سرسید اور زمانے کا جبر

437

سرسید کے عاشقوں نے سرسید کے تحفظ کے لیے مٹی کی جو ڈھالیں تخلیق کی ہیں ان میں سے ایک ڈھال کا نام ’’زمانے کا جبر‘‘ ہے۔ سرسید کے عاشق کہتے ہیں کہ سرسید نے جو بھی کیا زمانے کے جبر کے تحت کیا۔ 1857ء کی جنگ آزادی ناکام ہوگئی تھی۔ انگریز چوں کہ جنگ آزادی کو مسلمانوں کی ’’کارستانی‘‘ سمجھتے تھے اس لیے وہ مسلمانوں کے سخت خلاف اور ہندوؤں کے قریب ہوگئے تھے۔ انہوں نے ہندوؤں کو نوازنا شروع کردیا تھا۔ ہندو جدید تعلیم حاصل کررہے تھے اور روزگار کے تمام سرچشموں پر قابض ہورہے تھے۔ اس صورت میں سرسید نے انگریزوں کی طرف ’’دوستی‘‘ کا ہاتھ بڑھایا۔ مسلمانوں کو جدید تعلیم کے حصول پر مائل کیا اور اُن کے لیے علی گڑھ کالج کی صورت میں جدید تعلیم کا ادارہ قائم کیا۔ اس سلسلے میں پہلی بات تو یہ ہے کہ سرسید 1857ء کی جنگ آزادی کی ناکامی کے بعد انگریزوں کے ’’عاشق‘‘ نہیں بنے بلکہ یہ روحانی، اخلاقی، تہذیبی اور علمی مرض انہیں بہت پہلے سے لاحق تھا۔ اس کا اندازہ اس بات سے کیا جاسکتا ہے کہ سرسید کو 1857ء کی جنگ آزادی کے برپا ہونے کی خبر ملی تو انہوں نے اپنے ایک خط میں لکھا۔
’’بڑا شکر خدا کا یہ ہے کہ اس ناگہانی آفت میں جو ہندوستان میں ہوئی، فدوی بہت نیک نام اور سرکارِ دولت مدار انگریزی کا طرف دار اور خیر خواہ رہا‘‘۔
(مکتوبات سرسید۔ جلد اوّل، مرتب شیخ اسماعیل پانی پتی۔ صفحہ 409، بحوالہ آثار سرسید، ضیاء الدین لاہوری، صفحہ 44)
ایک اور مقام پر سرسید نے لکھا۔
’’دفعتاً سرکشی میرٹھ کی خبر بجنور پہنچی۔ اوّل تو ہم نے جھوٹ جانا مگر جب یقین ہوگیا تو اسی وقت سے میں نے اپنی گورنمنٹ کی خیر خواہی اور سرکار کی وفاداری پر چست کمر باندھی۔ دن رات ’’صاحب‘‘ کی کوٹھی پر حاضر رہتا تھا اور رات کو کوٹھی کا پہرہ دیتا تھا۔ ہم کو یاد نہیں دن رات میں کسی وقت ہمارے بدن پر سے ہتھیار اترا ہو‘‘۔
(آثار سرسید۔ از ضیاء الدین لاہوری۔ صفحہ 45)
ان اقتباسات سے ثابت ہوتا ہے کہ سرسید کی غلامانہ ذہنیت کا 1857ء کی جنگ آزادی کی ناکامی اور اس سے پیدا ہونے والی صورتِ حال سے کوئی تعلق نہ تھا بلکہ
مرا مزاج لڑکپن سے عاشقانہ ہے
کے مصداق سرسید کا مزاج لڑکپن سے ’’غلامانہ‘‘ تھا۔ لوگ سمجھتے ہیں کہ سرسید نے مسلمانوں کو ’’مفکر اور مدبر‘‘ بنانے کے لیے جدید تعلیم کو سر پر بٹھایا تھا۔ ایسا نہیں ہے، بلکہ وہ علی گڑھ کالج کے ذریعے مسلمانوں کو انگریزوں کا ’’وفادار‘‘ بنانا چاہتے تھے۔ کالج کا سنگ بنیاد رکھے جانے کی تقریب سے خطاب کرتے ہوئے سرسید نے کالج کا مقصد بیان فرمایا۔ انہوں نے کہا ’’ہندوستان کے مسلمانوں کو سلطنت انگریزی کے لائق و کار آمد بنانا اور ان کی طبیعتوں میں اس قسم کی خیر خواہی پیدا کرنا جو ایک غیر سلطنت کی غلامانہ اطاعات سے نہیں بلکہ عمدہ گورنمنٹ کی برکتوں کی اصل قدر شناسی سے پیدا ہوتی ہے‘‘۔
