کیا راؤ انوار کو اس کے کیے کی سزا مل جائے گی؟

338

جعلی پولیس مقابلوں کے حوالے سے بدنام سابق ایس ایس پی ملیر راؤ انوار احمد خان ان دنوں نقیب اللہ قتل کیس میں مکافات عمل سے گزر رہا ہے۔ کل تک راؤ انوار جو مختلف افراد کو دہشت گردی کا ملزم بناکر عدالت میں پیش کرتا تھا آج وہ خود انسدد دہشت گردی کی عدالت میں ملزم کی حیثیت سے جوڈیشل ایکشن کا سامنا کر رہا ہے۔ چوں کہ پولیس کی طرف سے دہشت گردی کی عدالت میں اس مقدمے کی سماعت کے دوران ملزم کو غیر معمولی سہولتیں فراہم کی جارہی ہیں۔ جس کا عدالت نوٹس لے چکی ہے اور پولیس سے جواب بھی طلب کیا تھا کہ ملزم کو بغیر ہتھکڑی کیوں عدالت میں پیش کیا گیا، اس لیے لوگوں کو خدشہ ہے کہ وہ اپنے جرم کی سزا خصوصاً مقتول نقیب کے خاندان والوں اور دوستوں کی خواہش کے مطابق نہیں پاسکیں گے۔ لیکن سزائیں کسی کی خواہشات کے مطابق نہیں ملا کرتیں بلکہ قانونی تقاضوں کے مطابق عدالتیں سنایا کرتی ہیں۔
نقیب اللہ کے رشتے داروں اور اس حوالے بنائے گئے جرگے کا مطالبہ ہے کہ ملزم راؤ انوار کو سزائے موت دی جائے۔ اس مطالبے کے برعکس ملزم راؤ کو عدالتی کارروائی کے دوران دی جانے والی غیر معمولی سہولتیں جو یقیناًصوبائی حکام کی ہدایت پر پولیس اور جیل حکام دے رہیں ہوں گے سے ایسا لگ رہا ہے کہ ملزم ایس ایس پی کو نہ صرف سزا سے بچانے کے لیے قانونی نکات کی مدد لی جارہی ہے۔ راؤ انوار پر مبینہ طور پر متعدد جعلی مقابلوں میں سیکڑوں افراد کو قتل کردینے کے الزامات ہیں۔ اس طرح وہ سنگین واداتوں میں ملوث خطرناک ملزم ہے۔ لیکن اسے سہولت فراہم کرنے کے لیے جیل میں قید کرنے کے بجائے اس کی ذاتی رہائش گاہ ملیر کینٹ کو سب جیل قرار دے کر گھر ہی میں مقید کردیا گیا ہے۔ سب جیل قرار دیے جانے والی ہر عمارت کے باہر جیل سیکورٹی لگادی جاتی ہے۔ جب کہ راؤ انوار ہمیشہ ہی سے اپنے آپ کو محافظوں کے درمیان رکھا کرتا تھا۔ اس لیے کسی بھی طرح یہ احساس ہی نہیں ہورہا ہوگا کہ وہ ’’قتل کا ملزم‘‘ ہے۔
حکومت ایس ایس پی راؤ انوار کو مشکلات سے بچانے کے لیے کیا کچھ کرسکتی ہے اس کا اندارہ جیل حکام کی جانب سے بدھ کو انسداد دہشت گردی عدالت میں پیش کی گئی رپورٹ سے کیا جاسکتا ہے۔ جیل حکام کی جانب سے عدالت کو موصول ہونے والے نوٹیفکیشن میں بتایا گیا ہے کہ: ’’عدالتی احکامات کے فوری بعد محکمہ داخلہ نے فون کے ذریعے آئی جی جیل خانہ جات کو احکامات جاری کیے اور بتایا کہ راؤ انوار کو سیکورٹی خدشات لاحق ہیں اس کیے ملیر کینٹ میں واقع راؤ کی رہائش گاہ کو سب جیل قرار دیا جائے‘‘۔
