سیاست دانوں کی عزت کون کرائے گا؟

365

یہ بات معلوم تو سب کو ہے کہ کس کا کام کیا ہے لیکن جس کا جو کام ہے وہ کر نہیں رہا بلکہ اپنے کام سے زیادہ دوسروں کے کام روکنے، بگاڑنے یا خود کرنے میں لگا ہوا ہے۔ وزیر اعظم پاکستان جناب شاہد خاقان عباسی نے کہاہے کہ حکومت چلانا عدالتوں اور الیکشن کمیشن کا کام نہیں، ججوں اور جرنیلوں کی طرح سیاست دانوں کی بھی عزت ہونی چاہیے، احتساب صرف سیاست دانوں کا کیوں ہوتا ہے۔ اس کے ساتھ ساتھ انہوں نے اپنے تمام شکوؤں کا جواب بھی دے دیا کہ جو فیصلے ہم نے قبول کیے ہیں وہ عوام مانیں گے نہ تاریخ پھر یہ بیان دیا کہ ہم عدالتی فیصلوں کا احترام کرتے ہیں۔ وزیراعظم نے نواز شریف صاحب کا فلسفہ دہرایا کہ ووٹ کی عزت کے بغیر ترقی ممکن نہیں۔ وزیراعظم کی جانب سے ایک اہم بات یہ بھی کہی گئی کہ ملک عدالتی فیصلوں اور نیب کے الٹے سیدھے کاموں سے نہیں ووٹ کی 5 سال کے لیے عزت سے ترقی کرے گا اور 30 جولائی تک انتخابات نہ ہوئے تو عوام کے پاس جائیں گے۔ وزیراعظم صاحب نے جو کچھ فرمایا اس سے کسی کو اصولی طور پر اختلاف نہیں ہوسکتا لیکن مشکل یہ ہے کہ ہمارے حکمرانوں کی نظری سیاست اور عملی سیاست میں زمین آسمان کا فرق ہے۔ حکومت چلانے کے بارے میں ان کا نظریہ ہے کہ یہ الیکشن کمیشن اور عدالتوں کا کام نہیں ہے اس سے کون اختلاف کرسکتا ہے۔ لیکن الیکشن کمیشن، نیب اور عدالتوں کو اپنا کام کرنے کیوں نہیں دیا جاتا۔ عدالتیں فیصلے دیتی ہیں تو ان کا مذاق بنادیا جاتا ہے پورے ملک میں عدالتوں کے خلاف عوامی مہم چلائی جاتی ہے۔ عدالتی فیصلوں کا مقابلہ عدالتوں میں کرنا چاہیے اور اگر حکومتیں حکومت نہ چلائیں عدالتوں کے خلاف مہم چلاتی رہیں تو پھر حکومت کون چلائے گا۔ کوئی تو یہ کام کرے گا۔ بات یہیں سے خراب ہوتی ہے پھر سیاست دانوں کی عزت کا معاملہ سامنے آجاتا ہے۔ انہوں نے شکوہ کیا ہے کہ ججوں اور جرنیلوں کی طرح سیاست دانوں کی بھی عزت ہونی چاہیے اور احتساب صرف سیاست دانوں کا کیوں ہوتا ہے۔ گویا وہ یہ کہنا چاہتے تھے کہ احتساب ججوں اور جرنیلوں کا بھی ہونا چاہیے اور ججوں اور جرنیلوں کو بھی سیاست دانوں کی طرح رسوا ہونا چاہیے۔ یقین کیجیے ایسا ہی ہوتا ہے جس جرنیل نے اپنا کام چھوڑ کر سیاست میں ہاتھ ڈالا اس کی عزت داؤ پر لگ گئی۔ باوجود بہت سے اچھے کاموں کے جنرل ضیا الحق، جنرل ایوب اور جنرل پرویز مشرف کو مجموعی طور پر اچھے نام سے یاد نہیں کیا جاتا۔ سارے سیاست دان انہیں آمر، ڈکٹیٹر، قابض وغیرہ کہتے ہیں اور ٹھیک ہی کہتے ہیں۔ لیکن اگر عوام کی خدمت کے لیے پانچ سال تک کا اعتماد لے کر کوئی سیاست دان اسمبلی میں پہنچے اور وہاں بیٹھ کر پلاٹ پرمٹ کمیشن اور مال بنانے میں لگ جائے تو بھی وہ عزت کا مستحق کیونکر قرار پائے گا۔ وزیراعظم کو ایسا لگ رہا ہے کہ جرنیلوں اور ججوں کی زیادہ عزت ہے حالانکہ حکومت اور مسلم لیگ ن نے دونوں ہی کی عزت گرا نے میں کوئی کسر نہیں چھوڑی۔ پھر یہ سمجھنا کہ جرنیلوں کی طرح ججوں کی عزت بھی بہت ہے حقیقت کے برعکس ہے ان دونوں کی عزت ان کی طاقت کی وجہ سے ہے ججوں کے پاس فیصلے دے کر کسی کو بھی نا اہل قرار دینے یا کسی کو بھی جیل بھجوانے کی طاقت ہے اور فوج تو ہے ہی طاقت کا سرچشمہ۔ ایسے میں ان کو براہ راست بے عزت کرنے کی ہمت تو خادم رضوی ہی کرسکتے ہیں۔ نہال ہاشمی جیسے سیاست دانوں کو تو معافی مانگنی پڑتی ہے بلکہ وکلا برادری کی مدد بھی لینی پڑتی ہے۔ سوشل میڈیا دیکھ لیں ان دونوں طبقات کی عزت بھی خراب کی جارہی ہے۔ وزیراعظم کے اس شکوے کا جواب ان ہی کے پاس ہونا چاہیے کہ احتساب صرف سیاست دانوں کا کیوں ہوتا ہے۔ اس کے دو پہلو ہیں۔ ایک یہ کہ شاید سیاست دانوں کی حرکتیں ہی ایسی ہیں۔ لیکن ایسا عملی طور پر ممکن نہیں کہ صرف سیاست دانوں کی حرکتیں ایسی ہیں۔ دوسرا پہلو یہ ہے کہ وزیراعظم بھی اس کے ذمے دار ہیں کہ احتساب صرف سیاست دانوں کا کیوں ہوتا ہے۔ انہوں نے اس سے پہلے والے سیاست دانوں نے اور بہت سے دوسرے سیاست دانوں نے ایسا کوئی طریقہ کار وضع کیوں نہیں کیا کہ جرنیلوں کا بھی احتساب کیا جاسکے۔ یہ بات درست ہے کہ ججوں اور جرنیلوں کو بہت سارے تحفظ حاصل ہوتے ہیں لیکن اسی قسم کا تحفظ سیاست دانوں کو بھی حاصل ہوتاہے پھر بھی ان کا احتساب ہوجاتا ہے اس کا سبب وہی ہے کہ حکمرانوں نے ایسا کوئی طریقہ وضع نہیں کیا کہ حاضر سروس جرنیلوں کا احتساب کیا جائے۔ اب اس کے اشارے دیے جارہے ہیں لیکن کام اشارے دے کر تو نہیں کیے جاتے۔ ایسا کیوں نہیں ہوا کہ آئین کے آرٹیکل 6 کو بروئے کار لایاجاتا تاکہ جرنیلوں کو آئین توڑنے کی جرأت نہ ہوتی یہ بحث کہ آغاز کہاں سے کیا جائے۔ اب بے معنی ہے کیونکہ نواز شریف کو نا اہل قرار دے کر عدالتوں نے روایت ڈال دی ہے تو پھر کسی حاضر سروس جرنیل کی جانب سے آئین شکنی پر اسے آئین شکنی کے الزام میں احتساب کا سامنا کرنا یقینی بنانا حکمرانوں ہی کا کام ہے اس حوالے سے قانون سازی میں ان کی پارلیمانی اکثریت کو کوئی رکاوٹ نہیں تھی۔ ووٹ کی عزت بھی اسی میں ہے کہ جس مقصد کے لیے ووٹ لیا ہے وہ پورا کیا جائے۔ ووٹ لینے کے بعد پانچ سال کی اجارہ داری یا زبردستی قبضہ نہیں۔ ووٹ تو لیا ہی اس لیے جاتا ہے کہ خدمت کی جائے گی اور خدمت کے بجائے دوسرے کام کیے جائیں تو پھر خرابیاں ہی پیدا ہوں گی۔