بحریہ ٹاؤن قانون کے شکنجے میں

321

عدالت عظمیٰ نے بحریہ ٹاؤن پر پلاٹس اور فلیٹ بیچنے اور الاٹ کرنے کی پابندی لگا دی ہے ۔ عدالت عظمیٰ نے قرار دیا ہے کہ ملیر ڈویلپمنٹ اتھارٹی کی زمین کے پرائیویٹ ڈیویلپرز کو دینا غیر قانونی ہے ۔ عدالت نے بحریہ ٹاؤن کراچی کو غیر قانونی قرار دیتے ہوئے نیب کو تحقیقات کا حکم دیا ہے جو تین ماہ میں تحقیقات کر کے رپورٹ پیش کرنے کی پابند ہو گی ۔ بحریہ ٹاؤن کو ملیر ڈویلپمنٹ اتھارٹی ( ایم ڈی اے ) کی زمین کی الاٹ منٹ غیر قانونی اور اراضی کا تبادلہ خلاف قانون قرارپایا ہے ۔ جسٹس اعجاز افضل کی سربراہی میں تین رکنی بینچ میں ایک جج جناب مقبول باقر نے دو کے مقابلے میں ایک سے اختلافی نوٹ لکھا ہے ۔ اس اختلاف پر بحریہ ٹاؤن کے وکیل علی ظفر نے اطمینان کا اظہار کرتے ہوئے کہا ہے کہ اس سے ہمارے لیے نظرثانی اپیل کی راہ ہموار ہو گئی ہے۔ان کا کہنا تھا کہ تبادلے والی اراضی خرید لی جائے گی ۔ ملک ریاض سب کچھ خرید سکتے ہیں ۔ ان پر ہاتھ ڈال کر حتمی نتیجے پر پہنچنا ایک دشوار عمل ہو گا لیکن عدالت عظمیٰ نے بڑے بڑے اسکینڈلز بے نقاب کرنے اور بد عنوان عناصر کو کیفر کردار تک پہنچانے کی ٹھان لی ہے ۔ ریاض ملک پاکستان کے بہت بڑے ٹائیکون ہیں اور ان کی دوستیاں نواز شریف اور آصف زرداری سے بہت گہری ہیں ۔ ملیر ڈویلپمنٹ اتھارٹی کی زمینوں کے گھپلے میں سابق ایس ایس پی راؤ انوار کا نام بھی لیا جاتا ہے جنہوں نے اعلیٰ ترین شخصیات کو حد سے زیادہ فیض پہنچایا ہے تبھی تو آصف زرداری انہیں اپنا بہادر بچہ قرار دیتے ہیں ۔ ملک ریاض نے کئی اہم سیاسی شخصیتوں کو محل بنا کر دیے ہیں اور آئندہ بھی ایسا کر سکتے ہیں ۔ ایسے با اثر شخص کو کیفر کردار تک پہنچانا آسان نہیں ہو گا ۔ عدالت عظمیٰ نے 7 ہزار ایکڑ اراضی ملیر ڈویلپمنٹ اتھاٹی کو واپس دلوا دی ہے جس پر ملیر میں جشن منایا گیا ۔ لیکن جن سرکاری افسران نے یہ زمین ملک ریاض کے حوالے کی تھی وہ بھی قصور وار ہیں بلکہ سرکاری زمین بیچنے والے زیادہ قصور وار ہیں ۔ یہ بھی یاد رہنا چاہیے کہ ایسا کام سندھ حکومت کی مرضی کے بغیر نہیں ہو سکتا اور سندھ حکومت آصف علی زرداری کے تابع ہے ۔صرف اراضی ہی نہیں بلکہ کراچی کے عوام کے لیے پانی کے منصوبے کے 4- کا رخ بھی بحریہ ٹاؤن کی طرف موڑ دیا گیا ہے ۔ کچھ سینئر وکلاء نے خیال ظاہر کیا ہے کہ حکومت سندھ فریق بن کر اس فیصلے کے خلاف اپیل کر سکتی ہے ۔ ایک رپورٹ کے مطابق 9 ارب کی زمین لے کر سوا تین کھرب کمانے کا منصوبہ تھا ۔ لوئرہاؤسنگ اسکیم یا کم قیمت کے مکانات بنانے کے نام پر ایم ڈی اے سے کم قیمت پر اراضی خرید لی گئی ۔ یہ اسکیم ملیر ڈویلپمنٹ اتھارٹی شروع کرنے والی تھی ۔ ریاض ملک کا بحریہ ٹاؤن منصوبہ کئی گوٹھوں کو نگل گیا اور بحریہ ٹاؤن کو مزید وسعت دینے کا سلسلہ جاری تھا ۔ عوام کے لیے کم قیمت کے مکانات کی فراہمی کہیں نظر نہیں آئی ۔ کراچی کے مضافات میں ایک نئی رہائشی کالونی کا بننا ایک اچھا اقدام تھا کہ اس سے کراچی پر بوجھ بھی کم ہو جاتا لیکن یہ سارا کام قانونی تقاضے پورے کرتے ہوئے اور جائز طریقے سے ہوتاتو بہتر ہوتا اور ملک ریاض کو عوام دوست بھی سمجھا جاتا لیکن زیادہ سے زیادہ منافع سمیٹنے کی ہوس بہت سے لوگوں کو لے ڈوبی ہے ۔ ایک متوسط طبقے کے فرد حاکم علی زرداری کا بیٹا کھرب پتی بن جاتا ہے اور بلاول زرداری دوسروں پر کرپشن کے الزامات لگاتے ہوئے ذرا نہیں شرماتا ۔ لاہور میں بھی قیمتی عمارت بنا کر اپنے سر پرست کو دی گئی جو بم پروف بھی ہے ۔ ریاض ملک کی لینڈ کروزر نواز شریف اور آصف علی زرداری کے لیے حاضر رہتی تھیں ۔ عدالت عظمیٰ نے راولپنڈی اور مری میں بھی قبضے غیر قانونی قرار دے دیے ہیں ۔ بحریہ ٹاؤن کو الاٹ کی گئی غیر قانونی زمین کا اصل رقبہ 28 ہزار ایکٹر تھا ۔ لیکن پھر یہی سوال کہ خزانے کو 27 ارب روپے کا نقصان پہنچانے والوں کو بھی تو پکڑا جائے یہ چائنا کٹنگ والے اور کسی کے مکان پر قبضہ کر لینے والے تو بہت نچلے درجے کے ڈاکو ہیں ۔ ہزاروں ایکٹر زمین نگل جانے والے اصل قبضہ گیر ہیں ۔ عجیب بات ہے کہ پاکستان میں ہر طرف اور ہر شعبے میں غیر قانونی قبضے کی روایت مستحکم ہوتی جا رہی ہے ۔ اور یہ غیر قانونی قبضہ صرف سویلینز تک محدود نہیں ہے ۔ جس کے پاس طاقت ہے وہ قبضہ کر کے بیٹھ جاتا ہے ۔ جہاں تک ریاض ملک کا تعلق ہے تو وہ انصاف خریدنے کی کوشش بھی کر سکتے ہیں اور مہنگے سے مہنگا وکیل کھڑا کر سکتے ہیں ۔ چنانچہ دیکھنا ہے کہ لا قانونیت اور قانون کی اس جنگ میں کون جیتے گا۔