جیل حکام نے اپنے ہی نوٹیفیکشن میں یہ ثابت کردیا کہ سینٹرل جیل ہی غیر محفوظ ہے۔ اس جیل میں ساڑے تین ہزار سے زاید قیدی ہیں اگر یہ صرف ایک شخص کے لیے محفوظ نہیں تو باقی قیدیوں، جیل کے افسران اور وہاں رہائش پزیر عملے کے لیے کس طرح محفوظ ہے۔ چیف جسٹس جسٹس میاں ثاقب نثار کو جیل کے اس نوٹیفیکشن اور محکمہ داخلہ کی فون پر دی جانے والی ہدایات کو ماننے کا نوٹس لینا چاہیے تاکہ خاص و عام قیدیوں کے درمیان امتیاز ختم ہوسکے اور انصاف کے تقاضے پورے ہوسکیں۔
یاد رہے کہ رواں سال جنوری میں کراچی کے علاقے شاہ لطیف ٹاؤن میں جعلی پولیس مقابلے میں دیگر 3 شہریوں کے ساتھ سوشل میڈیا کے سرگرم نقیب اللہ محسود کو ہلاک کردیا گیا تھا۔ بدھ کو اس مقدمے کی سماعت کے موقع پر ملزم کی عدم موجودگی پر جج کے پوچھنے پر انسداد دہشت گردی عدالت کے جج کو بتایا گیا کہ نقیب اللہ قتل کیس کے مرکزی ملزم سابق ایس ایس پی ملیر راؤ انوار جیل جانے کے بعد بیمار پڑ گئے۔ جیل حکام نے راؤ انوار کا میڈیکل سرٹیفکیٹ عدالت میں پیش کیا اور موقف اختیار کیا کہ گزشتہ روز ڈاکٹروں نے چیک اپ کیا تھا، جس کے مطابق راؤ انوار علیل ہیں اور وہ عدالت میں پیش نہیں ہوسکتے۔ اس ضمن میں جیل حکام نے راؤ انوار کا میڈیکل سرٹیفکیٹ عدالت میں پیش کیا اور موقف اختیار کیا کہ گزشتہ روز ڈاکٹروں نے چیک اپ کیا تھا، جس کے مطابق راؤ انوار علیل ہیں اور وہ عدالت میں پیش نہیں ہوسکتے۔ راؤ انوار کی بیماری سے متعلق عدالت میں پیش کیے گئے میڈیکل سرٹیفکیٹ کے مطابق ملزم کو متعدد امراض لاحق ہیں۔
جس پر جج نے جیل حکام کو ہدایات جاری کیں کہ کیس کی آئندہ سماعت پر ملزم راؤ انوار کی حاضری یقینی بنائی جائے۔ عدالت نے ریمارکس دیے کہ اگر ملزم کو پیش نہ کیا گیا تو میڈیکل سرٹیفکیٹ جاری کرنے والے ڈاکٹر کو بھی طلب کیا جا سکتا ہے۔ گوکہ راؤ انوار بیماری کے باوجود اپنی رہائش گاہ جسے سب جیل قرار دیا جاچکا ہے ہی میں زیر علاج ہیں۔ ایسی صورت میں سوال پیدا ہوتا ہے کہ کیا گھر پر اسپتال کی سہولتیں بھی دستیاب ہیں؟۔
یاد رہے کہ ایک ماہ قبل تک بااثر ملزمان کو بیماری کا بہانہ بناکر جناح اسپتال میں منتقل کردیا جاتا تھا جس کا چیف جسٹس پاکستان نے جناح اسپتال کے اچانک معائنہ کے دوران میں سخت نوٹس لیا تھا اور میڈیکل سپرنٹنڈنٹ کو اس حوالے سے سخت ہدایات جاری کی تھیں۔ لگتا ہے جناح اسپتال میں قیدیوں کو بیماری کے نام پر سہولت فراہم کرنے کے سلسلہ کو چیف جسٹس کی جانب سے بند کرنے کے بعد اب بااثر قیدی اپنے گھروں ہی میں یہ سہولت حاصل کرنے کا سلسلہ شروع کرچکے ہیں۔ جس ملک میں سنگین مقدمات میں ملوث ملزمان پر اس قدر نوازشیں ہوں وہاں ایسے سوالات اٹھا کرتے ہیں کہ کیا وہ اپنے کیے کی سزا پاسکیں گے؟۔