ایک اور مقام پر سرسید نے کہا۔
’’اصلی مقصد اس کالج کا یہ ہے کہ مسلمانوں میں عموماً اور بالتخصیص اعلیٰ درجے کے مسلمان خاندانوں میں یورپین سائنسز اور لٹریچر کو رواج دے اور ایک ایسا فرقہ پیدا کرے جو ازروئے مذہب کے مسلمان اور ازروئے خون اور رنگ ہندوستانی ہوں مگر باعتبار مذاق اور رائے اور فہم کے انگریز ہوں‘‘۔
(آثار سرسید۔ ازضیاء الدین لاہوری۔ صفحہ 59)
علی گڑھ کالج کے ’’مقاصد‘‘ کے سلسلے میں صرف سرسید کا ذہن ہی نہیں مولانا حالی کا ذہن بھی واضح تھا۔ چناں چہ انہوں نے لکھا۔
’’سب سے زیادہ وفاداری اور لائلٹی کی مستحکم بنیاد جو سرسید کی مذہبی تحریروں نے مسلمانوں میں قائم کی ہے وہ انگریزی تعلیم کی مزاحمتوں کو دور کرکے ان کو عام طور پر اس کی طرف متوجہ کرنا اور خاص کر ان کے لیے محمڈن کالج قائم کرنا ہے۔ جس کی رو سے نہایت وثوق کے ساتھ کہا جاسکتا ہے کہ جس قدر اعلیٰ تعلیم مسلمانوں میں زیادہ پھیلتی جائے گی اسی قدر وہ تاج برطانیہ کے زیادہ وفادار اور گورنمنٹ کے زیادہ معتمد علیہ بنتے جائیں گے‘‘۔
(آثار سرسید۔ ازضیاء الدین لاہوری۔ صفحہ61)
آئیے اب اس ’’افسانے‘‘ کو دیکھتے ہیں کہ سرسید نے جو کچھ کیا زمانے کے جبر کے تحت کیا۔ اصولی اعتبار سے دیکھا جائے تو مسلمانوں کی تہذیب اور تاریخ میں زمانے کا جبر کوئی چیز ہی نہیں بلکہ ایک لاکھ 24 ہزار انبیا زمانے کے جبر کو چیلنج کرنے کے لیے ہی مبعوث کیے گئے۔ نمرود بادشاہ وقت تھا۔ اس کے پاس ریاست، حکومت، فوج اور مال و دولت کی طاقت تھی۔ یہ تمام چیزیں ’’زمانے کا جبر‘‘ تھیں مگر اللہ تعالیٰ نے سیدنا ابراہیمؑ کو زمانے کے جبر کے سامنے تن تنہا کھڑا کردیا۔ اس جبر کے سامنے کھڑا ہونا کھیل نہیں تھا۔ زمانے کے جبر کو چیلنج کرنے کی وجہ سے سیدنا ابراہیمؑ کو دہکتی آگ میں پھینک دیا گیا، یہ اور بات کہ اللہ تعالیٰ نے آگ کو گلزار بنادیا۔ سیدنا موسیٰؑ نے بھی زمانے کے جبر کی صورت میں فرعون کو چیلنج کیا اور وہ اس چیلنج کا ’’خمیازہ‘‘ بھگتنے مگر اللہ نے کرم کیا اور فرعون کو اس کی فوج کے ساتھ غرق کردیا۔ سیدنا عیسیٰؑ نے زمانے کو چیلنج کیا تو زمانے کے جبر نے انہیں اپنے تئیں سولی پر چڑھادیا۔ رسول اکرمؐ سردار الانبیا تھے۔ خاتم النبین تھے مگر زمانے کے جبر کو چیلنج کرنے کی پاداش میں آپؐ کے قتل کا منصوبہ بنایا گیا اور آپؐ کو مکہ چھوڑنا پڑا۔ یہی نہیں آپؐ نے مدنی زندگی کے 10 برسوں میں زمانے کے جبر کو توڑنے کے لیے 30 سے زیادہ جنگیں لڑیں۔ بالآخر زمانے کا جبر پاش پاش ہوگیا اور اسلام ساری دنیا میں پھیل گیا۔ اس اعتبار سے دیکھا جائے تو زمانے کے جبر کی مزاحمت انبیا کی سنت ہے۔ اسی سنت کو ہمارے بڑے علما اور صوفیا نے بھی اختیار کیا۔ امام ابوحنیفہ نے خلیفہ المنصور کے جبر کے آگے ہتھیار ڈالنے سے صاف انکار کردیا۔ سیدنا مجدد الف ثانی نے جہانگیر کے جبر کو چیلنج کیا۔ خیر یہ تو بہت ہی بڑی شخصیتوں کا معاملہ ہے۔ ان شخصیتوں سے بہت نیچے بھی اسلام اور مسلمانوں کی روایت جبر کی مزاحمت ہی کی روایت ہے۔
اکبر الٰہ آبادی سرسید کے ہم عصر تھے۔ انہوں نے انگریزی تعلیم بھی حاصل کی تھی اور انگریزوں کی نوکری بھی اختیار کی۔ مگر انہوں نے وقت کے جبر کے خلاف ذہنی، نفسیاتی اور تخلیقی سطح پر مزاحمت کی۔ اس مزاحمت نے اکبر کی بے مثال شاعری کو جنم دیا۔ اس شاعری کے کئی کمالات ہیں مگر سب سے بڑا کمال یہ ہے کہ برصغیر کی ملت اسلامیہ جو بازی عسکری میدان میں ہار گئی تھی اکبر نے وہ بازی شاعری میں جیت کر دکھادی۔ اقبال کی مثال اکبر سے بھی زیادہ بڑی ہے۔ اقبال بھی سرسید کی طرح غلام ہندوستان میں پیدا ہوئے تھے اور انہیں بھی زمانے کا جبر ’’لاحق‘‘ تھا، مگر اسلام کے جلال و جمال نے اقبال کے قلب و نظر پر ایسا اثر کیا کہ اقبال نے اپنی شاعری سے زمانے کے جبر کے پرخچے اُڑا دیے۔ اقبال کی سلطنت شاعری کی سلطنت تھی اور اس سلطنت میں زمانے کا جبر کہیں ماتم کرتا نظر آتا ہے اور کہیں خود پر شرمندہ دکھائی دیتا ہے۔ اسلام مسلمانوں سے کہتا ہے زمانے کو اتنا قوی مت ہونے دو کہ وہ تم کو بدل دے بلکہ اپنی روحانی، اخلاقی، علمی اور تہذیبی قوت سے تم زمانے کو بدل دو۔ اقبال کے پاس فوج نہیں تھی کہ وہ انگریزوں کو عسکری محاذ پر شکست دیتے مگر انہوں نے اپنی تخلیقی قوت سے اپنی شاعری میں زمانے کے جبر کی فوج کو بدترین شکست سے دوچار کرکے دکھا دیا۔ انہوں نے مسلمانوں سے کہا۔
قوت عشق سے ہر پست کو بالا کردے
دہر میں اسم محمدؐ سے اجالا کردے
