کیا سارے جھوٹے، دھوکے باز اور منافق ہیں

375

ایک دوسرے کے پول کھولنے کا زمانہ آگیا ہے۔ انتخابات کی تاریخ کا اعلان تو نہیں ہوا لیکن اخبارات دیکھ کر صاف نظر آرہا ہے کہ انتخابی دنگل سج گیا ہے۔ میاں نواز شریف نے 90ء کی دہائی کی سازشوں کی دہائی دی ہے تو آصف زرداری نے کہا کہ نواز نے دھوکا دیا تھا اب بھگتے۔ مسلم لیگ کے تازہ تازہ نااہل وزیر خواجہ آصف نے کہا کہ زرداری نے پارٹی قیادت سنبھالنے کے لیے مدد مانگی۔ الزام لگاتے لگاتے وہ ایک اعتراف بھی کرگئے۔ کہنے لگے کہ بے نظیر کی تعزیت کے لیے میں اور نواز شریف گئے تو ہماری منتیں کی گئیں، امین فہیم سے چھٹکارے کے لیے ہم نے زرداری کی مدد کی۔ جب سب الزامات لگارہے ہیں تو جنرل پرویز مشرف کیوں خاموش رہتے، بول پڑے۔ نواز شریف خود اپنی قبر کھود رہے ہیں، مارشل لا لگانے پر انہوں نے مجبور کیا۔ منی ٹریل پیش کرنے والوں کو دو عدد صفر ملیں گے۔ سب سے بڑھ کر انہوں نے اپنی کتاب میں کیے گئے اعتراف ہی کی تردید کردی کہ میں نے کسی کو امریکا کے حوالے نہیں کیا۔ اب میاں نواز شریف کی سن لیں، کہتے ہیں کہ عمران منافق، زرداری دھوکے باز اور مشرف بش کی ایک کال پر لیٹ گیا۔ اپنی ضدی روش پر مصر رہتے ہوئے انہوں نے اعلان کیا کہ جنگ جاری رکھوں گا، جھکوں گا نہیں۔ یہ بات تو درست ہے کہ وہ جنگ اس وقت تک جاری رکھتے ہیں جب تک کہ مکمل فتح نہیں ہوجاتی یا مکمل شکست مقدر نہیں بن جاتی۔ اگر دیکھا جائے تو یہ سارے لوگ جو ایک دوسرے پر الزامات لگارہے ہیں اپنی اپنی پارٹی کے لیے حرف آخر، سچے اور راہ نما ہیں۔ ان کے بارے میں ان کے پیرو کار تو یہی کہتے ہیں کہ یہ سچے لوگ ہیں۔ اگر ان سب کے سچ کو سامنے رکھیں تو ایسا لگتا ہے کہ پاکستانی سیاست میں سب ہی جھوٹے، دھوکے باز اور منافق ہیں کیوں کہ یہ لوگ اپنے اپنے گروہ کے سچے لوگ ہیں۔
ایک ایک کرکے ان رہنماؤں کے الزامات، دعوؤں اور انکشافات کا جائزہ لے لیتے ہیں۔ سابق صدر سید آصف علی زرداری نے انکشاف کیا ہے کہ انہوں نے اینٹ سے اینٹ بجانے والا بیان نواز شریف کے اُکسانے پر دیا تھا۔ وہ نواز شریف کو شکل سے بھولا بھالا اور چالباز قرار دیتے ہیں۔ اب اگر ان کی بھولی بھالی شکل کی طرف آئیں تو کیا کہا جائے۔ وہ اپنے نئے بیان میں جنرل پرویز کے حوالے سے ’’بلے کو نہ جانے دو‘‘ والے بیان سے بھی مکر گئے۔ کہتے ہیں کہ یہ بیان بھی نواز شریف کی باتوں میں آکر دے دیا تھا۔ اس طرح تو وہ بھولی بھالی شکل والے نواز شریف سے زیادہ بھولے بھالے ثابت ہورہے ہیں۔ زرداری صاحب نے ایک اور بھانڈا پھوڑ دیا کہ میاں صاحب نے اسٹیبلشمنٹ کے خلاف مل کر مقابلہ کرنے کا پیغام بھیجا پھر جب مقابلے کا وقت آیا تو ہم سے الگ ہو کر جنرل راحیل شریف سے ہاتھ ملا لیا۔ ہم سیاست اور نواز شریف تجارت کرتے رہے۔ وہ کہتے ہیں کہ نواز شریف نے مشرف کے مواخذے اور مقدمے میں بھی ہمیں استعمال کیا۔ ان کی باتوں سے لگ رہا ہے کہ وہ اور پیپلز پارٹی بہت بھولے ہیں اور استعمال کرنے کی شے ہیں۔ جس کا دل چاہے ان کو استعمال کرلے۔
