ڈکٹیشن والے ڈیل کیا جانیں

300

پاکستان دفتر خارجہ نے کمال کردیا، کہا ہے کہ شکیل آفریدی کے معاملے پر ڈیل نہیں کررہے۔ امریکی ایجنٹ کے بدلے ڈاکٹر عافیہ یا حسین حقانی کا تبادلہ نہیں کریں گے۔ دفتر خارجہ کے ترجمان ڈاکٹر فیصل نے اور بہت سی باتیں کی ہیں لیکن شکیل آفریدی کے حوالے سے جو کچھ کہا گیا ہے اور ڈاکٹر عافیہ اور حسین حقانی کے حوالے سے جن عزائم کا اظہار کیا گیا ہے وہ پاکستانی حکمرانوں کی ذہنی غلامی سمجھنے کے لیے کافی ہے۔ پہلی بات تو یہ ہے کہ اے کاش پاکستانی حکمران ڈیل کرنے کی صلاحیت رکھتے۔ یہ لوگ ڈیل کیا جانیں اور ڈیل وہ لوگ کرتے ہیں جنہیں اپنی کسی قوت کا علم ہو، اس کی اہمیت جانتے ہوں اور سامنے والے سے منواسکتے ہوں۔ دوسری بات یہ کہ اب تک کی تاریخ تو یہی بتاتی ہے کہ پاکستانی حکمران ڈیل نہیں کرتے ڈکٹیشن لیتے ہیں، ہدایت لیتے ہیں اور آنکھوں کے اشارے سمجھ کر صاحب بہادر کے مزاج کے مطابق کام کرتے ہیں۔ اس حوالے سے زیادہ بدنام تو جنرل پرویز مشرف ہیں لیکن جنرل ایوب، جنرل ضیا اور اب پاکستانی حکمران….. سب کے سب ڈکٹیشن لیتے رہے، ہدایات پر پوری طرح عمل کرتے رہے، ڈیل تو ترکی نے کی، ایران نے امریکا سے کی، شمالی اور جنوبی کوریا نے کی، چین نے کی، یہاں تک کہ ہانگ کانگ کے مسئلے پر ڈیل کی، بھارت نے کئی ممالک سے ڈیل کی۔ لیکن ہمارے حکمران بھارت سے بھی ڈیل نہیں کرسکتے، اس کے صرف دباؤ کو تسلیم کرتے ہیں یا اس کے دباؤ میں آکر کوئی غلط قدم اٹھالیتے ہیں، امریکا سے ڈیل کیسے کریں گے، ڈیل کرنے والے ریمنڈ ڈیوس کو اس طرح روانہ نہیں کرتے جس طرح اسے بھیجا گیا تھا، پاکستان سے امریکی ایمل کاسی کو لے گئے، یوسف رمزی کو لے گئے، ڈاکٹر عافیہ کو لے گئے، کون سی ڈیل ہوئی تھی، کوئی ڈیل نہیں تھی، صرف امریکا کی مرضی تھی، اب بھی درجنوں لوگ پاکستان سے غائب کرکے امریکا کے حوالے کیے جارہے ہیں کوئی ڈیل تھوڑی ہورہی ہے، جو کہا جارہا ہے وہ کیا جارہا ہے۔
ایک اور افسوسناک پہلو یہ بھی نکل رہا ہے کہ پاکستانی حکمرانوں کے نزدیک عافیہ صدیقی کو لانا یا حسین حقانی کو طلب کرنا کوئی اہم کام ہی نہیں۔ عافیہ نے زندگی کے 14 برس ناکردہ گناہ کی سزا میں امریکیوں کی تحویل میں گزار دیے، اس پر فرد جرم عائد ہوئی تو الزام ثابت نہ ہوسکا، پھر بھی امریکیوں کی مل مل کینگرو کورٹ نے عافیہ کو 86 برس کی سزا سنادی۔ دفتر خارجہ کے ترجمان کی وضاحت سے بھی یہی لگ رہا ہے کہ عافیہ ان کی ترجیحات میں نہیں ہے بلکہ ان کے لیے اس کی کوئی اہمیت نہیں ہے۔ امریکی ایجنٹ نے پاکستان میں قانون کی خلاف ورزی کی حادثے میں پاکستانی نوجوان کو ہلاک کیا دوسرے کو زخمی کیا اور تماشا دیکھیے مقدمہ سفارت خانے کے پاکستانی عملے کے خلاف بن گیا۔ کیا گاڑی وہ چلا رہا تھا، سگنل کی خلاف ورزی اس نے کی تھی؟ ایسا تو نہیں تھا اس نے تو جو کچھ کیا بعد میں کیا اور اس کا خیال یہی تھا کہ پاکستانی حکام ہدایات ماننے کے عادی ہیں اس لیے میں جو ہدایات دوں گا وہ اسے مان لیں گے۔ اس کو تو کارسرکار میں مداخلت قرار دے دیا گیا اور اب کیا ہوگا۔ اس کا پتا نہیں کیوں کہ یہ بات عدالت کے سامنے بتائی گئی ہے کہ جب پاکستان نے حسین حقانی کو حوالے کرنے کا کہا تو امریکیوں نے اپنا بندہ مانگ لیا ہے۔ ویسے یہ بھی ایک اہم بات ہے کہ پاکستانی ترجمان نے ڈاکٹر عافیہ کا ذکر ایسے کیا ہے جیسے وہ کوئی مجرم ہو۔ یہ موقع پہلی مرتبہ نہیں آیا ہے کہ پاکستان کسی کے بدلے ڈاکٹر عافیہ کو لاسکتا ہے بلکہ حقیقت یہ ہے کہ پاکستانی حکمرانوں نے ہر ایسے موقع کو دیدہ و دانستہ ضائع کیا ہے۔ اگر شکیل آفریدی امریکی ایجنٹ ہے تو اس کا بھی کلبھوشن کی طرح کا بیان لے کر ویڈیو ریکارڈنگ عام کی جائے اور اس کے بدلے عافیہ صدیقی کو پاکستان لائے اور حسین حقانی کو حوالے کرنے کی شرط رکھی جائے۔ اس میں خوفزدہ ہونے کی ضرورت نہیں۔ لیکن افسوس ہے کہ حکمران عافیہ کے مسئلے پر قومی غیرت کا مظاہرہ نہیں کررہے، وہ عافیہ کو قوم کی بیٹی نہیں سمجھتے بلکہ اس حوالے سے بے حسی کا رویہ اختیار کیا گیا ہے۔ جہاں تک حسین حقانی کا تعلق ہے تو وہ مجرم ہو یا ملزم اسے طلب کرنے کی ہمت ہمارے حکمرانوں میں نہیں اور اس کے لیے کوئی ڈیل بھی نہیں کرسکتے۔ پھر بھی ہماری دُعا ہے کہ خدا پاکستانی حکمرانوں کو امریکا اور دوسرے ممالک سے ڈیل کرنے کے قابل بنائے۔ یہ لوگ صرف اپنے بینک بیلنس، بین الاقوامی سودوں اور ٹھیکوں میں ڈیل کرتے ہیں۔ پلاٹوں، پرمٹوں اور سیٹوں کی خریدوفروخت میں بڑھ چڑھ کر ڈیل کرتے ہیں، پتا نہیں امریکی دفتر خارجہ کے بیان اور پاکستانی دفتر خارجہ کے بیانات کا آپس میں کوئی تعلق ہے یا نہیں، لیکن ایک ہی دن پاکستان کے ساتھ امریکی دفتر خارجہ کا بیان بھی لگا ہے کہ ہم پاکستان میں جمہوریت کا تسلسل چاہتے ہیں، شاید اس کا مطلب یہی ہے کہ اگر آپ بھی جمہوریت کا تسلسل چاہتے ہیں تو جو ہم کہہ رہے ہیں مان لیں…. لیجیے ہوگئی ڈیل۔