اقبال کے بعد مولانا مودودیؒ منظر پر طلوع ہوئے۔ مولانا غلام ہندوستان میں پیدا ہوئے تھے مگر ان کے ایمان نے بھی زمانے کے جبر کے سامنے ہتھیار ڈالنے سے انکار کردیا۔ مولانا کے افکار نے پوری مسلم دنیا میں زمانے کے جبر کے خلاف مزاحمتی جذبہ پیدا کیا اور مولانا نے اقتدار، اختیار، سرمائے اور ابلاغ کے جدید ذرائع کی مدد کے بغیر زمانے کے جبر کو شکست دے کر پوری امت کے بیانیے کو بدل دیا۔ قائد اعظم اگر زمانے کے جبر کو تسلیم کرتے تو وہ کبھی قیام پاکستان کا مطالبہ نہ کرتے۔ اس لیے کہ زمانے کا جبر بہت قوی تھا۔ انگریز ہمارے حاکم تھے۔ وہ دنیا کی واحد سپر پاور تھے۔ ان کی سلطنت اتنی وسیع تھی کہ اس میں سورج غرب نہ ہوتا تھا۔ دوسری طرف بھارت ہندو اکثریت کا ملک تھا اور ہندو بھارت ماتا کے حصے بخرے کرنے پر آمادہ نہ تھے مگر ’’جدید تر‘‘ نظر آنے والے قائد اعظم نے زمانے کے جبر کی دونوں صورتوں کو چیلنج کیا اور جدید دنیا کی سب سے بڑی اسلامی ریاست قائم کرکے دکھا دی۔ اسلام روحانی، اخلاقی، تہذیبی، نفسیاتی اور علمی زنخوں کا دین نہیں ہے۔ اسلام ’’اشرف المخلوقات‘‘ کا دین ہے۔ ان مردوں کا دین ہے جن کے بارے میں مولانا روم نے فرمایا ہے۔
کار مرداں روشنی و گرمی است
کارِ دونا حیلہ و بے شرمی است
یعنی مردوں کا کام روشنی اور حرارت مہیا کرنا ہے۔ اور گھٹیا لوگوں کا کام حیلہ و بے شرمی۔ اسی کو اردو میں ’’اگر‘‘ اور ’’مگر‘‘ اور انگریزی میں ’’if‘‘اور ’’but‘‘ بھی کہتے ہیں۔ انبیا اور ان کے وارثین کی روایت روشنی و گرمی ہے اور سرسید جیسے لوگوں کی روایت مولانا روم کے الفاظ میں حیلہ و بے شرمی ہے۔ اگر اور مگر ہے۔ اِف اور بٹ ہے۔مولانا روم دنیا کے سب سے بڑے شاعر اور ہمارے اکابر صوفیہ میں سے ایک ہیں اور صوفیہ کا تشخص ’’امن و محبت‘‘ ’’وعظ و تلقین‘‘ اور ’’علم و حکمت‘‘ بتایا جاتا ہے مگر مولانا روم نے صاف کہا ہے۔
مصلحت در دین عیسیٰ غارو کوہ
مصلحت در دین ما جنگ و شکوہ
یعنی سیدنا عیسیٰؑ کے دین کی مصلحت ’’ترک دنیا‘‘ یعنی غارو و کوہ ہے اور رسول اکرمؐ کے دین کی مصلحت ’’جنگ و شکوہ‘‘ ہے۔ اسلامی تاریخ میں روشنی و گرمی کی ایک صورت جہاد اور اس سے حاصل ہونے والا شکوہ بھی ہے۔ اس سلسلے میں اقبال کی بات بھی سن لیجیے، کہتے ہیں۔
تقدیر کے پابند جمادات و نباتات
مومن فقط احکام الٰہی کا ہے پابند
اس تناظر میں دیکھا جائے تو زمانے کا جبر دراصل انسانوں کو Define کرتا ہے۔ ان کی تعریف متعین کرتا ہے۔ وہ بتاتا ہے کہ انسان ہیرا ہے یا پتھر؟ روشنی و گرمی مہیا کرنے والا ہے یا حیلہ و بے شرمی پھیلانے والا ہے؟ انسان سرسید ہے یا اکبر الٰہ آبادی، انسان سرسید ہے یا اقبال؟ انسان سرسید ہے یا مولانا مودودی؟ انسان جنرل پرویز مشرف ہے یا ملا عمر؟۔ جس نے 21 ویں صدی میں اقبال کے مشورے پر عمل کرکے اسلام کی لاج رکھ لی۔ اقبال کا مشورہ یہ ہے
اگر ملک ہاتھوں سے جاتا ہے جائے
تُو احکام حق سے نہ کر بے وفائی