے؟ جس کے منہ میں آئے اُگل دیتا ہے، کوئی پوچھنے والا نہیں، الزامات کی اس اُلٹی سے کسی کو گھن نہیں آتی کسی کے ماتھے پر شکن نہیں پڑتی اور المیہ یہ بھی ہے کہ الزام لگانے والا اظہار شرمندگی کے بجائے اپنے الزامات کو سیاسی بیان کہہ کر بری الذمہ ہوجاتا ہے۔ کاش! چیف جسٹس آف پاکستان ان مکروہ بیانات پر بھی ازخود نوٹس لیں۔