اینٹ سے اینٹ بجانے والا بیان اگر کوئی آپ سے دلوادے تو اس کا مطلب یہی ہے کہ آپ کو معلوم نہیں کہ آپ کیا چاہتے ہیں کیا کہہ رہے ہیں آپ کو سیاست اور ریاست کے خلاف بغاوت کا فرق بھی نہیں معلوم۔ یہ ایسا ہی جیسے بچے کسی شرارت پر پکڑے جائیں تو بتاتے ہیں کہ میں نے تو فلاں کے کہنے پر یہ حرکت کی تھی۔ زرداری صاحب بچے نہیں ہیں بلکہ اب محسوس ہوتا ہے کہ اسٹیبلشمنٹ سے ایسا کچھ اشارہ ملا ہے کہ نواز شریف سے فاصلے بڑھاؤ۔ جہاں تک پرویز مشرف کے مواخذے اور مقدمے سے لاتعلقی کی بات ہے تو یہ تاثر دینے کی کوشش کی جارہی ہے کہ ہم تو جنرل پرویز کے مواخذے اور مقدمے کے حق میں نہیں تھے۔ اور یہ حقیقت بھی ہے۔ این آر او کا جوابی قدم یہی ہونا تھا کہ حکومت ہمیں دو اور بحفاظت گارڈ آف آنر لے کر ملک سے نکل جاؤ۔ پی پی پی نے ایسا ہی کیا، گویا یہ سچ ہے کہ پرویز مشرف کے مواخذے اور مقدمے میں بھی انہیں استعمال کیا گیا۔ ویسے آصف زرداری صاحب قوم کو یہ بھی بتادیں کہ جنرل راحیل شریف سے ہاتھ ملانا تو اس لیے بُرا تھا کہ وہ اسٹیبلشمنٹ تھے اور جنرل پرویز کیا تھے؟؟ ان سے این آر او کرنا انہیں گارڈ آف آنر دے کر ملک سے رخصت کرنا اور آج بھی ان کے خلاف مقدمے اور مواخذے سے برات کا اعلان اس بات کا اظہار ہے کہ نواز شریف نے تو ہاتھ ملایا تھا آپ گلے بھی ملے اور اب بھی ملے ہوئے ہیں۔ اور یہ اسٹیبلشمنٹ ہے بھی ایسی چیز ایوان اقتدار تک پہنچنے کے تمام راستے اسی اسٹیبلشمنٹ سے ہو کر گزرتے ہیں، ہاتھ تو ملانا پڑتا ہے، بھٹو، بے نظیر، نواز شریف سب ہی نے ہاتھ ملایا۔ عمران خان کے ہاتھ میں ہاتھ آتے آتے اسٹیبلشمنٹ کے ہاتھ بدل گئے۔ اب وہ پھر تیاری کررہے ہیں۔
سب سے زیادہ ہولناک اعتراف خواجہ آصف نے کیا ہے۔ ان کے اعتراف میں زرداری صاحب پر الزامات بھی ہیں اور مسلم لیگ (ن) پر چارج شیٹ بھی۔ زرداری صاحب نے پارٹی قیادت سنبھالنے کے لیے مسلم لیگ سے کیوں مدد مانگی اور مانگی تھی تو زرداری صاحب جواب دیں کہ اپنی پارٹی پر قبضہ کرنے کے لیے انہیں مسلم لیگ کی مدد کیوں لینی پڑی۔ اور ایک پارٹی اپنے لیڈر سے چھٹکارے کے لیے دوسری پارٹی سے مدد لے اس کے بارے میں قوم کو بھی فیصلہ کرلینا چاہیے اور پارٹی کو بھی۔ بلکہ دونوں پارٹیوں کے بارے میں یہی فیصلہ کرنا چاہیے کہ یہ تو استعمال ہونے والی پارٹیاں ہیں لیکن یہ تو ہوتا آیا ہے، ہوتا رہے گا۔ بھٹو نے ایوب سے چھٹکارے کے لیے جرنیلوں کی مدد لی اور پھر ان جرنیلوں سے چھٹکارے کے لیے دوسرے جرنیلوں سے مدد لی۔ 5 سال بعد جنرل ضیا الحق کو آگے لا کر پرانے جرنیلوں سے چھٹکارا حاصل کیا۔ جنرل ضیا نے بھٹو سے چھٹکارا حاصل کیا، ان ہی کی پارٹی اور ہمنواؤں سے مدد لی۔ جنرل ضیا سے چھٹکارے کے لیے امریکیوں نے پاکستان میں اپنے ہمنواؤں سے مدد لی، اور پھر بے نظیر نواز شریف کی باریاں لگیں۔ ایک دوسرے کو لانے اور چھٹکارے کے کھیل کھیلتے رہے۔ جنرل پرویز نے دونوں سے چھٹکارا حاصل کیا پھر دونوں این آر او کے ذریعے واپس آگئے اور ایک دوسرے سے چھٹکارے کے لیے ہاتھ ملانے والے کام کرنے لگے۔ اب کوئی ہاتھ ملالیتا ہے تو دوسرا ہاتھ ملتا رہ جاتا ہے، اب بھی یہی ہوگا۔